مودی حکومت کا مسلمانوں کو فائدہ

الطاف حسین جنجوعہ

دنیا بھر میں مذاہب وعقائد کی ترقی وترویج متعلق عالمی سطح پر کئی نامور اداروں کی طرف سے تحقیق کی گئیں جس میں کم وبیش سبھی نے نہ صرف برملا اعتراف بلکہ دو ٹوک الفاظ میں ٹھوس دلائل کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ ’اسلام‘سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا۔ سرور ِکائنات پیغمبر آخر الزمان حضرت مصطفی ﷺکے وقت اور اس کے بعد دنیا کے اطراف واکناف میں اسلام اس طرح پھیلا جیسے ایک بڑے دھماکہ کے بعد اُس کی پرزے ہرسوں بکھر جاتے ہیں۔ نورِ مجسم ﷺ کے اِ س ظاہری دنیا سے پردہ پوشی کرنے کے بعد حضرت عمرفاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے اپنے دور ِ خلافت میں ایمانداری،تندہی، محنت ولگن، انصاف پسندی، عدل و انصاف، حق گوئی، صداقت، غریب پروری کی وہ عظیم مثالیں قائم کیں جن کی آج تک کوئی نظیر نہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے دنیا بھر میں حکومت سازی اور انتظامیہ کاجوبہترین عملی نمونہ پیش کیا آج بھی وہ قابل رشک ہے جوکہ کئی عالمی سطح کے اداروں میں آج بھی تحقیق کا موضوع ہے کہ کیا وجوہات تھیں جس سے حضرت عمرفاروق ؓ کے دور میں ہر شخص تک انصاف پہنچا اور ہرکوئی حکومت سے خوش تھا۔علاوہ ازیں تاریخ اسلام ایسے حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اس عمل کو آگے بڑھایا اور تاریخ میں اپنا بلند مرتبہ پایا۔برصغیر ایشیا بالخصوص برصغیر ِ ہند میں بھی اسلامی حکمرانوں نے اپنے کردار وشخصیت سے غیروں کو بھی اتنامتاثر کیاکہ وہ اسلام مشرف بہ اسلام ہوئے۔ لیکن رفتہ رفتہ آج مجموعی طور صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ عظیم قوم جوبہادری، شجاعت، دلیری، ایمانداری، انصاف پسندی کے لئے مقبول تھی، وہ آج مسلکی محاذ پر خانہ جنگی کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔نتیجہ کے طور پر آج مسلمان طرح طرح کے مسائل ومشکلات کا شکار ہیں۔  پچھلے چنددہاکوں سے بالخصوص انڈیا کی بات کی جائے تو ماسوائے چند فیصد کو چھوڑ کر اکثریتی مسلم طبقہ نے غوروفکر اپنے سیاسی وشعوری بااختیاری پر توجہ دینے کی بجائے تمام ترملی مسائل کو نظر انداز کر کے عیش وآرام کی زندگی کو ترجیحی دی۔ کسی نے مال ودولت کا غلط استعمال کرنا شروع کیا تو کسی نے عہدے وکرسی کا غلط استعمال اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل میں کرنا شروع کر دیا۔ ساتھ ساتھ ہی مسلکی اختلافات کو خوب فروغ ملا، جس میں اگر چہ بیرونی عناصر کا ہاتھ زیادہ تھا، لیکن ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کو غلبہ حاصل ہوا۔ ہم اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور مسلم بھائیوں کی مشکلات ومسائل سے بالکل غافل ہوگئے۔ملکی، ریاستی وعلاقائی سطح پر سیاسی، اقتصادی، سماجی، تعلیمی طور پر مسلمانوں کی کیا صورتحال ہے،بارے سوچنا بھی چھوڑ دیا۔ زیادہ شادیاں، لڑائی جھگڑے، فتنہ فساد اور زمینی تنازعات پر توجہ مرکوز کر دی۔قرآن وحدیث سے دوری اختیار کر لی جن میں دنیا وآخرت کے ہرمسائل کا حل موجود ہے۔ سال 2014میں انڈیا میں نریندر مودی کی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے غیر متوقع فتح حاصل کر کے حکومت بنائی تو اُس وقت جگہ جگہ سے ٹھوکریں لگنا شروع ہوئیں تو اس وقت ہوش ٹھکانے آنے لگی کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارے ساتھ کیا اور کیوں ہورہاہے۔ طلاق ثلاثہ، گئو کشی، یکساں سول کوڈ، بابری مسجد یا دیگر مسائل پر سوال اُٹھائے گئے تو شرو ع شروع میں ملک بھر سے مسلمانوں نے سخت رد عمل کرنا شروع کیا جس وجہ سے دو طرفہ خوب سیاست ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نے اس پرغوروفکر شروع کیاکہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سوالات اُٹھنا شروع ہوئے ہیں، ان کی اصلیت کیا ہے، سوالات کے جواب کے لئے جب قرآن وحدیث کا مطالعہ شروع کیا، علماء کرائم سے رجوع کیاتو ہرچیز سمجھ آنے لگی۔پھر بغیر سوچے سمجھے جذباتی رد عمل کی بجائے ایک حکمت عملی کے ساتھ اٹھائے جانے والے ہرسوال کا جواب دینے کی ہمت وقوت پیدا ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اُٹھنے والے سوالات میں حد درجہ کمی آئی۔  پچھلے کم وبیش ایک برس سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب پرنٹ والیکٹرانک میڈیا ہویا سوشل میڈیا مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہوں یا عام آدمی بہت کم رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور جہاں کرتے ہیں مکمل ٹھوس حقائق واعدادوشمار کے ساتھ، جس سے اب سوال اٹھانے والے بھی دس بار سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

        قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

        اللہ کرے عطا تجھ کو جدت کردار

        اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا میں سال2014سے2019تک کا دورمسلمانوں کے لئے ٹھیک نہ رہا، جگہ جگہ انہیں تنگ وطلب کیاگیا، ظلم وتشدد، قتل وغارت ہوئی لیکن اگر یہ سوال ہو کہ ہم نے کھویا تو بہت کچھ لیکن پایاکیا تو، وہ یہ کہ غفلت،لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کے عالم سے ہم باہر نکلے ہیں، اب غوروفکر کرنا شروع کی ہے،آنکھیں کھلی ہیں کہ جن چیلنجوں کا سامنا ہمیں ہے، ان سے نپٹنا کیسے ہے۔اپنی بقاء کے لئے کیا کرنا چاہئے۔انڈیا میں ایک حلقہ ایسا ہے جس کی سیاست ہی صرف مسلمانوں کے خلاف بولنا ہے،اگر ہم بغیر سوچے سمجھے جوابی رد عمل ظاہر کریں گے تو فائیدہ تو اس حلقہ کو ہوگا جوجان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے، اس لئے ملک میں مسلمانوں کے خلاف بولنے کے نام پر چلنے والی سیاسی دکانوں کو بند کرنے کے لئے بہتر ہے کہ رد عمل حکمت عملی سے ظاہر کیاجائے، بات بات پر رد عمل ظاہر نہ ہو۔پچھلے کچھ عرصہ سے رد عمل ظاہر نہ ہونے پر بہت سارے لوگوں کی سیاسی دکانیں خطرے میں پڑگئی ہیں اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ کہتے ہیں جس شخص کو جتنی زیادہ تکالیف، دکھ، مشکلات وپریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اُتنا ہی ذہنی وجسمانی طور مضبوط ہوتا ہے۔مثال کے طور پر لداخ خطہ میں شدت کی سردی ہوتی ہے،سرمائی ایام کے دوران بیشتر علاقہ جات میں اوسطاًدرجہ حرارت صفر7-8ڈگری سیلیس رہتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں لوگ رہتے ہیں، شدت کی سردی سے نپٹنے کے لئے اسی حساب سے لوگوں نے انتظامات بھی کئے ہیں، ٹھیک اسی طرح دنیا کے دیگر کئی علاقہ جات ایسے ہیں جہاں پر ’جغرافیائی اور موسمی ‘چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے انسان نے اپنے آپ کو تیار کر رکھا ہے۔سال2014تا2019کے دوران انڈیا کے اندر بھی مسلمانوں پر جگہ جگہ ظلم وتشدد ہوا، انہیں ستایاگیا،سیاسی، انتظامی سطح پر نا انصافیاں ہوئیں لیکن اِس سے انہیں ان کے ذہن بھی کچھ حد تک کھلے ہیں۔ ’مسلکی اختلافات ‘اب بھی عروج پر ہیں، آج بھی نماز جمعہ یا کسی اور اجتماع کے وقت علماء حضرات اپنا بیشتر وقت دوسرے مسلک کو تنقید ومذمت کا شکار بنانے میں صرف کرتے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حصول نیز سربلندی اور کامیابی میں معجزانہ کردار رکھتا ہے۔ آج اسلام کے دشمن متحد اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا اتحاد اسی نکتے کی افادیت سے بخوبی آگاہی پر مبنی ہے اور انہوں نے اسلام کو مشترکہ دشمن قرار دے کر اسے اپنے سامراجی اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے اور اسی بنا پر دشمنوں نے اپنے تمام نظری، نسلی، علاقائی اور سیاسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے نزدیک ہو کر اسلام کو مٹانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔  مثال کے طور پر عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے تمام تر بڑے شدیدمسلکی اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ عیسائی جو یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اب اس الزام کو بھلا بیٹھے ہیں اور آپس میں متحد ہو کر اسلام کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔

        یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و اعتقادی قدریں مشترک ہیں۔  اسلامی عقائد کا سارا نظام انہی مشترک بنیادوں پراستوارہے۔ مسلمانوں میں سے کو ئی بھی نہ تو کسی اور نبی یا رسول کی شریعت کا ان کار کرتا ہے نا ہی اسلام کے سوا کسی اور دین کو مانتا ہے۔ سب مسلمان توحید و رسالت، وحی اور کتب سماوی کے نزول، آخرت کے انعقاد، ملائکہ کے وجود، حضور  کی خاتمیت، نماز، روزہ، حج، زکوۃ۔ ..کی فرضیت وغیرہ جیسے مسائل پر یکساں ایمان رکھتے ہیں اور اگر کہیں کو ئی اختلاف ہے تو صرف فروعی حد تک، اور وہ بھی ان کی علمی تفصیلات اور کلامی شروحات متعین کرنے میں ہے۔ کیونکہ اس سے عقائدِ اسلام کی بنیادوں پر کو ئی اثر نہیں پڑتا۔ جب کو ئی اثر نہیں پڑتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک خدا ایک نبی ایک کتاب، ایک دین، اور ایک کعبہ کے ماننے والوں کے درمیان دینِ الٰہیہ کی سر بْلندی کے لیے اتحاد و یگانگت کے لازوال رشتے قائم نہ کئے جا سکیں اور ’’ملت واحدہ‘‘ کا تصور ایک زندہ جاوید حقیقت نہ بن سکے ؟۔         مشہور فقہائے اربعہ، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کی وہ علمی آراء￿  جو قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم اور احکام خداوندی کی تشریح میں منقول ہیں، انھی کو مسلک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چوں کہ ان کی آرائٓ  میں باہم اختلاف ہے اور اسی وجہ سے ان کے متبعین میں بھی اختلاف رونما ہوتا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ تا ہم آئمہ مجتہدین کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ قصور، در اصل بعد میں ہونے والے اْن کے متبعین کا ہے۔ فقہائے کرام اور ائمہ مجتہدین نے قرآن و سنت پر غور خوض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مطلوب و منشا کو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس پر وہ اَجر کے مستحق ہیں۔  مگر کسی امام کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ کہ حق اسی کے مسلک میں محصور ہے اور دوسرے ائمہ کا قول غلط ہے۔ لہٰذا میرے ہی مسلک کی ہر حال میں اتباع کو لازم سمجھا جائے اور دوسرے مسلک کی مخالفت کی جائے۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے ایک امام کی تقلید کو ہر حال میں واجب قرار دے لیا ہے اور دوسرے مسلک کے قول کی مخالفت کو ضروری سمجھ لیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلکی عصبیت پیدا ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی گئی۔ مسلمانوں میں مسلکی عصبیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس سے کئی اسلامی تعلیمات مجروح ہونے لگی ہیں۔  قرآن میں سارے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے مگر مسلکی عصبیت نے لوگوں کو بتایا کہ یہ ساری تعلیمات اپنے ہم مسلکوں سے متعلق ہیں اور دوسرے مسلک والوں سے ویسا ہی معاملہ کرنا بجا ہے جیساغیرمسلموں اور ذمیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حال آں کہ اسلام نے غیرمسلموں اور ذمیوں تک کے بھی حقوق بتائے ہیں مگر مسلکی عصبیت اس سے بھی آگے بڑھ گئی اور اَب دوسرے مسلک والے اس کے بھی مستحق نہ رہے کہ ان سے ذمیوں جیسے سلوک کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ لڑائی اور فساد کی کیفیت ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگ سرے سے مسلک کو ہی انتشارِ ملت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ بقول اقبالؒ

        فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

        موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

        کسی بھی قوم کی کامیابی و کامرانی اس کے افراد کے باہمی اتحاد میں مضمر ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اسی طرح انسانوں کے متحد اور مجتمع ہونے سے ایسی اجتماعیت تشکیل پاتی ہے کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو جاتا ہے اور کبھی بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس وقت اتحاد، عالمِ اسلام اور مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ اور تمام ضرورتوں و ترجیحات پر برتری اور اہمیت رکھتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اتحاد کی ضرورت کو نہیں سمجھتے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اتحاد ایک ناقابل ان کار ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ تنگ نظری، گروہی تعصب اور قومی و نسلی امتیازات کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آ سکی جبکہ سامراجی ملکوں کی سازشیں بھی مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنے میں موثر رہی ہیں۔  اگر مسلمان تعلیماتِ وحی پر کاربند رہتے اور اپنے سیاسی اور سماجی اتحاد کی حفاظت کرتے تو ان کا آج یہ حشر نہ ہوتا۔ آج بھی اگر مسلمان ایک پرچم تلے آ جائیں اور اپنے اختلافات پر بے سود وقت ضایع کرنے کے بجائے تھوڑا سا وقت امت کی فلاح و بہبود کے لیے نکالیں تو آج بھی ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔  ہمارے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

اب چونکہ 2019میں ملکی سطح پر پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے، اُمید کی جاسکتی ہے علماء کرام مسلکی اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دیتے ہوئے آپسی اتفاق واتحاد، بھائی چارہ کو فروغ دینے اور ملی مفادات کو زیادہ ترجیحی دیں گے۔ممبر محراب پر بیٹھ کر اپنے ہی مسلمان بھائی کی ملامت کی بجائے عالمی، ملکی وعلاقائی سطح پر امت مسلمہ کو درپیش مشکلات ومسائل کو اجاگر کر کے ان کے تدارک کی سبیل بتائیں گے۔اختلافات، تھے، ہیں اور قیامت تک رہیں گے بھی لیکن اُن کو اگر ملی مفادات پر حاوی نہ ہونے دیاجائے تواسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔بقول کسی شاعر

                چاہتے ہو اگر زمانے میں وقار دائمی

                سب سے پہلے اتحا باہمی پیداکرو

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