انسان اور زمین کی حکومت (قسط 73)
رستم علی خان
چنانچہ طالوت نے سپاہی بھیجے کہ شبخون مار کر داود اور اس کے ساتھی عابدوں کو مار آو- اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت داود علیہ السلام اس شب عبادت گاہ سے باہر نکلے ہوئے تھے- تب سپاہیوں نے عبادت گاہ کے اندر جا کر تمام عابدوں کو قتل کر دیا- اور حضرت داود زندہ بچ گئے اور مطلب اس کا داود کو مارنے سے تھا- جب طالوت کو اس بات کی خبر ہوئی کہ عابد تمام مارے گئے ہیں تو اس کو پشیمانی اور ندامت نے آن گھیرا کہ اس نے ظلم کیا اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کا قتل ناحق کروایا-
چنانچہ تب مارے ندامت کے چاہا کہ حضرت داود کو بلوا کر ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے اور عذر خواہی اپنی تقصیر کی کرے اور معافی طلب کرے- تب قاصدوں نے حضرت داود علیہ السلام سے جا کر کہا کہ آپ کو طالوت بادشاہ بلاتا ہے آپ ہمارے ساتھ چلئیے- وہ آپ سے اپنی تقصیر کی معافی چاہتا ہے- اور اپنا عہد جو اس نے میدان جنگ میں کیا تھا اسے پورا کرنا چاہتا ہے- حضرت داود علیہ السلام نے اس بات کو سن کر قاصدوں سے کہا کہ طالوت نے گناہ کبیرہ کیا ہے کہ بےگناہ مسلمان عابدوں کو مار ڈالا ہے- اور میرے بھی مار ڈالنے کا قصد کیا تھا- پس اب جب تک بعوض خون ہر ایک عابد کے جب تک ایک کافر کو اور بعض نے کہا کہ بعوض خون ایک عابد کے ستر کافروں کو نہ مارے گا تب تک میں وہاں نہ جاوں گا اور نہ اس کی تقصیر معاف کروں گا-
چنانچہ قاصدوں نے یہ باتیں جا کر طالوت بادشاہ سے بیان کیں- طالوت یہ باتیں سن کر اپنی غلطی اور کردار زشت سے اور بھی پشیمان ہوا- اور حضرت داود کا فرمان بجا لایا- لڑائی میں جب معرکے میں جا کر کھڑا ہوا تو اچانک کافروں کیطرف سے ایک تیر آیا جو اس کے سینے میں لگا اور پشت کیطرف سے نکل گیا- وہیں جان اس کی نکل گئی اور لشکر تمام اس کا ہزیمت اٹھا کر واپس لوٹا- جب حضرت داود کو طالوت کی موت کی خبر پنہچی تو آپ اس کے گھر آئے اور اس کی بیٹی سے شادی کر کے تمام سلطنت کے مالک ہوئے- اور بہ سبب ان کے صبر کے بادشاہی اور پیغمبری ان کو ملی- چنانچہ حق تعالی فرماتا ہے؛ "اور دی اللہ تعالی نے داود کو سلطنت اور حکمت یعنی پیغمبری-"
خبر ہے کہ حضرت داود علیہ السلام یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے- جب تحت سلطنت پر بیٹھے اس کے چالیس برس بعد پیغمبری ملی- اور قوت ان کو اللہ نے اس قدر عطا کی تھی کہ کوئی بادشاہ ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتا تھا- چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا؛ "اور یاد کرو ہمارے بندے داود صاحب قوت کو تحقیق وہ رجوع کرنے والا تھا بخدا یعنی زکر کرنے والا تھا-” اور دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛ "اور زور دیا ہم نے اس کی سلطنت کو اور دی ہم نے اس کو حکمت اور فیصلہ کرنے والی بات اور اللہ نے اس کو خلیفہ بنایا-” اور ایک جگہ فرمایا؛ "اے داود تحقیق ہم نے کیا ہے تجھ کو خلیفہ زمین میں پس حکم کرو درمیان لوگوں کے ساتھ حق کے- اور مت پیروی کر خواہش نفس کی پس گمراہ کر دیوے گی تجھ کو خدا کی راہ سے-
