اعتکاف کی روح کو سمجھنے کی کوشش کیجیے
مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری
اعتکاف کے لغوی معنی مطلقاً ٹہرنے کے ہیں جبکہ اس کے شرعی معنی قربِ الہی کی نیت سے مسجد میں اپنے آپ کو مقید کرلینے کے ہیں۔ اعتکاف اسلامی عبادات میں ایسی مہتم بالشان عبادت ہے جس میں سلوک و روحانی ارتقا کے اساسی اصول و عناصر یعنی قلت طعام، قلت منام، قلت کلام، قلت صحبت بالعوام شامل ہیں۔ اعتکاف کی باریکیوں، نزاکتوں، معارف و حقائق کو چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو اعتکاف بزرگ و برتر ہستی کے حضور میں نیازمندی و عاجزی کا اظہار کرنے، دلی توجہ کے ساتھ بندگی بجالانے، رضائے الہی کے مستوجب بننے، گناہوں، معصیتوں اور نافرمانیوں سے توبہ و استغفار کرنے، عقائد و اعمال کو سنوارنے، انسان میں ودیعت کردہ مختلف بہیمی داعیات، شیطانی وساوس اور نفسانی خواہشات سے نجات پانے، ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے اپنی غلطیوں و خطائوں پر پشیمان ہونے، ایمان میں اضافہ و عبادت میں کمال پیدا کرنے، زہد فی الدنیا اور تعلق مع اللہ کا جذبہ موجزن کرنے ، دنیا وما فیہا سے منقطع ہوکر درِ اقدس پر دل دردمند کی داستان سنانے ، تضعیفِ حسنات و تخفیف سیئات، تطہیرِ قلب و اذھاب رجس، لطف عمیم اور فیض یزدانی حاصل کرنے،نفس کا تزکیہ کرنے اور باطن تصفیہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے چونکہ اعتکاف میں بندہ کے افکار، خیالات، احساسات، اعمال اور افعال کا نقطہ ارتکاز ذات باری تعالی اور اس کی چوکھٹ ہوتی ہے۔
پیر طریقت حضرت مولانا ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی مدظہ العالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں ’’اعتکاف( یعنی خلوت نشینی ) کے ذریعہ جب بندہ اپنے اندر شوق الی اللہ کے جذبات کو موجزن کرلیتا ہے تو اس پر افاضہ رحمت خاصہ پروردگار میں مزیداضافہ ہوجاتا ہے جس کے باعث اس کی فطرت میں نفاست اور اس کے اندر ایسی لیاقت و استعداد پیدا ہوجاتی ہے جس کے ذریعے معصیت کی کثافتوں سے باہر نکلنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے‘‘۔علاوہ ازیں اعتکاف بے شمار فضیتلوں کی حامل عبادت ہے۔ ام المومنین بی بی عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ دنیا سے پردہ فرمانے تک رمضان المبارک کے آخیر عشرے میں اعتکاف کا التزام فرمایا کرتے تھے اور یہی معمول امہات المومنین نے بھی جاری رکھا (صحیحین)۔ حضرت سیدنا علی ابن حسین ؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رحمت عالمﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے آخری دہے میںاعتکاف کریگا اسے دو حج اور دو عمرے کرنے کا ثواب ملے گا (بیہقی)۔ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے فرمایا رحمت عالم ﷺ نے معتکف تمام گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کو ان تمام اچھے کاموں (جیسے بیمار کی عیادت کرنا، جنازے میں شرکت کرنا وغیرہ) کا جو وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا ایسے ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیکی کرنے والے کو دیا جاتا ہے (ابن ماجہ)۔
اعتکاف کے لیے مسلمان ہونا، عاقل ہونا، صحتمند ہونا ، نیت کرنا، دخول مسجد کے وقت جنابت سے پاک ہونا، خواتین کا حیض و نفاس سے پاک ہونا اور اپنے خاوند سے اجازت لینا شرط ہے۔ اعتکاف کے لیے بالغ ہونا اور جامع مسجد کا ہونا شرط نہیں۔ اسی طرح اعتکاف کے لیے وضو بھی شرط نہیں لیکن مسجد کے تقدس کا تقاضا یہی ہے کہ معتکف ہمیشہ باوضو رہے۔ خواتین گھر میں ہی نماز کے لیے مختص کمرے میں اعتکاف کریں گی۔ اگر اشد ضروری ہو تو خواتین دوران اعتکاف بقدر ضرورت گھریلو امور انجام دے سکتی ہیں۔ معتکف ایک جگہ اعتکاف بیٹھنے کے بعد اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف شہر کے ہر محلے کے حق میں سنت موکدہ علی وجہ الکفایہ ہے۔ اگر محلے کا کوئی فرد بھی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو کافی ہے ورنہ پورے محلے والے تارک سنت ہونے کی پاداش میں لائق عتاب ہوں گے۔ رمضان کے مسنون اعتکاف کا وقت 20 رمضان المبارک کے غروب آفتاب کے وقت سے عید الفطر کے رویت ہلال تک ہوتا ہے۔ اگر کوئی معتکف غروب آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوا یا وہ پہلے سے مسجد میں تھا لیکن نیت غروب کے بعد کی دونوں صورتوں میں یہ اعتکاف پورے آخری عشرہ کا اعتکاف نہ ہونے کی بنا پر مسنون نہ ہوگا بلکہ وہ مستحب ہوجائے گا۔ (احتیاطاً بعد نماز عصر مسجد میں داخل ہوجانا مناسب ہے) معتکف کو چاہیے کہ اعتکاف میں تلاوت قرآن، درود علی النبیﷺ، دینی کتب بینی اور توبہ و استغفار و تسبیح و تہلیل، مناجات،ذکرو اذکار ، ادعیہ ماثورہ، تہجد، چاشت، اشراق، اوابین، نوافل و قضائے عمری کی ادائیگی، آفاق و انفس میں غور و فکر کرنے کا کثرت سے اہتمام کرے۔
