انسان اور زمین کی حکومت (قسط 118)
رستم علی خان
اب مسلمانوں کی ایک معتبدہ جماعت تیار ہو گئی تھی جن کی تعداد چالیس سے زیادہ تھی- آپﷺ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا- کفار کے نزدیک یہ حرم کی سب سے بڑی توہین تھی- اس لیے دفعتہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اور ہر طرف سے لوگ آپﷺ پر ٹوٹ پڑے- آنحضرتﷺ کے ربیب حضرت حارث بن ابی ہالہ گھر میں تھے- ان کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور آنحضرتﷺ کو بچانا چاہا- لیکن ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑیں اور وہ شہید ہو گئے- اسلام کی راہ میں یہ پہلی شہادت اور پہلا خون تھا جس سے زمین رنگین ہوئی-
مکہ کی جو عزت تھی وہ کعبہ کی وجہ سے تھی۔ قریش کا خاندان جو تمام عرب پر مذہبی حکومت رکھتا تھا- اور جس کی وجہ سے وہ ہمسائیگان خدا بلکہ آل اللہ یعنی خاندان الہی کہلاتے تھے- اور اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور اور کلید بردار تھے- اس تعلق سے قریش کا کاروبار زیادہ پھیلتا گیا- یہاں تک کہ متعدد محکمے اور بڑے بڑے مناصب قائم کیے گئے-
مکہ والوں کا آنحضرتﷺ کی اس قدر پرزور مخالفت کرنے کے پیچھے کچھ اسباب تھے جن میں پہلا سبب یہ تھا کہ ناتربیت یافتہ اور تندخو قوموں کا یہ خاصہ ہے کہ کوئی تحریک جو ان کے آبائی رسم و عقائد کے خلاف ہو ان کو سخت برہم کر دیتی ہے- اور ان کے ساتھ ان کی مخالفت محض زبانی مخالفت نہیں ہوتی بلکہ ان کی تشنگی انتقام کو سوا خون کے کوئی چیز بجھا نہیں سکتی- ہمارا معاشرہ گو کافی مہذب ہو گیا ہے مگر اب بھی کسی عام سے مذہبی مسئلہ کی بھی مخالفت کی جائے تو ایک حشر برپا ہو جاتا ہے- اور اگر حکومت منتظم اور صاحب جبروت ہونے کیساتھ بروقت صحیح فیصلہ نہ کرے تو شائد نہیں یقینا زمین پر بارہا خون کا بادل برس جائے- اسی طرح عرب جو ایک مدت سے بت پرستی میں مبتلا تھا اور یہ سب رسم و رواج ان کے عقائد و ایمانیات کا حصہ بن چکے تھے- حضرت ابراہیم خلیل اللہ بت شکن کی یادگار (یعنی کعبہ) تین سو ساٹھ بتوں سے مزین تھا- جن میں "بعل بت” کو تمام بتوں کا باپ اور سردار مانا جاتا تھا اور یہی بت خدائے اعظم بھی تھا- یہی تمام بت ہر قسم کے خیر و شر کے مالک سمجھے اور مانے جاتے تھے- پانی برساتے تھے، اولادیں دیتے تھے، معرکہ ہائے جنگ میں فتوحات دلاتے تھے- وہ لوگ خدا کو یا تو سرے سے مانتے ہی نہ تھے اور اگر مانتے بھی تھے تو خدا ایک وجود معطل تھا۔ ایسے میں جب انہیں بت پرستی ترک کرنے اور توحید خالص کی دعوت دی گئی تو یہ بات کفار مکہ کو اپنے عقائدات کے خلاف معلوم ہوئی پس اسی سبب سے وہ آپﷺ کے مخالف ہو گئے اور آپﷺ کی جان کے دشمن بن گئے۔
دوسرا بڑا سبب اس مخالفت کا یہ بھی تھا کہ اسلام کا اصل فرض ان جھوٹے اور خود سے بنائے گئے خداوں اور منصب و اقتدار کے اس طلسم کو دفعتہ برباد کر دینا تھا- لیکن قریش کو اس کیساتھ ہی اپنی عظمت و اقتدار اور عالمگیر اثر کا بھی حاتمہ ہوتا نظر آ رہا تھا- اس لیے جس کو جس قدر نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا اس نے اسی قدر بڑھ کر مخالفت کی۔ مثلا قریش کا سالار اعظم ولید بن مغیرہ، ابوجہل اسی کا بھتیجا تھا اور قریش میں خود بھی ممتاز حیثیت رکھتا تھا- بنو امیہ کا سردار ابوسفیان، خود آنحضرت کا چچا ابولہب جو بنو ہاشم میں سب سے زیادہ رئیس اور ممتاز شخصیت تھا- قبیلہ سہم میں سب سے زیادہ بااثر عاص بن وائل تھا جو نہایت دولتمند اور کثیرالاولاد تھا۔ قریش کی عنان حکومت انہی روسا کے ہاتھ میں تھی اور یہی لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی سخت مخالفت کی- اور ان کے علاوہ اور بھی اکابر قریش تھے جن کے نام اعدا اسلام میں نمایاں نظر آتے ہیں.
