انسانی ذہن، ایک عضو معطل
ادریس آزاد
یونانی مِتھ کے مطابق ایک مرتبہ تھیوٹ دیوتا نے زیوس کو بتایا کہ، "میں نے انسانوں کے لیے لکھنے کا فن ایجاد کیا ہے۔ میں انہیں لکھنا پڑھنا سکھادونگا”۔ اس پر زیوس نے کہا کہ، "یہ تم نے کیا کیا؟ اب انسانوں کا حافظہ اور یاد رکھنے کی صلاحیت کو زنگ لگ جائیگا اور وہ سب کچھ ہمیشہ لکھ کر محفوظ کیا کرینگے”۔سکول میں ٹیچرز کیلکولیٹر کے استعمال سے منع کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے، "بیٹا! زبانی پہاڑے یاد ہوں تو کیلکولیٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ریاضی تو مشق کی چیز ہے۔ کیلکولیٹر نے سوال حل کردیا تو مشق کاہے کی؟”۔ موبائل کے آنے سے پہلے بھی ٹیلیفون ہوا کرتے تھے اور ہرہر نمبر بندے کو زبانی یاد ہوتاتھا۔لیکن اکیسویں صدی میں قریبی سے قریبی دوست کا نمبر یاد رکھنا بھی مشکل ترین کام بنتا جارہا ہے۔ صرف نمبر ہی نہیں بہت سی دیگر یاداشتیں اب مشین کے حوالے کردی گئی ہیں اور انسان ذہن کے استعمال سے تقریباً فارغ ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس عضو سے کام لینا چھوڑ دیا جائے اس کی صلاحیت کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔
مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرنا داناؤں کا شیوہ رہا ہے لیکن حال ہی میں ایک تھیوری سامنے آئی ہے کہ چونکہ زیادہ تر انسان ذہنی مشقیں ترک کرتے جارہے ہیں سو مستقبل میں یوں ہوگا کہ انسانوں کی بڑی اکثریت کند ذہن ہوجائے گی۔ انٹرنیٹ پر بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ وہ روایتی کتاب بینی سے بہت دور جاچکے ہیں۔ وہ تیشۂ تحقیق جو علم و حکمت کے فرہادوں کا زیور ہوا کرتا تھا اب کلِکس میں کنورٹ ہوگیا ہے۔ کہتے ہیں اگلے زمانے کے علمأ اور محققین کسی ایک چھوٹے سے علمی نقطے کی تشفی کے لیے کئی کئی مہینوں کے سفر کیا کرتے تھے۔ میرے دادا جان رحمۃ اللہ علیہ جب مجھے عربی صرف و نحو پڑھایا کرتے تھے تو بڑے منفرد طریقے اختیار کرتے، جن کی بدولت مجھے سارا سبق وہیں بیٹھے بیٹھے ازبر ہوجایا کرتا۔ ایک مرتبہ مجھے نحو کا ایک سبق پڑھا رہے تھے اور وہ یہ تھا کہ لام اور تنوین ایک جگہ اکھٹا نہیں ہوسکتے تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے پرانے زمانے کی بات ہے بخارا کے ایک بہت بڑے نحوی عالم نے کہیں سے عربی نحو پر ایک نہایت عمدہ کتاب دیکھی۔ کتاب اس قدر عمدہ تھی کہ عالم کو اس کے مصنف سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ پتہ چلا کہ مصنف تو بغداد کا ہے۔ سو وہ سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ جب وہ بغداد اس کتاب کے مصنف کے دروازے پر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک خاتون نکلیں۔ عالم نے اس خاتون کے سامنے نہایت ادب سے اُس کتاب کے مصنف کا نام لیا اور کہا کہ "میں فلاں صاحب کی زیارت کے لیے بخارا سے بغداد آیا ہوں” خاتون کے چہرے پر پہلے حیرت اور پھر مسکراہٹ پھیل گئی۔ خاتون نے کہا، "وہ دیکھو! وہ دور میدان میں بچوں کے ساتھ جو لڑکا کھیل رہا ہے اُسی نے لکھی ہے وہ کتاب جس کے مصنف سے تم ملنے آئے ہو”۔ عالم بہت حیران بلکہ مایوس ہوا۔ اسے کسی قدر غصہ آگیا۔ اس نے دل میں سوچا، ضرور اس لڑکے نے سرقہ کیا ہوگا۔ اس عالم نے دل میں فیصلہ کیا کہ ابھی اس کا امتحان لیتاہوں۔ وہ اس کے نزدیک پہنچا تو زور سے بولا، "السلامٌ (مُن) علیکم”۔ لڑکے نے فوراً جواب دیا، "وعلیکم السلام یا جامع الّام ِ والتنوین!”۔ وعلیکم السلام اے لام اور تنوین کو جمع کرنے والے!۔ کیونکہ بخارا کے عالم نے السلامُن علیکم کہا تھا، "میم پر تنوین بھی پڑھی تھی اور سلام کے شروع میں "ال” کا اضافہ بھی کردیا تھا۔
