انسان اور زمین کی حکومت (قسط 119)
رستم علی خان
ان اسباب کیساتھ جن میں سے ہر ایک قریش کو مشتعل کر دینے کے لیے کافی تھا، توقع یہ تھی کہ اعلان نبوت کیساتھ سخت خونریزیاں شروع ہو جائیں گی- لیکن قریش نے تحمل سے کام لیا اور اس کی ناگریز وجوہات تھیں- قریش خانہ جنگیوں میں تباہ ہو چکے تھے اور حرب فجار کے بعد اس قدر عاجز آ چکے تھے کہ لڑائیوں کے نام سے ڈرتے تھے- قبیلہ پرستی کیوجہ سے لڑائی صرف اتنی سی بات پر شروع ہو جاتی تھی کہ کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل کر دیا جائے تو مقتول کا قبیلہ بغیر کسی تحقیق کے کہ اس سب میں قصوروار کون تھا انتقام کے لیے کھڑا ہو جاتا تھا اور جب تک بدلہ نہ لے لیا جائے یہ آگ بجھ نہیں سکتی تھی- اور یوں خونریزی کا سلسلہ اگر ایک بار چل نکلتا تو مدتوں اور نسلوں تک چلتا چلا جاتا- رسول اللہﷺ کے قتل پر آمادہ ہونا گو قریش کے لیے نہایت آسان کام تھا، لیکن وہ جانتے تھے کہ بنو ہاشم بدلہ نہ چھوڑیں گے اور پھر سلسلہ با سلسلہ تمام مکہ جنگ میں مبتلا ہو جائیں گے- بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور قریبا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس میں دو ایک شخص ایمان نہ لا چکے ہوں- اس لیے اسلام اگر جرم تھا تو صرف ایک شخص اس کا مجرم نہ تھا، بلکہ سینکڑوں تھے اور سب استیصال کرنا ممکن نہیں تھا-
اس کے علاوہ روسائے قریش میں متعدد ایسے لوگ بھی تھے جو جو شریف النفس تھے اور لڑائی کو اچھا خیال نہ کرتے تھے- چنانچہ وہ بدنفسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے خیال میں نیک نیتی کی بنا پر مخالفت کرتے تھے اور اس بنا پر وہ چاہتے تھے کہ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کہ تمام معاملات صلح و آشتی سے طے پا جائیں-
غرض جب آنحضرتﷺ نے اعلان نبوت کیا اور بت پرستی کی اعلانیہ مذمت شروع کی تو قریش کے چند معززین نے حضورﷺ کے چچا ابوطالب سے آ کر آپﷺ کی شکایت کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں- ابوطالب نے نرمی سے سمجھا کر ان لوگوں کو رخصت کیا- لیکن چونکہ بنائے نزاع قائم تھی یعنی آنحضرتﷺ اس فرض سے بعض نہیں آ سکتے تھے، اس لیے یہ سفارت دوبارہ ابوطالب کے پاس آئی- اس میں تمام روسائے قریش یعنی "عتبہ بن ربیعہ، شیبہ، ابوسفیان، عاص بن ہشام، ابوجہل، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل” وغیرہ شامل تھے- انہوں نے ابوطالب سے کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہتا ہے ان کی توہین کرتا ہے، ہمارے آباو اجداد کو احمق ٹھہراتا ہے انہیں گمراہ کہتا ہے- چنانچہ تم اسے سمجھاو اسے جس چیز کی چاہت ہے ہم سے کہے ہم اسے ضرور دیں گے، دولت دنیا، عورت، بادشاہی جو بھی چاہیے ہم سے مانگ لے اور ہمارے معبودوں کی توہین کرنا چھوڑ دے- بدلے میں کچھ دن ہم اس کے خدا کی عبادت بھی کر لیں گے اور کچھ دن وہ ہمارے خداوں (بتوں) کی پرستش کر لیا کرے- اور اگر ایسا نہیں ہے تو اے ابوطالب آپ بیچ میں سے ہٹ جائیں اور محمدﷺ کی پشت سے اپنا ہاتھ ہٹا لیں ورنہ آپ بھی میدان میں آ جائیں تاکہ اب ہمارے بیچ جو فیصلہ ہونا ہے ہو جائے-
چنانچہ ابوطالب نے دیکھا کہ اب حالت نازک ہو گئی ہے تو انہوں نے آنحضرتﷺ کو بلایا اور کہا؛ اے میرے پیارے! اب میں بوڑھا اور ناتواں ہو گیا ہوں اور میرے کندھے بھی کمزور ہیں پس مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈال کہ میں اٹھا نہ سکوں- رسول اللہﷺ کے ظاہری پشت و پناہ جو کچھ تھے ابوطالب ہی تھے- آنحضرتﷺ نے دیکھا کہ قریش کی باتوں سے اب ان کے پائے ثبات میں بھی لغزش ہے تو آپﷺ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا؛ خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آوں گا، خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہو جاوں گا-” آپﷺ کی پراثر آواز نے ابوطالب کو سخت متاثر کیا- انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا؛ "جا! میرے رہتے کوئی شخص تیرا بال بیکا نہیں کر سکتا-"
