انسان اور زمین کی حکومت (قسط 55)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت ہارون نے قوم کو بہتیرا سمجھایا اور سامری کے شر سے دور رہنے کو کہا۔ اور حضرت موسی اور قوم کے لوگوں کی واپسی کا انتظار کرنے کے لیے کہا۔ تب سامری نے کہا وہ تمام لوگ جو طور پر گئے سب مر گئے ہیں اور اگر تم صداقت چاہتے ہو تو میں اس کے خدا کو تمہیں دکھاوں اس سے حال معلوم کر لینا۔ تب قوم کے لوگوں نے بھی کہا کہ سامری کی آزمائش کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ پس اگر وہ جھوٹا ہوا تو ہرگز خدا نہ دکھا سکے گا۔

تب سامری نے مٹی سے ایک قالب بنایا مثل گائے کے بچھڑے کے اور خوب آگ جلائی اس کے گرد تاکہ وہ تپ کر پک جائے۔ پھر قوم کے لوگوں سے کہا تمہارے پاس جس قدر سونا چاندی تانبا روپا وغیرہ موجود ہے میرے پاس لا رکھو۔ چنانچہ سب نے تمام زیورات اس کے حوالے کر دئیے۔ تب اس نے ان تمام زیورات کو آگ میں پتلے کے قالب پر پھینکا۔ وہ پگھل کر پانی کی صورت ہو کر اس بچھڑے کے قالب میں بیٹھ گئے۔ سامری نے اس قالب کو آگ میں سے نکال کر ایک بچھڑا سونے کا خوبصورت اس کے اندر سے نکال کر پاک صاف کر کے رکھ دیا۔ اسی کا نام گئوسالہ سامری ہے اور اسی کو سامری کی قوم پوجتی تھی۔

جب گئوسالہ بن گیا تو اس نے قوم سے کہا آو اور اس کو سجدہ کرو یہی ہے تمہارا رب۔ اور جو گھاس اور مٹی اس نے حضرت جبرائیل کی گھوڑی کے سموں کے نیچے سے مشت بھر اٹھائی تھی وہی مٹھی بھر گھاس اور مٹی اس نے اس گئوسالہ کے منہ میں ڈالی۔ خدا کی قدرت سے اس مٹی اور گھاس کو اس کے منہ میں ڈالتے ہی اس کے منہ سے بےدھڑک گائے کی آواز نکلی۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛ پس بنا لیا نکالا ان کے واسطے ایک دھڑ جس میں چلانا تھا گائے کا۔ پس کہا انہوں نے ان سے یہ خدا ہے تمہارا اور خدا موسی کا سو وہ بھول گئے اور جگہ میں گئے۔

یعنی سامری نے گئوسالہ بنا کر نکالا پھر جب گھاس کھلائی تو اس میں اللہ نے جان ڈال دی پھر اس کے دھڑ سے گائے کی آواز نکلی تو قوم والوں سے کہنے لگا یہ ہے تمہارا رب اور یہی موسی کا رب ہے لیکن موسی بھول کر کسی اور جگہ یعنی طور پر چلے گئے ہیں جہاں وہ سب مر چکے ہیں۔ پس اب تم سب اسے سجدہ کرو اور یہی اصل رب ہے۔

چنانچہ قوم والوں نے جب بچھڑے کی آواز سنی تب سامری کی باتوں پر یقین لائے اور اسے سچا جانا۔ تب سب سجدے میں گرے اور بچھڑے کو پوجنے لگے۔ تب چند لوگ قوم کے بارہ قبیلوں میں سے کہ ایمان ان کے مضبوط تھے۔  انہیں سمجھاتے رہے پر جب قوم کے لوگ نہ مانے اور کفر اور شرک پر اتر آئے تب وہ لوگ ان سے الگ ہوئے اور کوہ قاف پر جا کر ایک مسجد بنا کر رہنے اور اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ معاتج النبوت میں لکھا ہے کہ جب رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تو ایک مقام دیکھا کہ ایک شعلہ نور کا زمین سے عرش تک بلند ہو رہا ہے۔ تب آپ نے حضرت جبرائیل سے اس بارے پوچھا کہ یہ نور کس کا ہے۔ تب حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ قوم بنی اسرائیل جب گئوسالہ پوجتے تھے تو ان میں سے ایک جماعت نکل کر کوہ قاف میں اللہ کی عبادت کر رہی ہے یہ انہیں کا نور ہے۔

