عازمین حج کی خدمت میں

 سجاد احمد خان

(لار گاندربل کشمیر)

حج کے مبارک اور پُر نور ایام قریب آچکے ہیں۔ چند دن بعد ہی دنیا کے مختلف کونوں اور زمین کے مختلف گوشوں سے اصحابِ جنوں کے قافلے عشق و محبت کی منازل طے کرکے حرم مقدس پہنچیں گے۔ ان لوگوں میں بادشاہ و فقیر، وزیر و امیر، دولت مند و حاجت مند، غنی و گداگر، شہریار و شہسوار، تاجدار و چوبدار، فرماں روا و بے نوا، نیاز مند و درد مند، تاجر و آجر، نادم و رند، عالم و عامی، کالے اور گورے، عربی و عجمی، مشرقی و مغربی، آقا و غلام، مرد و زن، بچے بوڑھے، توانا و ناتواں ، طاقتور و ضعیف سبھی شامل ہوں گے۔ مگر ان سب کے جسموں پر ایک جیسا لباس ہو گا اور ان کی ایک ہی منزل ہو گی جس کی جانب یہ خوش قسمت لوگ دیوانہ وار، کشاں کشاں بڑھتے چلے جائیں گے اور ایک ہی ترانہ ہو گا جو ان کی زبانوں پر مچل رہا  ہو گا۔

خوش قسمت لوگوں کے یہ قافلے کشاں کشاں اُس پاکیزہ وادی کی طرف کھنچے چلے جائیں گے‘ جسے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ”وادی غیر ذی زرع“ کا نام دیا تھا۔ یعنی ایسی سر زمین جہاں کھیت اگتے ہیں نہ فصلیں لہلہاتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کیا:  ؎

یہاں نہ گھاس اُگتی ہے‘ یہاں نہ پھول اُگتے ہیں

مگر اس سر زمین سے آسماں بھی جھک کر ملتے ہیں

یہ سفر بھی عجیب سفر ہے جو مسافر کی مرضی سے نہیں ، بلانے والے کی مرضی سے طے ہوتا ہے۔ کتنے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں تک کے سفر اُن کیلئے معمول کی بات ہے۔ مال کی فراوانی اور دولت کی ریل پیل ہے۔ بظاہر صحت بھی قابلِ رشک ہے اور خدّام کی بھی پوری فوج ہے لیکن ”رب البیت“ کی اجازت کے بغیر آخر وہ بیت اللہ کیسے چلے جائیں ؟ ایسے محروم قسمت لوگ ہمیشہ اسی سوچ بچار میں رہتے ہیں کہ کر لیں گے حج بھی‘ابھی کو نسی جلدی ہے؟ جب دنیا کے بکھیڑوں سے فارغ ہو جائیں گے‘ بالوں میں چاندی چمکنے لگے گی اور عمر ڈھلنے لگے گی تب کسی دن یہ فرض بھی سر سے اتار لیں گے۔ پھر افسوس کہ ایسا کوئی دن آنے سے پہلے ہی کسی صبح یا کسی شام حضرت عزرائیل علیہ السلام اپنا فرض نبھانے پہنچ جاتے ہیں۔ پھر یہ کہتا ہے کہ ہائے کاش! میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوتا لیکن ”اب کیا کرے گا ہوت‘ جب چڑیاں چک گئیں کھیت“

زندگی بھر فراغت کے انتظار میں حج کا فریضہ ٹالتا رہا اور فراغت ملی بھی تو ایسی کہ سوائے حرمت‘ ندامت اور افسوس کے کسی کام کی نہیں۔

ایک حدیث پاک کے یہ الفاظ پڑھیں ‘ کیسے انسان لرز کر رہ جاتا ہے۔ ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

من ملک زاد اوراحلۃ تبلغہ الی بیت اللّٰہ فلم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا او نصرانیا (ترمذی‘ کتاب الحج باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج)

”جس کے پاس سفر کا توشہ اور سواری ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکتی ہے، پھر بھی وہ حج نہ کرے تو اس کا یہودی ہو کر مرنا یا نصرانی ہو کر مرنا برابر ہے۔“

کتنے ایسے بھی فقرمنش اور درویش دیکھے کہ کسی چیز کی فکر نہیں۔ مکان نہ دوکان، بینک نہ بیلنس، کاروبار نہ ملازمت لیکن بیت اللہ کی تڑپ نے انہیں دیار حجاز پہنچا ہی دیا اور ایسے پہنچایا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ پتہ چلا کہ عشق و وفا کا سفر مال و دولت سے نہیں جذبات محبت سے ہی طے ہوتا ہے۔

