محبت پر مبنی ادب کو فرغ دینے کی ناگزیر ضرورت ہے!

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

ہندوستان تعدد اور تکثیریت کا شاندار مرکز و محور ہے؛بقائے باہم،اقوام و ملل کا باہم تحفظ و احترام وطن عزیز میں ہمیشہ تابندہ اور درخشاں رہا ہے۔ یہ اصول مسلم ہیہیکہ کسی بھی تکثیری سماج کی بقاء  اور اس کا استحکا م ادیان کا احتر ام؛ دینی و مذہبی شخصیات کی توقیراوراتحاد و یگانت  ہی میں منحصر ہے،خیر ہندوستان میں تو یہ چیز کثرت سے پائی جاتی ہے اور باقاعدہ اس کی عملی مثالیں بھی ملک کے بیشتر حصوں میں موجود ہیں۔ اگر ہندوستان کے موجودہ حالات  کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے ہندومذہب و دیگر ادیان پر انتھائی انصاف و ایمانداری سے کام کیا ہے اور یکجہتی و قومی اتحاد کو مزید مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ آج ضرورت بھی اس کی شدت سے محسوس کیجارہی ہیکہ ملک کے تانے بانے کو جس طرح سے دھندلا اور داغدار کرنے کی ناکام سعی کیجارہی ہے، ملک کے منظر نامہ سے یہ تمام خطرات و خدشات دور کرنے ہونگے اور اسکے لئے صرف زبانی طور پر جنگ لڑنا کافی وشافی نہ ہوگا بلکہ تحریری اور عملی طور پر بھی باہم اعتبار واعتماد کی روشن وتابناک فضا کوگلزار کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ آج ہندوستانی معاشرہ کو جس راہ پر لیجایا جارہا ہے اس کے پس پردہ اگر ہم حالات کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ملک میں شر پسند عناصر ہندو مسلم کا سیاسی کارڈ کھیل رہے اور سیدھے طور پر ملک کی عظیم روایت اور صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت یعنی باہم محبت والفت اور اعتماد وبھروسہ کو بری طرح چکناچور کررہے ہیں، نفرت و تشدد کے سوداگر روز ملک کی ساجھی روایت پر ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کرتیہیں شرمناک بات یہ ہیکہ  ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ، انہی وجوہات کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرہ میں باہم میل جول میں جھول آتی نظر آرہی ہے اور اس کی جگہ شکوک وشبھات جنم لے رہیہیں عدم اعتبار مضبوط ہوتا دکھ رہا ہے اور کثرت سے ہندو مسلم اقوام میں باہم سماجی و مذہبی خلفشار کی واردات میں اضافہ ہورہا ہے حد تو یہ ہیکہ اب باقاعدہ حب الوطنی کا انحصار چند نعروں میں سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے تصور کیجئے کیا ہمارے ملک میں دیش بھکتی کی جو جدید اصطلاح و تعریف ایجاد کرنے کے کاوش ہورہی ہے مادر وطن سے محبت کے لئے صرف وہی کافی ہے؟اسلئے ملک کے موجودہ حالات کو بدلنا ہوگا اور جو منفی ومنکر فکر روز بروز پروان چڑھتی نظر آرہی ہے اس کے خلاف باقاعدہ ان سیاسی افراد وجماعتوں کو جو سیکولر و آئینی اور جمہوری اقدار کی علمبردار ہیں انہیں زمینی سطح پر اس سوچ کے خلاف کام کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے،اسی کے ساتھ ساتھ اہل علم اور دانشور و مفکرین اہل قلم کو بھی تکثیری معاشرہ کی تمام تر عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ملک  کی تمام زبانوں میں تحریری سرمایہ قوم کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے،نیز مذہبی قائدین کو بھی مفاہمت بین المذاہب کی روایت کوفروغ دینا ہوگا جب تک معاشرہ میں باہم مذاہب کا احترام و اعتبار اور عظمت و توقیربحال نہ ہوگی اس وقت تک کوئی بھی تکثیری معاشرہ امن وامان،اتحاد و اتفاق اور قومی سلامتی کے زیور سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کے  باہمی روابط کو صالح خطوط پر استوار کرنے کے لئے ہمیشہ سے اہل علم اور مفکرین و دانشورں نے مثبت اقدام کئے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے  مخلصیں اور سچے محبین وطن نے اپنے تحریری سرمایہ اور عملی کاوش سے  ہندوستان کے افق پر باہمی میل جول اور گنگا جمنی تہذیب کو نہ صرف چمکایا بلکہ پوری دنیا میں ہماری رنگا رنگی اور تنوع  کو علامت و شعار کے طور پر متعارف کرایا۔ اسی سلسلہ کی سنہری کڑی پروفیسرمحمد سعود عالم قاسمی کی تازہ تصنیف’’مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت‘‘ہییہ ابھی منظر عام پر آئی ہے اس کو ہندوستان کے معتبر اور علمی و فکری ادارہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑہ نے شائع کیا ہے۔ یہ سچ ہیکہ پروفیسرمحمد  سعود عالم قاسمی علمی دنیا میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ اب تک تقریبا تین درجن کتب تحریر کر چکے ہیں، آنجناب دینیات کے ممتاز ترین پروفیسر ہیں آپ تحریر اور تقریر دونوں کے شہنشا? ہیں آپ کا  تحریری سرمایہ باحثین و اسکالر س اور اہل علم کی تشنگی دور کرتا ہے۔ وہیں عوام الناس کے لئے بھی اسلامی روایات و اقدار کا پابند ہونے کی پرزور اپیل کرتا ہے،ظاہر ہے جب معاشرہ کے اندر توازن و اعتدال  امانت ودیانت اور وفاداری و فرض شناسی کا عنصر غالب ہوگا تبھی جاکر کوئی بھی معاشرہ صحتمند اور صالح کہلائے گا اور ملک کی تعمیرو ترقی میں بھی  مذکورہ پاکیزہ اوصاف سے حامل معاشرہ کا اہم رول ہوپائیگا، موصو ف کی  زیر تذکرہ کتاب’’ مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت‘‘کی  اہمیت و افادیت سے قطعی انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے یہ کتاب بقائے باہم،قومی ملی اتحاد،انسان دوستی،مذہبی آزادی،حب الوطنی،اتحاد ویگانت،حقوق وفرائض، عدل بین الناس، علمی نکات،حکمت و دانائی،شعور و تدبر،فکری بالیدگی، قومی یکجہتی،مفاہمت بین المذاہب، ہندو مسلم اتحاد اور بقائو تحفظ جیسی پاکیزہ صفات کی آئینہ دار ہے تو تنگ نظری تعصب اور عدم وسعت پر آہنی حصار۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے اس کتاب کے ذریعہ ہم آہنگی،رواداری، خوش خلقی اور مصالحت بین الناس کی ہندوستان جیسے تکثیری و جمہوری اور سیکولر معاشرہ میں جو شمع روشن کی ہے اس کی کرنیں نہ صرف معاشرہ کو باہم جوڑنے کا کام کرینگی بلکہ ہمیشہ جھلملاتی رہیں گی۔ اور ہندوستانی معاشرہ اس کے علمی و عرفانی نور سے منور ہوتا رہے گا۔