آنحضرتﷺ بدستور دعوت اسلام میں مصروف ہوئے- قریش اگرچہ آپﷺ کے قتل کا ارادہ نہ کر سکے مگر طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے’ راہ میں کانٹے بچھاتے تھے، نماز کی حالت میں جسم اطہر پر نجاست لا کر ڈال دیتے، بدزبانیاں کرتے تھے- ایک دفعہ آپﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عتبہ بن ابی معید نے آپﷺ کے گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچی کہ آپﷺ گھٹنوں کے بل گر پڑے اور رخ انور سرخ ہو گیا- قریش متحیر تھے کہ آپﷺ یہ سب سختیاں کیونکر جھیل لیتے ہیں- انسانی دماغ ایسی سخت نفس کشی اور جانبازی کا مقصد جاہ و دولت اور نام نمود کی خواہش کے سوا اور کیا کر سکتا ہے، قریش نے بھی یہی خیال کیا اور اسی بنا پر عتبہ بن ربیعہ ایک بار پھر قریش کی طرف سے سفیر بن کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا؛ محمدﷺ کیا چاہتے ہو ؟ کیا مکہ کی ریاست ؟ کیا کسی بڑے اور رئیس گھرانے میں شادی ؟ یا حسین و جمیل عورت ؟ یا دولت کا ذخیرہ ؟ آپﷺ جو مانگو ہم مہیا کریں گے- ہم قریش کے تمام خزانے آپﷺ کے قدموں میں لا کر رکھ دیتے ہیں، مکہ کی جس حسین و جمیل اور رئیس زادی کا آپﷺ نام لیں گے ہم اس کا نکاح آپﷺ سے کرنے کو تیار ہیں، اور ہم اس بات پر بھی راضی ہیں کہ کل تمام عرب آپﷺ کا زیرفرمان ہو گا، سارے سردار بلاشرکت آپﷺ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اس سب کے بدلے بس آپﷺ اپنی باتوں سے باز آ جائیں اور ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں کہ ہمارے آباو اجداد انہی کی پرستش کرتے آئے ہیں اور اب ہمارے بھی یہی معبود ہیں- ہاں ہم آپﷺ کے خدا کو بھی مان لیں گے اس کی بھی عبادت کریں گے بس آپﷺ ہمارے خداوں کی توہین نہ کریں-
عتبہ کو اس درخواست کی کامیابی کا پورا یقین تھا لیکن ان سب ترغیبات کے جواب میں آپﷺ نے قرآن کی چند آیتیں پڑھیں؛ "اے محمدﷺ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں جیسا آدمی ہوں، مجھ پر وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک خدا ہے، بس سیدھے اسی کیطرف جاو اور اسی سے معافی مانگو-” "اے محمدﷺ کہہ دو کہ کیا تم لوگ خدا کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں یہ زمین پیدا کی اور تم خدا کے شریک قرار دیتے ہو، یہی سارے جہاں کا پروردگار ہے-"
عتبہ واپس گیا تو وہ عتبہ نہ تھا، اس نے قریش سے جا کر کہا کہ، "محمدﷺ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ شاعری نہیں کوئی اور چیز ہے، میری رائے یہی ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر وہ کامیاب ہو کر عرب پر غالب آجائیں گے جو کہ ضرور ہو گا تو یہ تمہاری ہی عزت ہے، اور اگر ایسا نہ ہوا تو عرب ان کو خود ہی فنا کر دے گا-” لیکن قریش نے یہ رائے نامنظور کی اور آپﷺ کو اذیتیں پنہچانے سے باز نہ آئے۔
