انسان اور زمین کی حکومت (قسط 120)
رستم علی خان
صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضرت عمر ایمان لائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، اتفاق سے عاص بن وائل ادھر آ نکلا اور دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا عمر مرتد ہو گئے ہیں۔ تو عاص بن وائل نے کہا، تو کیا ہوا میں نے عمر کو پناہ دی-
رسوخ عزائم، قوت ارادہ، شدت عمل، انسان کے اصلی جوہر ہیں اور داد کے قابل ہیں، لیکن انہی اوصاف کا رخ جب بدل جاتا ہے تو وہ سخت دلی، بےرحمی، درندہ طبعی اور سفاکی کا مہیب قالب اختیار کر لیتے ہیں- اسلام جب آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور رسول اللہﷺ اور اکابر صحابہ اکرام کو ان کے قبیلوں نے اپنے حصار حفاظت میں لے لیا تو قریش مکہ کا طیش و غضب ہر طرف سے سمٹ کر ان غریبوں پر ٹوٹا جن کا کوئی یار و مددگار نہیں تھا- ان میں کچھ غلام اور کنیزیں تھیں، کچھ وہ غریب الوطن لوگ تھے جو دو ایک پشت سے مکہ میں آ کر رہ رہے تھے، اور کچھ کمزور قبیلوں کے آدمی تھے جو کسی قسم کی عظمت و اقتدار نہیں رکھتے تھے- قریش نے ان کو اس طرح ستانا شروع کیا کہ جور و ستم کی تاریخ میں اس کی مثال پیدا کرنا قریش کی یکتائی کی تحقیر ہے-
یہ آسان تھا کہ مسلمانوں کے خس و خاشاک سے سرزمین عرب دفعتہ پاک کر دی جاتی، لیکن قریش کا نشئہ انتقام اس سے نہیں اتر سکتا تھا۔ مسلمان اگر اپنے مذہب پر ثابت قدم رہ کر پیوند خاک کر دئیے جاتے تو اس میں جس قدر قریش کی تعریف نکلتی اس سے زیادہ ان بیکسوں کا صبر و استقلال داد طلب ہوتا، قریش کی شان اس وقت قائم رہ سکتی تھی جب یہ لوگ مذہب اسلام سے پھر کر دوبارہ قریش کے بت پرستی والے مذہب میں شامل ہو جاتے۔ یا شائد ان کو مسلمانوں کی سخت جانی کا امتحان لینا اور اس کی داد دینا منظور تھی-
قریش میں ایسے لوگ بھی تھے جن کو واقعی اس حالت پر دل جلتا تھا کہ ان کا مدتوں کا بنا بنایا کارخانہ درہم برہم ہوا جاتا ہے، ان کے آباو اجداد کی تحقیر کی جاتی ہے، قابل احترام معبودوں کی عزت و عظمت مٹی جاتی ہے، یہ لوگ صرف حسرت و افسوس کر کے رہ جاتے تھے اور کہتے تھے چند خام طبقوں کے دماغ میں خلل آ گیا ہے- عتبہ اور عاص بن وائل وغیرہ اسی قسم کے لوگ تھے، لیکن ابوجہل اور امیہ بن خلف وغیرہ کا معیار اس سے بلند تھا-
بہرحال قریش نے جور و ظلم کے عبرت ناک کارنامے انجام دینے شروع کئے- جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو وہ غریب مسلمانوں کو پکڑتے، عرب کی تیز دھوپ، ریتلی زمین کو دوپہر کے وقت جلتا توا بنا دیتی ہے، وہ ان غریبوں کو اسی توے پر لٹاتے اور چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پاویں، بدن پر گرم ریت بچھاتے، لوہے کو آگ پر گرم کر کے اس سے داغتے، پانی میں ڈبکیاں دیتے، یہ مصیبتیں اگرچہ تمام بیکس مسلمانوں عام تھیں، لیکن ان میں جن لوگوں پر قریش زیادہ سخت تھے ان کے نام یہ ہیں؛
حضرت خباب بن الارت تمیم کے قبیلہ سے تھے جاہلیت کے دور میں غلام بنا کر فروخت کر دئیے گئے تھے، ام انمار نے خرید لیا تھا، یہ اس وقت ایمان لائے جب آنحضرتﷺ ارقم کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چھ سات لوگ ایمان لائے تھے، قریش نے ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں، ایک دن کوئلے جلا کر زمین پر بچھائے اس پر چت لٹایا اور ایک شخص چھاتی پر پاوں رکھے کھڑا رہا کہ کروٹ نہ بدلنے پائیں، یہاں تک کہ ان کے بدن کی چربی پگھلنے سے کوئلے کمر کے نیچے ٹھنڈے ہوئے- مدتوں بعد جب یہ واقعہ حضرت عمر کو سنایا تو کمر کھول کر دکھائی کہ برص کے نشان کیطرح بلکل سپید تھی- حضرت خباب زمانہ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتے تھے، اسلام لائے تو کچھ لوگوں کے ذمہ ان کا بقایا تھا، مانگتے تو جواب ملتا، جب تک محمدﷺ کا انکار نہیں کرو گے ایک کوڑی نہ ملے گی، یہ کہتے کہ "نہیں جب تک تم مر کر پھر جیو نہیں-” یعنی قیامت تک بھی نہیں.