اسلام کی مخالفت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ عرب میں ریاست کے لیے دولت اور اولاد سب سے پہلی اور سب سے ضروری شرط سمجھی جاتی تھی- اولاد کی نسبت اکثر وحشی قوموں میں اور ایک وقت تک ہندوستان میں بھی یہ خیال رہا ہے کہ جو شخص صاحب اولاد نہ ہو وہ عالم آخرت کی برکات سے محروم رہتا ہے- ہندوؤں میں بھی یہ خیال عام ہے کہ جو شخص صاحب اولاد نہ ہو وہ مکمل نجات نہیں پا سکتا- قریش میں اوصاف مذکورہ کے لحاظ سے جو لوگ ریاست کا استحقاق رکھتے تھے وہ "ولید بن المغیرہ، امیہ بن خلف، عاص بن وائل سہمی اور ابومسعود ثقفی تھے- رسول اللہﷺ ان اوصاف سے بلکل خالی تھے- دولت کے غبار سے آپﷺ کا دامن پاک تھا- اور آپﷺ کے بیٹے سال دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے- چنانچہ ان اسباب کی بنا پر بھی اہل مکہ کا خیال تھا کہ نبوت کا منصب اگر کسی شخص کو ملنا ہی تھا تو مکہ یا طائف کے کسی رئیس اور کثیرالاولاد شخص کو ملتا- چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے کہ؛ "وہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کو اگر اترنا تھا تو ان دو شہروں (مکہ و طائف) میں سے کسی رئیس اعظم پر اترنا تھا-” یعنی ولید بن مغیرہ یا ابو مسعود ثقفی پر اترتا-
اسلام کی مخالفت کا ایک سبب قریش مکہ کی عیسائیت سے بالطبع نفرت تھی- جس کی وجہ ابراہتہ الاشرم (شاہ حبش) تھا جو کعبہ کو ڈھانے کے لیے ہاتھیوں کی فوج لیکر آیا تھا عیسائی تھا- یہی وجہ تھی کہ قریش مکہ عیسائیوں کے مقابلہ میں پارسیوں کو زیادہ پسند کرتے تھے- ایران اور روم کی جنگ میں جب ایرانیوں کو فتح ہوئی تو قریش نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور مسلمان شکستہ ہوئے- چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی؛ "قریب کے ملک میں رومی مغلوب ہو گئے لیکن یہ لوگ مغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھر غالب ہوں گے خدا ہی کو اختیار ہے پہلے بھی اور پیچھے بھی اور تب مسلمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے-” اسلام اور نصرانیت میں بہت سی باتیں مشترک تھیں- سب سے بڑھ کر یہ کہ اس زمانہ میں اسلام کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مدینہ منورہ میں بھی ایک مدت تک یہی قبلہ رہا- اور چونکہ عیسائیت کا قبلہ بھی بیت المقدس ہی تھا چنانچہ ان اسباب کی بنا پر قریش مکہ کو یہ خیال ہوا کہ محمدﷺ شائد مکہ میں عیسائیت کو قائم کرنا چاہتے ہیں-
اس مخالفت کا ایک بڑا سبب قبائل کی خاندانی رقابت بھی تھی- قریش میں دو قبیلے نہایت ممتاز اور حریف یک دگر تھے- بنو ہاشم اور بنو امیہ؛ عبدالمطلب نے اپنے زور اثر سے بنو ہاشم کا پلہ بھاری کر دیا تھا- لیکن ان کے بعد اس خاندان میں کوئی بھی ان سا صاحب اثر نہ تھا- ابوطالب دولتمند نہ تھے، عباس دولتمند تھے لیکن فیاض طبع نہ تھے، ابولہب بدچلن تھا- اس پر بنو امیہ کا اقتدار بڑھتا جاتا تھا- آنحضرتﷺ کی نبوت