اس لیے قابل مبارکباد ہیں وہ حضرات و خواتین جن کی آنکھیں عنقریب بیت اللہ شریف کے دیدار اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوں گی۔ اُن کے قدم طواف اور وقوف کے مزے لوٹیں گے۔ وہ سر زمین جس کے ہر حصے پر اہل ِ وفا کے انمٹ نشانات نقش ہیں اور جس کے ہر گلی کوچے سے راہِ حق میں قربانیوں کی کئی داستانیں وابستہ ہیں ‘ اُس کی زیارت نصیب ہو جانا بلاشبہ ایسی سعادت ہے کہ جس پر اپنے رب کا جتنا بھی شکرادا کیا جائے کم ہے۔

اس سعادت کو صحیح طور پر حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں ضروری معلومات بھی ہوں۔ اس کے فرائض و واجبات کا علم‘ اس میں پیش آنے والے مسائل اور عام طور پر کی جانے والی کوتاہیوں کے بارے میں ہم آگاہ ہوں۔ بہت سے حضرات حج کیلئے روانگی سے پہلے پر آسائش رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے بارے میں تو پوچھ لیتے ہیں لیکن اصل بات جو پوچھی جانی چاہیے‘ اس کے بارے میں اُنہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اس طرح لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ‘ مہینہ دیڑھ مہینہ معمولات زندگی بھی بدل جاتے ہیں ‘ جسمانی مشفقت اور تکلیف اس کے علاوہ ہے لیکن افسوس کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

بہت سے لوگ تو اس سے بڑھ کر یوں سمجھتے ہیں کہ جب حج کے سفر پر روانہ ہو گئے تو اب گناہوں سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نماز تو گویا گھر سے روانہ ہوتے ہی معاف کر وائی تھی۔ بہت سی باپردہ خواتین بے پردگی کو برا نہیں سمجھتیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ دوران حج پردہ ممنوع ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ انہیں نصیحت کر دے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔

یہ سب شیطانی جال ہیں جن کے ذریعے شیطان حج جیسے مبارک فریضے کو خراب کرتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کام ہمارے گھروں میں بھی گناہ اور باعثِ عذاب ہے‘ کیا حرم محترم جیسی عظمت والی جگہ پر وہ گناہ نہیں ہو گا۔ حرم شریف میں تو گناہوں سے بچنے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے کہ یہاں جیسے نیکیوں کا اجر بہت زیادہ ہے ویسے ہی گناہوں کا وبال بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ بندہ کو جب اللہ تعالیٰ نے حرم کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائی تو دوران ِ عمرہ ایک دن مسجدِ حرام کے دروازے کے قریب رکھے ہوئے ایک کتابچے پر نظر پڑی اور گویا میں سکتے میں آگیا۔ کتابچے کا عنوان تھا: انتبہ! انت فی الحرم (آگاہ رہو! تم حرمِ محترم میں ہو)

اگر حاجی صاحبان اسی جملے کو یاد رکھیں تو اُن کیلئے گناہوں سے بچنا بھی آسان ہو جائے گا اور اس عظمتوں بھرے سفر کا لطف بھی دوبالا ہو جائے گا۔ ہمیں صرف حج کے ظاہری اعمال ادا کر لینے پر ہی بس نہیں کر لینی چاہیے بلکہ ان ایمانی کیفیات کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اس سفر کی روح ہیں اور جن کے بغیر یہ ساری مشقت بالکل بے لطف اور بے کیف رہتی ہے۔

حج کے تمام کام صرف رسمی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان میں سے ہر ایک میں ہدایت کا پورا باب موجود ہے۔صرف تلبیہ کو ہی لے لیں ،جسے عام طور پر لوگ چند رٹے رٹائے جملوں کی طرح پڑھتے ہیں اور کبھی بھول کر بھی اس کے معنیٰ کی طرف دھیان نہیں جاتا،ذرا غور تو فرمائیں کہ ان چند مختصر لفظوں میں  مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے کتنا شاندار پیغام پوشیدہ ہے۔

لبیک اللھم لبیک… لا شریک لک لبیک… ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک…لبیک اللھم لبیک

”اے اللہ ہم حاضر ہیں …اے اللہ ہم حاضر ہیں … آپ کا کوئی شریک نہیں اور ہم آپ کے دربار میں حاضر ہیں … بے شک تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں ، سب نعمتیں آپ کی ہیں اور سارا جہاں آپ کا ہے… آپ کاکوئی شریک نہیں … اے اللہ ہم حاضر ہیں ،اے اللہ ہم حاضر ہے۔“