حضرت بلال رضی اللہ عنہ، یہ وہی بلال ہیں جو موذن رسولﷺ کے لقب سے مشہور ہیں، حبشی النسل اور "امیہ بن خلف” کے غلام تھے- جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو امیہ ان کو جلتی ہو ریت پر لٹاتا اور پتھر کی چٹان ان کے سینہ پر رکھ دیتا کہ جنبش نہ کرنے پائیں، ان سے کہتا کہ اسلام سے باز آ ورنہ یونہی گھٹ گھٹ کر مر جائے گا- لیکن اس وقت بھی ان کی زبان سے "احد” کا لفظ نکلتا- جب یہ کسی طرح متزلزل نہ ہوئے تو ان کے گلے میں رسی باندھ اور لونڈوں کے حوالے کیا، وہ ان کو شہر کے اس سرے سے اس سرے تک گھسیٹتے پھرتے تھے، لیکن اب بھی وہی ایک رٹ تھی "احد احد-"
حضرت عمار یمن کے رہنے والے تھے، ان کے والد "حضرت یاسر” مکہ میں آئے، "ابو حذیفہ مخزومی” نے اپنی کنیز سے جس کا نام "سمعیہ” تھا، شادی کروا دی تھی- حضرت عمار انہی کے بطن سے پیدا ہوئے، یہ جب اسلام لائے تو ان سے پہلے صرف تین آدمی ایمان لائے تھے- قریش ان کو جلتی زمین پر لٹاتے اور اس قدر مارتے کہ بیہوش ہو جاتے، ان کے والد اور والدہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے تھے-
حضرت سمعیہ رضی اللہ عنہا حضرت عمار کی والدہ تھیں، ان کو اسلام لانے کے جرم میں ابوجہل نے برچھی ماری اور یہ شہید ہو گئیں- حضرت یاسر رضی اللہ عنہ جو حضرت عمار کے والد تھے، یہ بھی کفار کے ہاتھوں اذیتیں اٹھاتے اٹھاتے منصب شہادت پر پنہچے-
حضرت صہیب رضی اللہ، یہ رومی مشہور ہیں لیکن درحقیقت رومی نہ تھے، ان کے والد "سنان’ کسری کی طرف سے "ابلہ” کے حاکم تھے، اور ان کا خاندان "موصل” میں آباد تھا- ایک دفعہ "رومیوں” نے اس نواح پر حملہ کیا اور جن لوگوں کو قید کر کے لے گئے ان میں حضرت صہیب بھی تھے- یہ "روم” میں پلے اس لیے عربی زبان بھی اچھی طرح بول نہیں سکتے تھے- ایک عرب نے ان کو خریدا اور مکہ لایا، یہاں "عبداللہ بن جدعان” نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا- آنحضرتﷺ نے جب دعوت اسلام شروع کی تو یہ اور حضرت عمار اکٹھے آنحضرتﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے- آپﷺ نے ان کو اسلام کی ترغیب دی تو یہ مسلمان ہو گئے- کفار مکہ ان کو اس قدر اذیتیں دیتے تھے کہ ان کے حواس محتمل ہو جاتے تھے- جب انہوں نے ہجرت کرنا چاہی تو قریش نے کہا کہ اپنا سارا مال و متاع یہیں چھوڑ جاو تو جا سکتے ہو، انہوں نے بخوشی قبول کیا اور خالی ہاتھ مکہ سے ہجرت کی-
حضرت ابو فکیہہ رضی اللہ، یہ "صفوان بن امیہ” کے غلام تھے، اور حضرت بلال کے ساتھ ہی ایمان لائے- جب امیہ کو یہ بات معلوم پڑی تو ان کے پاوں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا کہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اوع تپتی ہوئی زمین پر لٹائیں، راستے میں ایک "گڈڑیا” جا رہا تھا، امیہ نے ان سے کہا، "تیرا خدا یہی تو نہیں ہے۔” انہوں نے جوابا کہا کہ، "تیرا اور میرا بلکہ تمام عالم کا خدا اللہ تعالی ہے جو وحدہ لاشریک ذات ہے۔” اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگوں کو گمان ہوا کہ مر گئے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے سینہ پر اتنا بھاری بوجھل پتھر رکھ دیا کہ ان کی زبان باہر کو نکل پڑی-