القصہ حضرت موسی علیہ السلام جب توریت اور وہ ستر آدمی لیکر طور سے واپس آئے تو دیکھا کہ قوم گئوسالہ بنا کر پوجتی ہے۔ تب حضرت موسی علیہ السلام بہت خفا ہوئے۔ اور کہا یہ کیا برائی اور ظلم شروع کر دیا تم نے میرے بعد اور کیوں اتنی جلدی کی اور انتظار نہ کیا اپنے رب کے حکم کا۔ تب جناب موسی نے تختیاں ڈال دیں اور غصے سے اپنے بھائی حضرت ہارون کے بال پکڑ لئیے اور کھینچنا گھسیٹنا شروع کر دیا۔ تب حضرت ہارون نے روتے ہوئے فریاد کی کہ اے میرے ماں جائے مجھے کیوں مارتا ہے میں بےقصور ہوں اس سب میں کہ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا پر ان لوگوں نے میری بات بلکل نہ مانی اور میں کمزور ناتواں اور اکیلا تھا۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ مجھے میرے سمجھانے سے تنگ آ کر مار ہی ڈالتے۔ اور کہا کہ دشمنوں کو مت ہنسا مجھ پر اور نہ ملا مجھ کو گنہگار لوگوں کے ساتھ۔

ایسا اس لیے کہا کہ حضرت ہارون کو شک ہوا کہ جناب موسی انہیں بھی گئوسالہ پرستی میں قوم کا شریک سمجھ رہے ہیں۔ اور دیکھنے والے آپ دونوں کو لڑتا دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ اس لیے کہا کہ یہ اللہ کے اور ہمارے دشمن ہیں انہیں مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔

چونکہ حضرت موسی اور ہارون دونوں سگے بھائی تھے اس لیے حضرت ہارون نے موسی کو ماں جائے کہا تاکہ رحم کر چھوڑ دیں۔

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کے بال چھوڑے اور کہا کہ گئوسالہ کس نے بنایا ہے۔ حضرت ہارون بولے کہ سامری نے بنایا ہے۔

چنانچہ حضرت ہارون نے قوم کو بہتیرا سمجھایا اور سامری کے شر سے دور رہنے کو کہا۔ اور حضرت موسی اور قوم کے لوگوں کی واپسی کا انتظار کرنے کے لیے کہا۔ تب سامری نے کہا وہ تمام لوگ جو طور پر گئے سب مر گئے ہیں اور اگر تم صداقت چاہتے ہو تو میں اس کے خدا کو تمہیں دکھاوں اس سے حال معلوم کر لینا۔ تب قوم کے لوگوں نے بھی کہا کہ سامری کی آزمائش کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ پس اگر وہ جھوٹا ہوا تو ہرگز خدا نہ دکھا سکے گا۔

تب سامری نے مٹی سے ایک قالب بنایا مثل گائے کے بچھڑے کے اور خوب آگ جلائی اس کے گرد تاکہ وہ تپ کر پک جائے۔ پھر قوم کے لوگوں سے کہا تمہارے پاس جس قدر سونا چاندی تانبا روپا وغیرہ موجود ہے میرے پاس لا رکھو۔ چنانچہ سب نے تمام زیورات اس کے حوالے کر دئیے۔ تب اس نے ان تمام زیورات کو آگ میں پتلے کے قالب پر پھینکا۔ وہ پگھل کر پانی کی صورت ہو کر اس بچھڑے کے قالب میں بیٹھ گئے۔ سامری نے اس قالب کو آگ میں سے نکال کر ایک بچھڑا سونے کا خوبصورت اس کے اندر سے نکال کر پاک صاف کر کے رکھ دیا۔ اسی کا نام گئوسالہ سامری ہے اور اسی کو سامری کی قوم پوجتی تھی۔

جب گئوسالہ بن گیا تو اس نے قوم سے کہا آو اور اس کو سجدہ کرو یہی ہے تمہارا رب۔ اور جو گھاس اور مٹی اس نے حضرت جبرائیل کی گھوڑی کے سموں کے نیچے سے مشت بھر اٹھائی تھی وہی مٹھی بھر گھاس اور مٹی اس نے اس گئوسالہ کے منہ میں ڈالی۔ خدا کی قدرت سے اس مٹی اور گھاس کو اس کے منہ میں ڈالتے ہی اس کے منہ سے بےدھڑک گائے کی آواز نکلی۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛ پس بنا لیا نکالا ان کے واسطے ایک دھڑ جس میں چلانا تھا گائے کا۔ پس کہا انہوں نے ان سے یہ خدا ہے تمہارا اور خدا موسی کا سو وہ بھول گئے اور جگہ میں گئے۔

