مودی جی مسلمانوں پر ’مہربان‘

رشید انصاری

پارلیمان کے مرکزی حال میں این ڈی اے کے نومنتخب شدہ ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ ایسی باتیں کی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کا احساس ہوگیا ہے اور وہ مستقبل میں مسلمانوں کو کسی نہ انصافی کے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ مندرجہ بالا الفاظ مودی جی کے نہیں ہیں انہوں نے تو ان باتوں کو مختلف الفاظ میں بیا ن کیا تھا لیکن مودی کے نئے کے مسلمان بھکتوں اور ہر بات میں بلاوجہ کی روشن خیالی کااظہار کرکے مسلمانوں کا نقصان کرنے والے دانشوروں نے اس کا بڑا خوش آئند مطلب لیا اور سڑکوں پر جگہ جگہ ’’مودی مودی‘‘ کے نعرے لگانے والوں کی طرح اپنی تحریروں اور تقریروں میں مودی مودی کرنے لگے۔

        ہم اور ہماری فکر کی طرح فکر رکھنے والے لوگ وزیر اعظم نریندر مودی سے بیشک بدگمان نہیں ہیں تاہم پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی مسلمانوں کے تعلق سے اپنی حکمت ِ عملی، نظریات اور رویہ بدلنا چاہتے ہیں۔ تو وہ عملی طور پر کچھ کرکے دکھائیں۔

        اس سلسلہ میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ وزیراعظم کے وعدوں پر ہم تو کیا ان کے زبردست معتقد اور بھکت بھی یقین نہیں کرتے ہیں کیونکہ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی مہم کے دوران نریندر مودی نے جو چھوٹے بڑے وعدے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا مثلاً۔۔۔۔ ’’15لاکھ ، دو لاکھ نوکریاں اور کالے دھن کا خاتمہ وغیرہ وغیرہ‘‘۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے 2002ء کے گجرات فسادات کے تعلق سے باضابطہ اور واضح طور پر کسی افسوس یا معذرت کااظہار تاحال نہیں کیا ہے اگر کیا بھی ہے تو یہ کہہ کر کیا ہے کہ’’ ان کوتو ان کی گاڑی کے نیچے آنے والے کتے کے پلے کی موت پر بھی افسوس ہوتا ہے‘‘۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں انہوں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی بیان نہیں دیا۔ ان کی ساری مسلمان دوستی عید کے موقع پر مبارکباد کے بیان کی حدتک محدود رہی ہے۔ ان کے دور حکومت میں مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان پر اذیتیں ڈھانے کیلئے ایک نیا منصوبہ ’’اجتماعی قتل یا Mob Lynching‘‘ شروع کی گئی اور کئی مظلوم معصوم مسلمان اس کا شکار ہوئے مسلمانوں کے خاندان جان سے ہی نہیں مال سے بھی محروم ہوئے کیونکہ گائے کی حفاظت کرنے والوں نے جو گائوں رکھشک کہلاتے ہیں جھوٹے الزامات کے تحت نہ صرف مختلف خاندانوں کے افرا د کا مختلف ریاستوں میں قتل کیا بلکہ ان کی ملکیت میں رہنے والے گائیوں کو بھی نہ جانے کس قانون کے تحت اپنے قبضے میں لے لیا جس کا ان کو کوئی حق نہیں تھا۔ اس طرح مسلم خاندان اپنے کمانے والوں سے محروم ہونے کے علاوہ کمائی کے ذرائع سے بھی محروم کردئے گئے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر طویل تقریریں کرنے والے اور اپنی معمولی خدمات کو بڑا چڑھاکر پیش کرنے والے وزیر اعظم مودی نے لاتعداد مسلمانوں کے قتل یا ماب لنچنگ کے بے شمار واقعات کی مذمت میں کوئی بیان تک نہیں دیا اور ان ریاستوں کو بھی جہاں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں وزیر اعظم مودی نے کوئی ہدایات اس سلسلہ میں جاری نہیں کیں۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اجتماعی قتل یا تشدد کا پہلا واقعہ وزیر اعظم مودی کے عہدہ سنبھالنے (2014 ) کے کچھ دن بعد ہی دہلی سے بہت قریب دادری میں پیش آیا تھا یہاں محمد اخلاق نامی ایک شخص کو ہندو دہشت گردوں نے گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزامات میں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا ’’گڑبہ کشتن روزِ اول‘‘ کے مصداق کے اس موقع پر وزیر اعظم مودی ملزموں کو سخت سزائیں دینے کے احکام جاری کرتے اجتماعی قتل و تشدد کی سختی سے مذمت کرتے مگر وزیر اعظم مودی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان کی سابقہ کابینہ کے ایک وزیر نے اس واقعہ کو ایک معمولی واقعہ قرار دے کر ہندوتوادی قاتلوں کو بچانے کی کوشش ضرور کی۔ وزیر اعظم کے پانچ سالہ دور میں ناجانے گائے کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اجتماعی یا انفرادی تشدد کے بے شمار واقعات ملک بھر میں نہ جانے کتنے واقعات ہوئے لیکن وزیر اعظم نے ایسے تمام واقعات سے خود کو دور رکھا۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے اقلیتوں کی سرپرستی کے نام پر مسلمانوں سے کسی ہمدردی کا اظہار کیا جاتا یا ان کی کوئی مدد کی جاتی بلکہ بہت سارے ایسے واقعات ہیں جن میں مسلم اداروں کو جو مدد حکومت سے ملتی تھی وہ بھی بند کردی گئی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم مودی اور آر ایس ایس کے انتہائی پسندیدہ وزیراعلیٰ یو پی آدتیہ ناتھ (جن کو ہم یوگی نہیں مانتے ہیں ) کی وجہ سے یوپی میں فرقہ پرستی یا مسلم دشمنی کا ناچ عروج پر ہے اور مودی خاموش ہیں بلکہ مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کے تمام واقعات سے وزیر اعظم مودی نے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی اور متاثرین کی مدد اور ان کے ساتھ انصاف کئے جانے کا رسمی اعلان تک نہیں کیا۔ الٹا ایس پی حکومت کی معمولی سی مسلم نوازی پر وزیر اعظم نے انتخابی تقاریر میں شدید تنقید کی تھی۔