جی ہاں ! یہی وہ دستور ہے جس پر انسانیت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہی وہ منشور ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی اولادِ آدم کو تلقین کی گئی۔ یہی وہ قانون ہے جس پر نظامِ کائنات استوار ہے۔ یہی وہ لائحہ عمل ہے جس پر چل کر انسان کامیابی کی منازل پاسکتا ہے۔ یہی وہ اعلان ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا۔ یہی وہ مذہب ہے جو ہر امت کو دیا گیا۔ یہی وہ پیغام ہے جو مکہ کے صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم حراء سے لے کر سوئے قوم آئے۔ یہی وہ اٹل فیصلہ ہے جسے ماننے والا مسلمان اور نہ ماننے والا کافر کہلایا۔ یہی وہ صدا ہے جو لاکھوں کروڑوں انسانوں نے بلند کی اور ہاں !… آج انسانوں کا یہ سمندر جو خراماں خراماں اپنے رب کے اس مقدس گھر کی جانب چلا آیا ہے، وہ بھی تو یہی عہد کرنے چلا آرہا ہے۔

پس اے غمزدہ دکھی دل مسلمان بھائیو اور بہنو!

 آؤاس مبارک موقع پر ہم بھی اپنے پروردگار کے دربار میں ہاتھ پھیلائیں اور عہد کریں :

لبیک اللھم لبیک

اے اللہ! ہم حاضر ہیں۔ ہماری جان و مال، ہماری دولت، ہمارے گھر بار، ہماری آل و اولاد سب کچھ حاضر ہے۔ آپ کے نام کی سربلندی کے لئے، آپ کے دین کی حفاظت کے لئے، آپ کے پیغمبر ﷺ کی اطاعت کے لئے، آپ کے بندوں کی خدمت کے لئے… اے اللہ ہم حاضر ہیں !

لاشریک لک لبیک

اے ہمارے رب! آپ کا کوئی شریک نہیں ، آپ کی ذات بھی سب سے اعلیٰ، آپ کی صفات بھی سب سے برتر و بالا، آپ کا علم بھی سب سے زیادہ، آپ کی حکومت بھی سب سے مضبوط، آپ کی سلطنت سب سے وسیع، آپ کا قانون سب سے اعلیٰ، آپ کا حکم سب سے اولیٰ۔ پس آپ کا کوئی شریک نہیں ، نہ عبادت میں نہ حکومت میں ، نہ سلطنت میں ، نہ قانون میں ، نہ دستور میں۔ لہٰذا ہم آپ کو وحدہ لاشریک مانتے ہیں اور توحید کے اس ”جرم“ کی پاداش میں ہم پر جو مصیبتیں ، صعوبتیں ، مشقتیں اور تکلیفیں آئیں … ہم انہیں سہنے اور برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اے اللہ ہم حاضر ہیں ، ہم حاضر ہیں !

ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک، لبیک اللھم لبیک

بے شک! ساری حمد و ثناء ہمارے پروردگار ہی کے لئے ہے،کیونکہ ہر نعمت وہی دیتا ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں کائنات کا ذرہ ذرہ  ہے، پس حکومت بھی اسی کی ہے اور عزت بھی اسی کی، رحمت بھی اسی کی ہے اور تعریف بھی اسی کی، اس کا کوئی ہمسر نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں اور توحید کے اس پرچم کو سربلند رکھنے کیلئے، ساری دنیا میں اس پیغام کو پھیلانے کے لئے اے اللہ ہم حاضر ہیں … اے اللہ ہم حاضر ہیں …!

لبیک اللھم لبیک

حج کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اردو خواں حاجی حضرات کو ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کا رسالہ ”فضائل حج“ضرور پڑھ لینا چاہیے ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان لاکھوں روپے خرچ کر کے،تھکا دینے والا اور لمبا سفر کر کے گھر واپس پہنچتا ہے تو حالت یہ ہوتی ہے کہ:

یہ حسرت رہ گئی پہلے سے حج کرنا نہ سیکھا تھا

کفن بردوش جا پہنچے مگر مرنا نہ سیکھا تھا

یہ دیوانے اگر پہلے سے کچھ ہشیار ہو جاتے

حرم میں بن کے محرم صاحب اسرار ہو جاتے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بار بار ادب و عظمت کے ساتھ حرمین شریفین کی مقبول حاضری نصیب فرمائے۔ (آمین ثم آمین)

٭…٭…٭

تبصرے بند ہیں۔