ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے

حفیظ نعمانی

جون کی آخری تاریخوں میں تبریز انصاری کے قتل اور اس کی نئی نویلی دولھن کے بارے میں جب یہ معلوم ہوا کہ دونوں نہ صرف یتیم ہی تھے بلکہ یسیر بھی تھے تو نہ چاہنے کے باوجود کچھ ایسے الفاظ قلم سے نکل گئے جس نے جذبات کو بھڑکا دیا۔ وہ مضمون جس جس اخبار میں چھپا اس کے پڑھنے والوں کے دلوں پر آرے چل گئے اور انہوں نے اس بیوہ کی محبت میں ایسے ایسے مشورہ دیئے جن پر وہی عمل کرسکتا ہے جو اُن کے قریب رہتا ہو۔

ہم نے مضمون کی ابتدا دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خاں صاحب کی پیشکش کو پڑھ کر کی تھی جو دہلی میں رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انہوں نے مکان دینے کی جو پیشکش کی تھی وہ دہلی میں ہی ہوگا۔ ہم نے لکھا تو یہ بھول گئے کہ اسے بھی ظاہر کردیں کہ ہم لکھنؤ میں رہتے ہیں اور مکان میں اپنی بیٹی بناکر رکھنے کی بات لکھنؤ میں ہی ہوسکتی ہے۔ کلکتہ سے سب سے زیادہ ٹیلیفون میرے پاس آئے اور سب نے روپئے کے علاوہ جو بھی مدد کرنے کی بات کی وہ کلکتہ کے لئے تھی۔ جبکہ مسئلہ جھارکھنڈ کا ہے اور زیادہ حق رانچی اور جمشید پور والوں کا ہے کیونکہ وہ ہم سب کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں۔

ہمیں بہت خوشی ہے کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے کا بھائی ہونے کا جذبہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارا مذہب چاہتا ہے۔ لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ بھائی چارہ کے ضرورت سے زیادہ اظہار کا ایک نتیجہ وہ نکلتا ہے جو دادری کے اخلاق مرحوم کے گھر والوں کے ساتھ ہوا کہ ان کو راتوں رات اپنا گھر چھوڑکر اور گھر میں تالا لگاکر جانا پڑگیا۔ تین سال پرانی بات سب کو یاد ہوگی کہ دہلی کے قریب ہونے کی وجہ سے ہر پارٹی کا لیڈر محبت دکھانے آرہا تھا۔ اس وقت اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اکھلیش یادو نے اخلاق مرحوم کے گھر والوں کو لکھنؤ بلایا اور معاوضہ کی رقم دے کر اس لئے اعلان کیا کہ مسلمان آئندہ انہیں ووٹ دیں۔ جبکہ انہیں دکھاکر اور جتاکر پیسے دینے کے بجائے جو دینا تھا وہ خاموشی سے دیتے۔ اور زیادہ کوشش اس کی کرتے کہ زیادہ سے زیادہ حملہ آوروں کو گرفتار کراتے اور مندر کے اس پجاری کو گرفتار کراتے جس نے مندر کے مائک سے اعلان کیا تھا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت پک رہا ہے۔ لیکن اکھلیش یادو نے یہ چاہا کہ ہندو ناراض نہ ہوں اور مسلمان خوش ہوکر ووٹ دے دیں۔

اس زمانہ میں مرکز میں مودی جی کی حکومت تھی دہلی میں جب یہ خبر عام ہوئی کہ ہر مسلمان لیڈر اور ہر پارٹی کا لیڈر مسلمان ووٹوں کے لئے اخلاق کے گھر جارہا ہے تو نئے وزیر اپنی چمکتی ہوئی گاڑیاں لے کر آگئے اور دادری کی طرف آنے والے سارے راستے بند کردیئے۔ اخلاق مرحوم کا ایک زخمی بیٹا گھر پر تھا اور ان کی بیوی اور لڑکیاں تھیں۔ انہیں محسوس ہوا کہ مقامی ہندو اور زیادہ دشمن ہوتے جارہے ہیں اس لئے ایک رات کو موقع غنیمت دیکھ کر وہ دہلی چلے گئے اور آج تک ان کے گھر میں تالا پڑا ہے۔

اس واقعہ سے سب کو سبق لینا چاہئے ہر طرف شور مچانے کے بجائے سب کچھ خاموشی سے کرنا چاہئے۔ یہ دیکھ کر کہ ایس پی نے فرض میں کوتاہی برتنے کے جرم میں دو افسروں کو معطل کردیا ہے اور پانچ ملزموں کو گرفتار کرلیا ہے یہ اطمینان کرنا چاہئے کہ ایس پی صاحب کو ہر مشورہ میں شریک کرنا چاہئے اور پولیس کی مدد کرنا چاہئے کیونکہ جو کچھ کرے گی وہ پولیس ہی کرے گی۔

ہمیں مشورہ دینے والوں میں اکثریت ان کی ہے جو اس بیوہ کا پتہ اور بینک اکائونٹ نمبر مانگ رہے ہیں وہ اپنی حیثیت کے مطابق اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت اچھا جذبہ ہے لیکن جتنی باتیں سامنے آئی ہیں ان میں یہ سب سے اہم ہے کہ اس بچی کو آئے ہوئے صرف دو مہینے ہوئے ہیں اور تبریز انصاری اسے لے کر دو دن کے بعد پونے جانے والا تھا اس لئے بینک اکائونٹ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور اب یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ سوتیلی ساس کے ساتھ رہے گی یا اپنے گھر واپس جانا چاہے گی یا ہم جیسے لوگوں نے اس کے سامنے تجاویز رکھی ہیں ان پر عمل کرے گی اس کا فیصلہ ہونے کے بعد ہی بینک کا مسئلہ حل ہوگا۔

تبریز مرحوم تو اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے گئے جو بچی چھوڑ گئے ہیں وہ کم عمر ہے۔ سب سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ ہم لوگ محبت میں کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھیں کہ وہ پریشانی میں پڑجائے۔ اس لئے ہر وہ بھائی بہن جو اس کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں اس رقم کو الگ رکھ دیں وقت آنے پر ان اخباروں کے ذریعہ ہی بتا دیا جائے گا کہ کیا کیا جائے اور کس طرح کیا جائے؟

دہلی وقف بورڈ کے علاوہ حضرت مولانا ارشد میاں نے بھی رانچی کے وکیلوں سے رابطہ قائم کیا ہے امانت اللہ خاں صاحب بھی ضرورت پڑی تو وکیلوں کی مدد لیں گے۔ ہمیں اس کا خیال کرنا چاہئے کہ اپنے ہمدردوں کی تعداد بڑھائیں دشمنوں کی نہیں۔ جھارکھنڈ کی پوری پولیس کے بجائے صرف ان پولیس والوں کی تنقید کریں جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے زخمی تبریز کو اسپتال بھیجنے کے بجائے حوالات میں لاکر ڈال دیا۔ اور ایس پی صاحب کی تعریف کریں کہ انہوں نے پولیس افسروں کو معطل کردیا۔ اگر ہم نے ہمدردوں کی فوج کھڑی کردی تو دشمنوں کی بھی فوج کھڑی ہوجائیں گی جس سے ہمیں نقصان ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