آنحضرتﷺ کے عمام میں سے ابوطالب کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو آپﷺ سے خاص محبت تھی- وہ آپﷺ کے ہم عمر تھے اور آپﷺ کیساتھ ہی کھیلے تھے- حضرت حمزہ ابوطالب کے بیٹے ہونے کیوجہ سے رسول اللہﷺ کے چچا بھی تھے اور چونکہ آپ حضور اقدسﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچیری بہن کی اولاد تھے اس نسبت سے حضور کے خالہ زاد بھائی بھی تھے اور اس کے علاوہ آپ دونوں نے بی بی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اس نسبت سے آپ دونوں رضاعی بھائی بھی تھے- وہ گو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے لیکن آپﷺ کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے- ان کا مذاق طبیعت سپاہ گری اور شکار افگنی تھا- معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لیکر نکل جاتے اور سارا سارا دن شکار میں مصروف رہتے- شام کو واپس آتے تو پہلے حرم میں جاتے طواف کعبہ کرتے، روسائے قریش صحن حرم میں الگ الگ دربار جما کر بیٹھا کرتے تھے- حضرت حمزہ ان سے صاحب سلامت کرتے اور کبھی کبھی کسی کے پاس بیٹھ بھی جایا کرتے- اس طریق سے قریبا آپ کا سبھی سے یارانہ تھا- اور سب لوگ ان کی قدر و منزلت کرتے تھے-
حضور اقدسﷺ کیساتھ مخالفین جس بےرحمی سے پیش آتے تھے بیگانوں سے بھی دیکھا نہ جاتا تھا- ایک دن ابوجہل نے آپﷺ کیساتھ روبرو نہایت سخت گستاخیاں کیں جو ایک کنیز دیکھ رہی تھی- حضرت حمزہ جب شکار سے لوٹے تو اس کنیز نے ان سے تمام ماجرہ کہا- حضرت حمزہ یہ سب سن کر نہایت غصہ ہو گئے اور فرط جذبات میں تیر کمان ہاتھ میں لیے حرم میں تشریف لائے اور ابوجہل کو مخاطب کرتے ہوئے اعلانیہ کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرے ایمان لانے سے جس کو کچھ تکلیف ہے مجھ سے روبرو کلام کرے- چونکہ آپ میں جوہر سپاہ گری تھے اور دوسرا تمام قریش آپ کی قدر کرتے تھے اس سبب سے کسی کو کلام کی جرات نہ ہوئی-
آنحضرتﷺ کے جوش حمایت میں انہوں نے اسلام کا اظہار تو کر دیا لیکن گھر آ کر کافی متردد ہوئے کہ آبائی دین کو دفعتہ کس طرح چھوڑ دوں- تمام دن سوچتے رہے اور بلآخر یہی فیصلہ کیا کہ دین حق یہی ہے پس اپنے ایمان پر مضبوطی سے ڈٹ گئے- حضرت حمزہ کے ایمان لانے سے آپﷺ کو خاندانی طور پر پشت پناہی ملی- حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے دو چار روز بعد ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ایمان لے آئے جس سے اسلام کو قوت و طاقت ملی اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے-
حضرت عمر کی عمر کا ستائیسواں سال تھا جب آفتاب رسالت طلوع ہوا- یعنی رسول اللہﷺ نے اعلان نبوت کیا- حضرت عمر کے گھرانے میں حضرت ذید کیوجہ سے توحید کی آواز نامانوس نہیں رہی تھی چنانچہ سب سے پہلے ذید کے بیٹے سعید ایمان لائے- حضرت سعید کا نکاح حضرت عمر کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں- اسی خاندان میں ایک اور شخص نعیم بن عبداللہ نے بھی اسلام کر لیا تھا- لیکن حضرت عمر ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے- ان کے کانوں میں جب اسلام کی صدا پنہچی تو سخت برہم ہوئے، یہاں تک کہ قبیلہ میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے تھے- لبینہ ان کے خاندان کے کنیز تھیں جو اسلام قبول کر چکی تھیں- ان کو بےتحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ "زرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا-” لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا ذود و کوب سے زریغ نہ کرتے تھے- لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو ایک بار چڑھ جاتا تھا اترتا نہیں تھا- ان تمام سختیوں کے باوجود بھی وہ ایک بھی شخص کو اسلام سے بددل نہ کر سکے- آخر مجبور ہو کر خود ہی (نعوذ بااللہ) ذات نبوی کے قتل کا ارادہ کیا اور ننگی تلوار اٹھا کر سیدھے رسول اللہﷺ کیطرف چلے-
تبصرے بند ہیں۔