کو خاندان بنو امیہ اپنے رقیب خاندان بنو ہاشم کی فتح خیال کرتا تھا- اس لیے شروع میں سب سے زیادہ اسی خاندان نے آنحضرتﷺ کی مخالفت کی- بدر کے علاوہ باقی تمام لڑائیاں ابوسفیان ہی نے برپا کیں اور وہی ان لڑائیوں میں رئیس لشکر رہا- اس کے علاوہ عقبہ بن ابی معیط جو سب سے زیادہ آنحضرتﷺ کا دشمن تھا- اور جس نے نماز کی حالت میں آپﷺ کے دوش مبارک پر اونٹ کی اوجھری لا کر ڈالی تھی، بنو امیہ سے تھا-
بنو امیہ کے بعد جس خاندان کو بنو ہاشم کی برابری کا دعوی تھا وہ بنو مخزوم تھے اور ولید بن مغیرہ اسی خاندان کا رئیس تھا- اس لیے اس خاندان نے بھی آنحضرتﷺ کی سخت مخالفت کی- ایک دفعہ اخنس بن شریق’ ابوجہل کے پاس گیا اور کہا؛ "محمدﷺ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔؟” ابوجہل نے کہا؛ ہم اور عبدالمناف یعنی بنو ہاشم ہمیشہ حریف مخالف رہے، انہوں نے مہمان داریاں کیں، تو ہم نے بھی کیں، انہوں نے خون بہا دئیے تو ہم نے بھی دئیے، انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے ان سے بڑھ کر کیں- یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے کاندھے سے کاندھا ملا دیا، تو اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار ہیں، خدا کی قسم ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے-
ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ قریش مکہ میں سخت بداخلاقیاں پھیلی ہوئیں تھیں- بڑے بڑے ارباب اقتدار نہایت ذلیل بداخلاقیوں کے مرتکب تھے- ابولہب جو خاندان بنو ہاشم میں سب سے زیادہ ممتاز تھا اس نے حرم محترم کے خزانہ سے غزال زریں (سونے کا ہرن جو ایک مدت سے حرم کے خزانہ میں مخفوظ تھا ) چرا کر بیچ ڈالا تھا- اخنس بن شریق جو بنو زہرہ کا حلیف اور روسائے عرب میں شمار کیا جاتا تھا نمام اور کذاب تھا- نضر بن حارث کو جھوٹ بولنے کی سخت عادت تھی- اس طرح اکثر ارباب جاہ مختلف قسم کے اعمال شینعہ میں گرفتار تھے- آنحضرتﷺ ایک طرف بت پرستی کی برائیاں بیان فرماتے تھے اور دوسری طرف ان بداخلاقیوں میں سخت دار و گیر کرتے تھے جس سے ان کی عظمت و اقتدار کی شہنشاہی متزلزل ہو جاتی تھی- چونکہ قرآن میں بھی پیہم ان بدکاروں کی شان میں آیتیں نازل ہوتی تھیں اور گو طریقہ بیان عام ہوتا تھا لیکن لوگ جانتے تھے کہ روئے سخن کس کی طرف ہے- چنانچہ اس بنا پر بھی یہ لوگ اسلام کے سخت مخالف تھے کہ قرآن ان کی بداخلاقیوں کو برملا برا اور غلط کہتا ہے اور محمدﷺ انہیں ان چیزوں سے منع فرماتے ہیں-
لیکن ان سب اسباب کے علاوہ مخالفت کو جو سب سے بڑی وجہ تھی اور جس کا اثر نہ صرف تمام قریش مکہ بلکہ تمام عرب پر یکساں تھا وہ یہ تھی کہ جو معبود سینکڑوں برس سے عرب کے حاجت روائے عام تھے اور جن کے آگے وہ ہر روز پیشانی رگڑتے تھے اسلام ان کا نام نشان مٹاتا تھا اور ان کی شان میں کہتا تھا؛ "بلاشبہ تم اور جن چیزوں کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن ہوں گے”۔
تبصرے بند ہیں۔