اور اللہ تعالی نے حضرت داود کو ایسا خوش آواز کیا تھا- جب آپ زبور پڑھتے تو آپ کی خوش الحانی سے بہتا پانی تھم جاتا تھا- مروی ہے کہ بہتر طرح کے الحان سے پڑھتے تھے- حوش و طیور، چرند و پرند، جمیع جانور ہوا پر پانی پر اور زمین پر کھڑے ہو کر سنتے- اور بیہوش ہو جاتے- اور پتیاں درختوں کی زرد ہو جاتیں- اور پتھر موم ہو جاتے اور پہاڑ لرزش میں آجاتے- اور ہر چیز ان کیساتھ خالق ارض و سما کی تسبیح پڑھا کرتی- چنانچہ حق تعالی فرماتا ہے؛ "اے پہاڑو اے جانورو رجوع سے پڑھو اور تسبیح کرو اس کے ساتھ-
کتاب زبور کو اللہ تعالی نے ان پر الہام سے نازل فرمایا تھا- اور ویسا الہام نہ جبرائیل پر تھا اور نہ میکائیل و اسرافیل پر تھا۔
چنانچہ اللہ تعالی نے زبور کو حضرت داود علیہ السلام پر بذریعہ الہام نازل فرمایا- پس جب آپ زبور کی تلاوت کرتے تو خوش الحانی سے پرندے پرواز چھوڑ دیتے اور پانی تھم جاتا جانور پرند چرند آپ کی آواز سن کر نزدیک آ جاتے- اور زبور کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت داود کی آواز چالیس فرسنگ تک جا پنہچتی- اور اس آواز کو سن کر کافر لوگوں کے دلوں پر خوف اور ہیبت طاری ہو جاتی جس سے وہ بیہوش ہو جاتے اور بعض مر جاتے- اور یہ حضرت داود کا ایک معجزہ تھا- اور دوسرا معجزہ اللہ نے آپ کو یہ عطا کیا تھا کہ آپ کی انگلیوں میں ایسی گرمی اور تاب اللہ نے رکھی تھی کہ لوہا آپ کے ہاتھوں میں پگھل کر اس قدر نرم ہو جاتا کہ جس شکل میں موڑتے مڑ جاتا- چنانچہ ارشاد ہوا؛ "اور نرم کیا ہم نے داود کے واسطے لوہا یعنی ان کے ہاتھ میں آتے ہی مثل موم کے نرم ہو جاتا اور بے آلہ و بے آتش کے ہاتھ سے موڑ کر زنجیریں اور زرہ بناتے اور لوگ بناتے ہیں آگ سے-
مروی ہے کہ سب سے پہلے لوہے کی زرہ حضرت داود نے بنائی اس سے پہلے چمڑے وغیرہ سے بنائی جاتی تھی- جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے؛ "اور سکھائی ہم نے کاریگری بنانا ایک پہناو تمہارا تاکہ بچاوے تم کو لڑائی سے-
چنانچہ حضرت داود علیہ السلام کو اللہ نے یہ حاصیت عطا فرمائی کہ لوہا آپ کے ہاتھوں میں نرم ہو جاتا اور اسے کسی بھی شکل میں موڑ لیتے بنا کسی آلہ یا آگ کے اور اس سے مختلف ساز و سامان جنگ وغیرہ کا تلواریں تیر چوب اور زرہ بناتے اور کھیتی باڑی کا سامان وغیرہ بنا کر بیچتے اور جو رقم حاصل ہوتی اس کے تین حصے کرتے- ایک حصہ غریب فقرا، درویشوں اور محتاجوں وغیرہ پر صرف کرتے- ایک حصہ عزیز و اقارب رشتہ داروں پر خرچتے- اور ایک حصہ اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے- اور اسی طرح اپنے اوقات کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا- ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے- ایک حصہ لوگوں کے لیے تھا کہ ان کے مسلے وغیرہ سنتے اور انصاف کیساتھ ان کے فیصلے کرتے- اور ایک حصہ اپنے کام میں مصروف رہتے جس میں لوہے کا سامان بنا کر بیچتے-