یعنی سامری نے گئوسالہ بنا کر نکالا پھر جب گھاس کھلائی تو اس میں اللہ نے جان ڈال دی پھر اس کے دھڑ سے گائے کی آواز نکلی تو قوم والوں سے کہنے لگا یہ ہے تمہارا رب اور یہی موسی کا رب ہے لیکن موسی بھول کر کسی اور جگہ یعنی طور پر چلے گئے ہیں جہاں وہ سب مر چکے ہیں۔ پس اب تم سب اسے سجدہ کرو اور یہی اصل رب ہے۔

چنانچہ قوم والوں نے جب بچھڑے کی آواز سنی تب سامری کی باتوں پر یقین لائے اور اسے سچا جانا۔ تب سب سجدے میں گرے اور بچھڑے کو پوجنے لگے۔ تب چند لوگ قوم کے بارہ قبیلوں میں سے کہ ایمان ان کے مضبوط تھے۔  انہیں سمجھاتے رہے پر جب قوم کے لوگ نہ مانے اور کفر اور شرک پر اتر آئے تب وہ لوگ ان سے الگ ہوئے اور کوہ قاف پر جا کر ایک مسجد بنا کر رہنے اور اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ معاتج النبوت میں لکھا ہے کہ جب رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تو ایک مقام دیکھا کہ ایک شعلہ نور کا زمین سے عرش تک بلند ہو رہا ہے۔ تب آپ نے حضرت جبرائیل سے اس بارے پوچھا کہ یہ نور کس کا ہے۔ تب حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ قوم بنی اسرائیل جب گئوسالہ پوجتے تھے تو ان میں سے ایک جماعت نکل کر کوہ قاف میں اللہ کی عبادت کر رہی ہے یہ انہیں کا نور ہے۔

القصہ حضرت موسی علیہ السلام جب توریت اور وہ ستر آدمی لیکر طور سے واپس آئے تو دیکھا کہ قوم گئوسالہ بنا کر پوجتی ہے۔ تب حضرت موسی علیہ السلام بہت خفا ہوئے۔ اور کہا یہ کیا برائی اور ظلم شروع کر دیا تم نے میرے بعد اور کیوں اتنی جلدی کی اور انتظار نہ کیا اپنے رب کے حکم کا۔ تب جناب موسی نے تختیاں ڈال دیں اور غصے سے اپنے بھائی حضرت ہارون کے بال پکڑ لئیے اور کھینچنا گھسیٹنا شروع کر دیا۔ تب حضرت ہارون نے روتے ہوئے فریاد کی کہ اے میرے ماں جائے مجھے کیوں مارتا ہے میں بےقصور ہوں اس سب میں کہ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا پر ان لوگوں نے میری بات بلکل نہ مانی اور میں کمزور ناتواں اور اکیلا تھا۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ مجھے میرے سمجھانے سے تنگ آ کر مار ہی ڈالتے۔ اور کہا کہ دشمنوں کو مت ہنسا مجھ پر اور نہ ملا مجھ کو گنہگار لوگوں کے ساتھ۔

ایسا اس لیے کہا کہ حضرت ہارون کو شک ہوا کہ جناب موسی انہیں بھی گئوسالہ پرستی میں قوم کا شریک سمجھ رہے ہیں۔ اور دیکھنے والے آپ دونوں کو لڑتا دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ اس لیے کہا کہ یہ اللہ کے اور ہمارے دشمن ہیں انہیں مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔

چونکہ حضرت موسی اور ہارون دونوں سگے بھائی تھے اس لیے حضرت ہارون نے موسی کو ماں جائے کہا تاکہ رحم کر چھوڑ دیں۔

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کے بال چھوڑے اور کہا کہ گئوسالہ کس نے بنایا ہے۔ حضرت ہارون بولے کہ سامری نے بنایا ہے۔

چنانچہ حضرت موسی نے پوچھا یہ گئوسالہ کس نے بنایا ہے۔ جواب ملا کہ یہ سب کارستانی سامری جادوگر کی ہے۔ اور اسی نے یہ گئوسالہ بنایا اور لوگوں کو اس کی پرستش پر لگا کر راہ حق سے بھٹکایا اور بہکایا ہے۔