چنانچہ پروفیسر سعود عالم قاسمی کی کتاب’’ مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت‘‘کی اہمیت کئی اعتبار سے مسلم ہے کیونکہ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں اور ہر روز تشدد و نفرت میں تندی آرہی ہے نوع انسانیت کو بری طرح تہ تیغ کیا جارہا خصوصا ہندوستان میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلم اقلیت  کو زدوکوب کیا جارہا اور نت نئے حیلوں بہانوں سے آئے دن مسلم اقلیت ضرر رساں واقعات کا شکار ہورہی  ہے، اس لئے ایسے پر آشوب دور سے نجات پانے کے لئے اور نوع انسانیت کے دل ودماغ سے ہندو مسلم نفرت کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری ہیکہ اس کتاب کو پڑھا جائے اور اس کی اہمیت و افادیت سے خواص و عوام کو متعارف کرایا جائے۔ آج کے اس پر آشوب اور پر تشد دور میں لازمی ہیکہ اہل علم و فکر اور دانشور اس طرح کے مواد ولٹریچر کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ خوف وہراس اور وحشت وبربریت کے اس ماحول سے امت کو نجات ابدی مل سکے،اس تناظر میں پروفیسرمحمد سعود عالم قاسمی کی کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے اس نازک وقت میں کتاب لکھ کر ملک میں یکجہتی و سالمیت اور اتحادو اتفاق کی بوسیدہ ہوتی روایت کو جلا بھی بخشی ہے اور تقویت پہنچانے کا بھی کام کیا ہے۔

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب اور ہم آہنگی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت میں فرماتے ہیں۔ ’’ہندوستان گونا گوں تہذیبوں اور مختلف ومتنوع مذاہب و ادیان کا ملک ہے۔ اس ملک میں بہت سے ایسے مذاہب ہیں جو اسی سر زمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے بانی اسی ملک کے باشندہ تھے مثلا بدھ مت،ہندومت،جین مت اور سکھ مت وغیرہ۔ اور بہت سے مذاہب ایسے ہیں جو دوسرے ملکوں سے آئے اور سر زمین ہند میں ان کے پیروکاروں اور پرستاروں کی بڑی تعداد ہوگئی ان مذاہب میں زر تشت مذہب،یہودی مذہب،عیسائی مذہب اور اسلام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ‘‘

مذکورہ اقتباس اس بات کا بین ثبوت ہے  کہ ہندوستان ادیان و ملل اور تعدد و تکثیریت کا سنگم رہا ہے اور ہے۔ اسی وجہ سے اس ملک کی حسن اور امتیاز یہ ہے کہ یہاں  تمام قومیں باہم رودارانہ سلوک سے پیش آتی ہیں ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام وتقدس یہاں کے خمیر میں شامل اور یہی مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کی آج مزید ضرورت ہے۔