میرے دادا جانؒ نے جو اختیار کیا۔ یہ طریقے تھے علمی نقطے ازبر کروانے کے۔ ذہن اور حافظہ کو ہی ہر طرح کی ڈائری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ایک نہ بھولنے والا واقعہ ساتھ جوڑ کر علمی یا فنی نقطہ سمجھا دیا جسے کہیں نوٹ کرنے کی چنداں ضرورت نہ ہوتی تھی۔ اسی طرح اس واقعہ میں موجود بخارا کے عالم کی طرح کے محّبان علم ہوا کرتے تھے۔ اب صرف پاکستانی طلبہ کا ہی بُرا حال نہیں اور صرف ترقی پذیر ممالک میں ہی بھرتی کے طلبہ نہیں پائے جاتے بلکہ آپ فری لانسر ڈاٹ کام پر کچھ عرصہ رائٹر بن کر مزدوری کریں تو آپ کو امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے طلبہ پیسوں کے ذریعے اسائنمنٹس کروانے کے پراجیکٹس دیتے نظر آئینگے۔چنانچہ یہ خیال کہ مجموعی طور پر انسانی آبادی جو کہ محنت کم کرنے والی مشینوں کی بہتات سے سہولیات کی عادی اور بایں ہمہ جسمانی طور پر بہت نفیس اور پرانے وقتوں کے انسانوں کے مقابلے میں بہت کمزور ہوچکی ہے اب ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی ناکارہ ہونے کے قریب ہے۔ اور ایسی کوئی اُمید بھی نہیں کہ مستقبل میں انسان مشینوں پر انحصار ترک کردیگا۔ مشینیں بری نہیں لیکن بدقسمتی سے اس نقصان کو نہیں روکا جاسکتا جو انسانوں کو اپنے جسمانی اور ذہنی قویٰ کے استعمال کم سے کم ہوتے جانے کی وجہ سے بھگتنا پڑرہا ہے اور ابھی مزید بھگتنا پڑیگا۔
اُس تھیوری کے مطابق جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر بڑی انسانی آبادی کند ذہن لوگوں کی ہوگئی تو ارتقأ کے قانون ِ تغلیب کی رُو سے وہ اقلیت کا خاتمہ کردے گی۔ بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ اگر ذہانت اقلیت کے پاس بھی رہی تب بھی مشینوں کی ایجاد اور ان پر کنٹرل اسی ذہین قبیلے کے ہاتھ میں رہنے کا احتمال ہے لیکن پھر ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ میڈیا ہو یا سائنسی ایجادات ذہانت ہمیشہ سرمائے کی خدمت پر مامور رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک امیر آدمی کئی سو مفکرین کو خرید سکتاہے لیکن سو مفکرین مل کر بھی ایک امیر آدمی کو نہیں خرید سکتے۔ چنانچہ منظر نامہ یہ بنتاہے کہ وہ اقلیت بھی جو جینئس ہوگی سرمایہ دار کو مزید مستحکم بنانے کے لیے صرف ہوگی اور یوں دنیا کا نظام پہلے سے زیادہ خراب ہوتا چلا جائیگا۔ یہاں تک دنیا ایک بار پھر پوری طرح اپنے ماضی کی طرف لوٹ جائیگی اور پہلے سے بھی بدتر حالت میں۔ یوں لگے گا جیسے آدم کو جنت سے نکال دیا گیا ہو۔
لیکن اس تھیوری کے حق میں زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ یہ ایک پیسمسٹک تھیوری ہے۔ اگرچہ اہل ِ مغرب عرصہ دراز سے ایسی فلمیں بنا اور ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں جن سے انسانی مستقبل سے مایوسی ٹپکتی ہے۔گلوبل وارمنگ، اوزون کی لیئر کا پھٹ جانا، ماحول کی آلودگی، کٹتے ہوئے درخت، خراب ہوتے ہوئے دریا اور سمندر اور ان سب پر مستزاد خوفناک بلکہ بھیانک قسم کے وائرس جو پوری کی پوری انسانی آبادیوں کو نگل جائینگے موجودہ عہد کے قلمکاروں اور کیمرہ بازوں کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ لیکن پھر بھی اوپٹمسٹک تھیوریز اپنے پورے منطقی دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔ اوپٹمسٹک تھیوریز انسانی مستقبل سے مایوسی کی بجائے انسان سے پُراُمید ہیں۔ دنیا تباہ ہوجائے گی کی بجائے دنیا پہلے سے بہتر ہوجائے گی کے حق میں بھی مضبوط دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہر اوپٹمسٹک تھیوری ایک ہی خیال کی بنیاد پر استوار ہوتی ہےاور وہ یہ ہے کہ انسان اخلاقی طور پر بہتر ہوجائے گا۔ انسان، انسان سے ہمدردی سیکھتا جارہا ہے۔ آج غلام اور لونڈیاں نہیں ہیں۔ انسان عورتوں، بچوں، جانوروں حتیٰ کہ ماحول کے حقوق سے بھی باخبر ہوتا جارہاہے۔اس سلسلے میں این جی اوز بھی بڑی محنت کررہی ہیں۔ سو ایک نہ ایک دن انسان سیانا ہوجائیگا اور لڑنا جھگڑنا بند کردیگا۔
میں ذاتی طور پر پُراُمید ہوں۔ مجھے کبھی کبھی لگتاہے کہ دنیا کے جتنے ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے وار ہیڈز کے رُخ اپنے دشمنوں کی طرف کررکھے ہیں کل کو شایدکسی ایک بڑے مقصد کے لیے اپنے ہتھیار استعمال کرینگے۔ ماضی بعید کی طرح اگر کل کو زمین پر کوئی سیارچہ گرنے لگا تو شاید سارے مل کر اسے فضا میں ہی ریزہ ریزہ کردینگے۔ صرف یہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ انسان اخلاقی طور پر اس قدر بہتر ہوجائیگا کہ پوری زمین پر شاید ہی کوئی انسان کسی انسان کا قتل کرے۔ شاید ہی کوئی لڑائی جھگڑا باقی رہے۔ ۔میرے دوست کہتے ہیں خواب دیکھنے کا کوئی بل نہیں آتا۔ لیکن اوپٹمسٹک تھیوریز کے حق میں دلائل دینے کے لیے میرے پاس اس کالم میں جگہ نہیں۔ شاید آئندہ کسی کالم میں، میں اس پر تفصیل سے لکھ سکوں۔
تبصرے بند ہیں۔