پس حضرت موسی نے سامری بلایا اور اسے سرزنش کرتے ہوئے پوچھا کہ تم نے یہ کیا ظلم کیا کیوں خدا کو بھول گیا اور فتنہ ڈالا قوم میں اور گمراہ کیا انہیں یہ گئوسالہ بنا کر۔ اور یہ گئوسالہ تو نے کیسے اور کیوں بنایا۔ تب سامری نے کہا کہ ایسا کہا مجھے میرے جی نے اور میں نے پایا ایک نیک روح کو کہ نہ پایا اسے لوگوں نے۔ پس بھر لی ایک مٹھی خاک کی اس بھیجے ہوئے کہ گھوڑے کے سم کے نیچے سے اور جہاں سم رکھتا وہاں ہریالی اگتی۔ پس پایا راز اس سے زندگی کا اور پھر بنایا ایک قالب مٹی سے اور سونا چاندی وغیرہ چڑھایا اس پر اور پھر وہی مٹھی خاک کی ڈال دی اس کے منہ میں اور پھر چلایا زندہ ہو کر اور تب یہ بات نکلی اور یہی مصلحت دی مجھ کو میرے جی نے۔ یعنی سامری نے سب بیان کیا کہ کیسے بنایا اور بنانے کی توجیہہ یہ بیان کی کہ ایسا کرنے کو اس کے دل نے کہا اس کے دل میں یہ خیال آیا سو اس نے بنا دیا۔

تب حضرت موسی علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ کر کے کہ کہا، الہی! اگرچہ سامری نے گئوسالہ بنایا لیکن اس کو زبان کس نے دی۔ ارشاد ہوا اے موسی بیشک اس کو گویائی ہمیں نے عطا کی۔ تب فرمایا بیشک سب آزمانا تیری ہی طرف سے ہے۔ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جس کو تو چاہتا ہے۔ تو ہے ہمارا دوست پس بخش ہم کو اور رحم کر ہم پر بیشک تو ہے سب سے بہتر بخشنے والا۔

تب وحی ہوئی اے موسی تم نے اپنی قوم ھارون کو سونپی تھی اور اسے نگہبان مقرر کیا تھا۔ اور ہمیں کیوں نہ سونپی اور ہم بہتر نگہبانی کرنے والے ہیں۔ سرور کائنات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت سونپی گئی تو آپ نے اپنی امت اللہ کو سونپی کہ تو ہی ان کا نگہبان ہے۔ قیامت کے دن تمام نسل آدم کی ایک سو بیس صفیں مشرق سے مغرب تک ہوں گی جن میں اسی صفیں امت محمدیہ کی ہوں گی۔ تب اللہ تعالی ارشاد فرمائیں گے اے محبوب دیکھ لو اپنی امت کو کہ تمام مرد عورت چھوٹے بڑے پورے ہیں سو اس وقت مجھ سے جو مانگو گے سو پاو گے۔ تب نبی کریم بارگاہ ربوی میں التجا کریں گے الہی! میں اس میدان میں انہیں کہا لے جاوں۔ تو ہی ان پر رحم کر اور انہیں بخش دے اور جنت میں داخل کر اور اپنے دیدار سے سیر فرما۔ صلی اللہ علیہ وسلم

القصہ حضرت موسی نے دعا کی الہی میں نے توبہ کی تو قبول کر۔ اور معاف فرما مجھ کو اور میرے بھائی کو اور داخل کر ہم کو اپنی رحمت میں اور تو ہے سب سے زیادہ رحم کرنے والا۔ ندا آئی اے موسی دعا اور توبہ تمہاری قبول ہوئی اور ان لوگوں کی جنہوں نے تمہارے ساتھ توبہ کی ان کی توبہ بھی قبول ہوئی۔

پس جب غصہ دور ہوا حضرت موسی علیہ السلام کا تب دوبارہ اٹھائیں تختیاں تورات کی ہاتھ میں لیکر بنی اسرائیل کی قوم سے کہا اے لوگو! تمہارے واسطے میں نے کتاب توریت لا دی کہ احکام الہی اپنے گھروں میں لکھو پڑھو خدا کا حکم بجا لاو۔ وہ کہنے لگے اے موسی، اگر پڑھیں گے تو عمل نہیں کریں گے اور اگر عمل کریں گے تو پڑھیں گے نہیں اس میں ایک عمل اختیار کریں گے دونوں نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