مروی ہے کہ ایک دن حضرت داود علیہ السلام کتاب صحیفہ پیشین پڑھتے تھے کہ اس میں حضرت ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب و ایوب علیہم السلام وغیرہ کی بزرگی اور شان و مرتبے کا بیان لکھا پایا- تب دل میں خیال کیا کہ انہوں نے خدا کے لیے کیا کام کیے تھے کہ جو یہ مقام اور بزرگیاں پائیں- اسی وقت درگاہ باری سے حضرت داود کو مخاطب فرمایا گیا کہ اے داود ان پر ہم نے بلا اور آزمائشیں نازل کیں تھیں پس انہوں نے صبر کیا اور آزمائشوں میں پورے اترے پس اسی صبر کے سبب ان کو یہ بزرگیاں اور مرتبے عطا کیے گئے تھے-
چنانچہ حضرت داود علیہ السلام نے عرض کی الہی تو مجھ کو بھی بلا میں مبتلا کر میں بھی صبر کروں گا تاکہ مجھ کو بھی بزرگی ملے- اور بعضے کہتے ہیں طالوت کی سلطنت جب ان کو ملی اور بنی اسرائیل پر بادشاہ ہوئے تو مارے خوشی کے کہا کہ اللہ کی قسم میں اچھی طرح ان کا انصاف کروں گا اور لفظ "ان شآء اللہ” نہ کہا اس سبب سے آزمائش میں مبتلا ہوئے- اور بعضے کہتے ہیں کہ طالوت کی تقصیر پر دعا فرمائی کہ الہی تو گنہگاروں پر رحم کر اور اپنے کو گناہ سے پاک جانا اس واسطے ان پر مصیبت نازل ہوئی اور اس میں اختلاف بہت ہے-
الغرض حضرت جبرائیل امین اللہ کے حکم سے ایک دن حضرت داود کے پاس آئے اور کہا کہ اے داود اللہ تعالی نے تم کو صحت اور عافیت سے رکھا ہے اور سلطنت عطا فرمائی ہے اور تم اپنی خواہش سے دکھ اور آزمائش مانگتے ہو- خیر فلانے روز فلانے وقت پر تم پر بلا اور آزمائش اللہ کی طرف سے نازل ہو گی- اور اللہ کی آزمائش بڑی سخت ہوتی ہے پس رہنا صبر کرنے والوں میں سے بیشک اللہ صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے-
منقول ہے کہ جب وعدے کا دن آ پنہچا کہ جس دن آزمائش اترنا تھی- حضرت داود اپنے کام میں مصروف تھے اور لوہے کو موڑ کر ہاتھ سے زرہ اور دوسرا سامان وغیرہ بنا رہے کہ اچانک ایک پرند خوبصورت کبوتر کی مانند بدن اس کا، سونے کا رنگ، اور ہر ایک پر اس کا الگ الگ رنگوں کا رنگ برنگا مثل جواہر کے تھا، اور چونچ اور ناخن اس کے مانند یاقوت کے سرخ آتشیں، اور آنکھیں زمرد کی اور پاوں مثل فیروزے کے تھے- حضرت کی عبادت گاہ کے سامنے گھر کے ایک طاق پر آ بیٹھا- حضرت داود نے اس کا حسن لطافت دیکھ کر بخواہش اپنے لڑکوں کے چاہا کہ اسے پکڑ لیں- پس وہ پرندہ وہاں سے اڑا اور ایک بالا خانے پر جا بیٹھا- حضرت نے اس کا تعاقب کیا- چنانچہ وہ پرند وہاں سے اڑا اور ایک باغ میں جا بیٹھا- حضرت داود اس کے پیچھے وہاں گئے اور لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ باغ کس کا ہے- وہ بولے یہ باغ بطشا نامی ایک عورت کا ہے۔
پس لوگوں نے بتایا کہ یہ باغ بطشا نامی ایک عورت ہے- تب حضرت داود علیہ السلام نے بالا خانے پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھا کہ شائد کوئی انسان یا وہ پرند ہی نظر آ جائے- تب بطشا بھی اسی باغ میں موجود ایک حوض میں برہنہ ہو کر نہاتی تھی حضرت کی نظر اس پر جا پڑی- کہتے ہیں کہ داود نے اسے دیکھ کر خواہش وصل کی کی- واللہ اعلم الصواب- تب بطشا کی نظر بھی حضرت پر پڑی تو آپ کی آنکھوں میں شوق دیکھ کر اپنے بالوں سے بدن اپنا تمام ڈھانپ لیا- اور اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہوئی-