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں اقتباس ملاظہ کیجئے’’ہندوستان کے برہمن دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی تعلیمات اور اپنی مذہبی زبان سنسکرت سے دور رکھتے تھے۔ اس کو سکھانے کے لئے ہر گز آمادہ نہ تھے۔ اس کے باوجود مسلم علماء￿  نے سنسکرت زبان اور ہندو مذہب کی تعلیمات کو سیکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صرف ابوریحان البیرونی ہی نے ویدک  دھرم اور سنسکرت زبان نہیں سیکھی بلکہ ان کے بعد بہت سے علماء￿  نے یہ کام کیا۔ شیخ حیدر علی باہر سے ہندوستان آئے۔ گجرات کے شہر کھنبائت میں برہمنوں کے ساتھ رہے۔ سنسکرت زبان اور ویدک دھرم کی تعلیم  حاصل کی۔ پھر اپنے بر ہمن استاد کو اسلام کی دعوت دی۔ استاد نے دین حق کو قبول کرلیا بادشاہ اکبر کے زمانہ میں ان کے حکم سے ملا عبد القادر بدایونی نے مہا بھارت کے ابتدائی حصہ کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ اکبر بادشاہ کے وزیر ابو الفضل علامی کے بڑے بھائی شیخ فیضی نیسات سال تک بنارس کے ایک پنڈت کے گھر میں اپنا نام اور مذہب چھپاکر سنسکرت اور ہندو دھرم کی تعلیم حاصل کی شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے بنارس میں رہ کر ہندو دھرم میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے اپنشد کا ترجمہ فارسی میں سر اکبر کے نام سے کیا۔ بھگوت گیتا کا بھی فارسی ترجمہ کیانیز مسلمان صوفیوں اور ہندو یوگیوں کے عقائد پر مشتمل کتا ب مجمع البحرین لکھی۔ سید نظام الدین بلگرامی اور قاضی غلام مخدوم چریا کوٹی نے بھی بنارس جاکر سنسکرت زبان اور ہندو دھرم کی تعلیم حاصل۔ ان کے بعد شیخ عنایت اللہ بلگرامی اورمتعدد مسلمان علماء￿  ہیں جنہوں نے سنسکرت زبان اور ویدک دھرم میں مہارت حاصل کی یہ سلسلہ مسلم حکومت کے اختتمام کے بعد بھی جاری رہا‘‘

مذکورہ اقتباس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کی شاندار روایت ہندوستان میں مسلم علماء￿  اور غیر مسلم مفکرین نے  قائم کی تھی انہی اکابرین کی مساعی جمیلہ سے سر زمین ہند اور پوری دنیا میں امن و یکجہتی اور مفاہمت وحسن سلوک کا تصور مستحکم ہوا۔ خصوصا ہندوستان کو  پوری دنیا میں مذاہب و ادیان کی کہکشاں کیطور پر جا نا جانے لگا،لہذا آج بھی ان صالح روایات کو منظم کرنے کی سخت ترین ضرورت ہیاور ہندوستانی تکثیری معاشرہ میں  ایسے مثبت لٹریچر کو فروغ دیکر بھائی چارگی اور فلاح وصلاح وجذبہ  خیر سگالی میں اضافہ کر نا ہوگا۔

پروفیسر محمدسعود عالم قاسمی کی یہ کتاب جہاں تحقیق و تدقیق کی جدید جہات اور گوشوں کو اجاگر کرتی ہیوہیں ان اسکالرس کے لئے یہ بیش قیمت تحفہ ہے جو مطالعہ مذاہب اور مکالمہ بین المذاہب جیسے موضوعات پر کام کرنا چاہتے ہیں، پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی اس علمی کاوش کو اردو میں لکھی جانے والی تقابل ادیان پر اب تک  کی تمام  کتب میں سب سے جداگانہ اور ممتاز قرار دیا جاسکتا ہے، اتنی شرح وبسط اور تحقیق و چھان پھٹک کے ساتھ ابھی تک اس حساس اور زندہ موضوع پر  کوئی کتاب میری معلومات کے مطابق نہیں لکھی گئی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کی یہ کتاب اس اعتراض کا بھی مسکت جواب ہے کہ مسلم علماء  و مفکرین و محققین نے دیگر مذاہب و ادیان پر کام نہیں کیا ہے۔ چنانچہ مصنف موصوف کا یہ علمی ورثہ  مخلوط سماج کے جملہ تقاضوں اور روابط کو مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ نیز ہندوستان میں بڑھتی تنگ نظری اور تعصب و عناد کی بنیاد پر چند مٹھی بھر عناصر نے جو ہندو مسلم سماج میں تفریق و انتشار کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے وہ خلیج بھی کم ہوگی اور  یہ کتا ب باہم  سماجی ہم آہنگی کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