ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک

ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک

اے اہلِ صفا سچ کی زباں بند ہے تاچند
اے اہلِ جفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک

اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں
کی جائے مہہ و نجم کی تسخیر کہاں تک

اے شہرِ انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک

ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک

1 تبصرہ
  1. Ahmad Ali Barqi Azmi کہتے ہیں

    عہدِ حاضر کے ایک جوانسال قلمکار اور ممتاز سخنور عرفان وحید کی ایک غزل کے تناظر میں ان کے شعور فکر و فن کا منظوم تجزیہ
    احمد علی برقی اعظمی
    شاعرِ خوش فکر و خوش گفتار ہیں عرفاں وحید
    اہلِ دانش کے معین و یار ہیں عرفاں وحید
    ان کی غزلوں سے عیاں ہے ندرتِ فکر و نظر
    اک نئے اسلوب کے فنکار ہیں عرفاں وحید
    میرے کہنے پر نہ جائیں آپ خود ہی دیکھ لیں
    سر بسر گنجینۂ افکار ہیں عرفاں وحید
    اس غزل سے ہے نمایاں ان کا ذہنی انتشار
    اک شکست و ریخت سے دوچار ہیں عرفاں وحید
    ہیں وہ میرے حلقۂ احباب میں سب سے الگ
    اپنے طرزِ فکر کے معمار ہیں عرفاں وحید
    ہے زمانے کی رگِ احساس ان کے ہاتھ میں
    فرض کے اپنے تئیں بیدار ہیں عرفاں وحید

تبصرے بند ہیں۔