تب حضرت داود بالا خانے سے اتر کر باغ کیطرف آئے اور پوچھا کہ یہ پرند حسین کس کا ہے- جواب ملا کہ بطشا کا ہے- تب پوچھا کہ اس کا شوہر موجود ہے کیا- بولے چند روز ہوئے اوریا نام کے ایک شخص سے نکاح ہوا ہے جو اس سے محبت بہت کرتا ہے- یہ سن کر حضرت داود نے اوریا کو بلوایا اور بہت محبت سے پیش آئے اور تعریف اس کی جوانمردی اور ہمت کی بہت کی اور اسے کہا کہ تم جہاد میں جاو- اور بہت مال و دولت اس کو دیکر خوش کیا اور لڑائی کی طرف بھیجا جہاں کہ جائے دشوار تھی اور جو وہاں جاتا واپس نہیں آتا تھا-
پس اوریا نے وہاں جا کر اپنی ہمت اور جوانمردی دکھائی اور خوب لڑائی کی اور فتح حاصل کی- پھر وہاں سے اسے اگلے مقام پر کہ نام اس کا ناطہ تھا بھیج دیا- وہاں بھی خوب لڑائی کی اور جام شہادت نوش فرمایا- اور پیچھے اس کے لشکر نے بسبب اس کی ہمت کے اس علاقہ کو بھی فتح کیا اور بہت سا مال غنیمت لا کر حضرت داود کے سامنے حاضر کیا- اور اوریا کی شہادت کی خبر دی-
چنانچہ اوریا کی شہادت کی خبر سنکر حضرت نے ایک برس تک اس کی تعزیت کی- بعد اس کے بطشا بی بی کو اپنے نکاح میں لائے- اور اس سے پہلے حضرت داود کی نناوے بیویاں تھیں اور بطشا سے نکاح کے بعد سو بیویاں پوری ہوئیں- اور مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بطشا کے بطن سے پیدا ہوئے-
اور ایک دوسری روایت کیمطابق جو قصص النبیاء میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت داود کے وقت میں ایک شخص کہ نام اس کا اوریا تھا- ایک عورت سے اس کے نکاح کا پیغام تھا- قریب تھا کہ اس کا نکاح ہو جاوے کہ عورت کے وارثوں کو اوریا سے کچھ خلش ہوئی- اس واسطے اس عورت کو اس کے نکاح میں نہ دیا- اور حضرت داود نے جب اس عورت کو دیکھا تو محبت اس کی پیدا ہوئی اور نکاح کا پیغام بھیجا جو قبول کر لیا گیا اور حضرت کا اس سے نکاح ہوا- اس سے پہلے حضرت کی نناوے بیبیاں تھیں اور اس عورت سے نکاح کے بعد سو ہوئیں- اور بعد اس کے جب داود کو اوریا کے متلعق معلوم ہوا تو اپنی تقصیر کے عوض خوب مال و دولت اس کو دیا اور جہاد پر بھیجا جہاں وہ شہید ہوا-
اگرچہ اس میں کچھ خلاف شرع اس وقت نہ ہوا ازروئے توریت اور زبور کے لیکن اتنا بھی پیغمبروں کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی شبہ کرے ان پر کہ عمل ان کا درست نہیں- چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت داود کی جانچ کے لیے دو فرشتوں کو بھیجا جو اپنی دنبی کا مسلئہ لیکر حاضر ہوئے-
مروی ہے کہ ایک دن حضرت داود علیہ السلام اپنے عبادت خانے میں بیٹھے مناجات کر رہے تھے کہ اچانک دو اجنبی آدمی عبادت خانے کی دیوار توڑ کر حاضر ہوئے- حضرت داود علیہ السلام انہیں دیکھ کر گھبرائے- تب انہوں نے کہا مت ڈر ہم تجھ سے فیصلہ کروانے آئے ہیں- چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے؛ "کیا خبر ہے تجھ کو دعوی والوں کی جب پنہچے دیوار توڑ کر آئے عبادت خانے میں، جب داخل ہو گئے داود کے پاس تو وہ گھبرایا، ان سے وہ بولے مت گھبرا ہم دو جھگڑنے والے ہیں زیادتی کی ہے ایک نے دوسرے پر سو فیصلہ کر دے ہم میں انصاف کا اور دور نہ ڈال بات کو اور بتا دے ہم کو سیدھی راہ”–
تبصرے بند ہیں۔