حضرت لبینہ رضی اللہ عنہا، یہ حضرت عمر کی کنیز تھیں- قبول اسلام سے قبل حضرت عمر ان کو اس قدر مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے تھے کہ، "میں نے تجھ کو رحم کی بنا پر نہیں، بلکہ اس لیے چھوڑا ہے کہ تھک گیا ہوں، زرا بھر دم لے لوں تو پھر ماروں گا-” تب وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ، "اگر تم ایمان نہ لاو گے تو خدا ضرور تم سے اس کا انتقام لے گا-"
حضرت زنیرہ رضی اللہ عنہا، یہ بھی حضرت عمر کے گھرانے کی کنیز تھیں اور قبول اسلام سے قبل حضرت عمر ان کو جی کھول کر ستاتے اور زود و کوب کرتے، ابوجہل نے ان کو اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔
حضرت نہدیہ اور ام عبیس رضی اللہ عنہما، یہ دونوں بھی کنیزیں تھیں اور اسلام قبول کرنے کے جرم میں کفار انہیں بھی طرح طرح کی سخت سے سخت اذیتیں دیتے تھے-
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل کا یہ پہلا باب ہے کہ انہوں نے ان مظلوموں میں سے اکثر کی جان بچائی، "حضرت بلال، عامر بن فہیرہ، لبینہ، زنیرہ، نہدیہ، ام عبیس رضوان اللہ علیہم اجمعین” وغیرہ کو بھاری بھاری داموں پر ان کے کافر آقاوں سے خریدا اور آزاد کر دیا۔ یہ لوگ وہ تھے جنہیں کفار نے انتہائی سخت جسمانی اذیتیں پنہچائیں تھیں- ان سے کم درجہ پر وہ لوگ تھے جن کو طرح طرح سے ستایا جاتا تھا؛ "حضرت عثمان رضی اللہ جو کبیر السن اور صاحب جاہ و اعزاز تھے، جب اسلام لائے تو کسی اور نے نہیں بلکہ خود ان کے سگے چچا نے رسیوں سے باندھ کر مارا”، "حضرت ابوذر رضی اللہ جو ساتویں مسلمان تھے، انہوں نے جب اسلام قبول کیا اور کعبہ میں جب اپنے اسلام کا اعلان کیا تو قریش نے مارتے مارتے ان کو لٹا دیا”، "حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ، جن کا قبول اسلام میں پانچواں نمبر ہے، جب مسلمان ہوئے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کے ناک میں دھواں دیتے تھے”، "حضرت عمر کے چچا ذاد بھائی حضرت ذید بن سعید جب اسلام لائے تو حضرت عمر نے ان کو رسیوں سے باندھ دیا تھا-"
لیکن یہ تمام مظالم، یہ جلادانہ بےرحمیاں، یہ عبرت خیز سفاکیاں، ایک مسلمان کو بھی راہ حق سے متزلزل نہیں کر سکیں- ایک عیسائی مورخ نے نہایت سچ لکھا؛ "عیسائی اس بات کو یاد رکھیں تو اچھا ہو کہ محمدﷺ نے وہ نشئہ دینی کا آپﷺ کے پیروکاروں میں پیدا کیا جس کو عیسی علیہ السلام کے ابتدائی پیروکاروں میں تلاش کرنا بےفائدہ ہے…..جب عیسی علیہ السلام کو سولی پر لیجانے لگے تو ان کے پیروکار بھاگ گئے، ان کا نشئہ دینی جاتا رہا، اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر بھاگ گئے……برعکس اس کے محمدﷺ کے پیروکار اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپﷺ کو غالب کیا”۔
اسلام و عليكم بھائی آپ اس کتاب کا حواله ديں گے کچھ باتيں غلط هيں