        یہ ایک حقیقت ہے کہ گائے ، بیل، بھینس کا گوشت تمام غریب گوشت خوروں کی مرغوب غذا ہے۔ گائے کا گوشت تو غیر اکثریتی طبقہ کے جذبات کا لہٰذا کرتے ہوئے تمام غیر ہندو اس کو کھانا پسند نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی حکومتوں کی جانب سے انہیں اس کی اجازت ہے لیکن بیل اور بھینس کا گوشت سستا ہونے کی وجہ سے بلالحاظ مذہب و ملت یہ غریب عوام کی مرغوب غذا ہے لیکن مودی حکومت اور دیگر بھاجپائی حکومتوں کے دور میں بیل اور بھینس کے گوشت پر بھی تقریباً پابندی لگ گئی ہے۔ مہاراشٹرا، ہریانہ اور یوپی میں حکمرانوں نے اس سلسلہ میں اتنے سخت قانون بنائے کے سینکڑوں لوگ نہ صرف ’’بیف ‘‘کہلانے والے گوشت سے محروم ہوگئے بلکہ سینکڑوں کا روزگار بھی ختم ہوگیا۔ ان تمام باتوں کی خبر وزیر اعظم مودی کو رہی ہے لیکن انہوں نے اس سلسلہ میں کسی کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ شائد ایسے ہی کاموں کی وجہ سے امیت شاہ اور مودی نے وزیر اعلیٰ یوپی آدتیہ ناتھ کی بہت تعریف کی ہے۔

         یہاں ہمارا ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان دنیا بھر میں بیف برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بیف کے نام پر بیرونی ملکوں کو بھیجے جانے والے گوشت میں عام طور پر گائے کا گوشت زیادہ ہوتا ہے جو بیرونی ممالک میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے بلکہ خلیجی ممالک میں بھی آباد ہندوستانی اور پاکستانیوں کی وجہ سے اِن ممالک میں برآمد ہونے والے ہندوستانی بیف کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ گائے کے تقدس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا یہ سوال غلط ہوگا کہ گائے کے تقدس کو صرف ہندوستان کی حدتک کیسے محدود کیا جاسکتا ہے جبکہ بیرونی ممالک سے زرمبادلہ حاصل کرنے کے لئے گائے کے تقدس کو کیسے نظرانداز کیا جارہا ہے۔

        مندرجہ بالا واقعات کی روشنی میں ہم کیسے یقین کرسکتے ہیں کہ مودی جی اچانک بدل گئے ہیں اور اس بات پر تو آپ بالکل یقین نہ کریں کہ حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے بی جے پی کو بھاری تعداد میں ووٹ دئے ہیں۔ اس سلسلہ میں شاہنواز اور مختار نقوی کی غلط بیانی اور لن ترانیوں پر بالکل ہی یقین نہیں کیا جانا چاہئے۔ مودی کو چاہئے کہ وہ عملاً مسلمانوں کے قریب آئیں تو مسلمان بھی اِن سے قریب ہونے پر غور کرسکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