دوران اعتکاف احتلام ہوجائے تواعتکاف باطل نہیں ہوتا۔ اگر دوران اعتکاف روزہ ٹوٹ جائے تو اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے رمضان المبارک کے بعد نفل روزے کے ساتھ اس کی قضا کرنا واجب ہے۔ رمضان کا مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے تو صرف اسی دن کی قضا نفل روزے کے ساتھ واجب ہے جس میں اعتکاف ٹوٹا۔ معتکف پر بے ہوشی اتنی دیر تک طاری رہی کہ ایک روزہ قضا ہوگیا تو اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ورنہ نہیں۔ بحالتِ مجبوری معتکف افطار و سحر کے لیے گھر کو جاسکتا ہے۔ معتکف اعتکاف کے دوران محرم خواتین جیسے اپنی ماں ، بہن اہلیہ ،بیٹی اور بھتیجی وغیرہ سے بقدر ضرورت ملاقات کرسکتا ہے لیکن خیال رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت ہو جب مصلیوں کی آمد و رفت نہ ہوتی ہو۔ دوران اعتکاف ، معتکف مریض کی عیادت کے لیے نہیں جاسکتا اور نہ ہی نماز جنازہ میں شرکت کرسکتا ہے۔ معتکف کا بغیر کسی عذر کے مسجد تبدیل کرنے سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے۔ اگر جان کا خوف ہو یا آفات سماوی کے باعث مسجد تبدیل کرنا چاہتا ہے تو معتکف کو اجازت ہے۔ طبعی و شرعی حاجات کے سوا اگر معتکف تھوڑے وقت کے لیے بھی حدود مسجد سے باہر نکل جائے تو اعتکاف جاتا رہا۔ اسی طرح خاتون اپنے اعتکاف کے مخصوص مقام سے بلا عذر باہر نکلے اگرچہ وہ گھر ہی میں کیوں نہ ہو اعتکاف باطل ہوجائے گا۔ بعض معتکفین اپنی بے احتیاطی کی بنا پر ثواب عظیم سے محروم ہوجاتے ہیں اس کا خاص خیال رکھا جائے۔ وضو خانہ، مسجد سے متصل کمرے جات مسجد کا حصہ نہیں ہیں لہذا بلاوجہ وضو خانے یا متصل کمرے جات میں وقت گزارنے سے اعتکاف باطل ہوجائے گا۔ اگر کوئی معتکف ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہے جہاں پر جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو تو وہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جامع مسجد جاسکتا ہے۔ معتکف ایسے وقت نکلے کہ اذان ثانی سے پہلے وہ چار سنتیں پڑھ سکے اور فرض جمعہ کے بعد چار یا چھ سنن رکعتیں ادا کرکے فوراً مسجد اعتکاف میں واپس چلا آئے۔ اگر دیر تک ٹہرارہا تو اعتکاف تو نہیں ٹوٹے گا لیکن یہ عمل کراہیت سے خالی نہیں ہے۔
معتکف بقدر ضرورت بلاحضور مبیع و احضار سلعہ (یعنی اشیا کی موجودگی کے بغیر) Mobile پر بیع و شرا کا معاملہ یا عزیز و اقارب سے بات چیت کرسکتا ہے لیکن دنیوی مشاغل ،لغویات اور لا یعنی گفتگو سے حد درجہ اجتناب کرے چونکہ یہ حرمان ذکر اللہ کا سبب ہے۔ اعتکاف کا اصل محرک و مقصد خلوص دل کے ساتھ ذکر خدا اور اس کی رضا کا حصول ہونا چاہیے چونکہ یہ نعمائے جنت سے کہیں زیادہ افضل و اعلیٰ ہے۔نبی رحمت ﷺ کا آخری عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان المبارک کی یہ مبارک ساعتوں اب چند دنوں کی مہمان ہے اسی لیے جتنی زیادہ ہوسکے اس میں عبادت کرلی جائے پتہ نہیں آئندہ ہمیں زندگی میں یہ لمحات میسر آئیں گے بھی نہیں۔
ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی مکرمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے اور اپنی رات کو عبادت میں شب بیداری سے زندہ کرتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے (بخاری شریف) لیکن مسلم معاشرے کا یہ ایک تاریک پہلو ہے کہ ہمارے آخری عشرے کے زیادہ تر ایام و اقات شاپنگ میں گزر جاتے ہیں۔ ہمیں اس جانب توجہ کرنی چاہیے اور اعتکاف کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ رمضان المبارک کا احترام کرنے اور حسنات و خیرات میں سبقت لیجانے کا جذبہ عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
تبصرے بند ہیں۔