پروفیسر مختار شمیم: ایک ہمہ جہت شخصیت

ڈاکٹر محمد نوشا دعالم

پروفیسر مختار شمیم کا نام مدھیہ پردیش اور ہندوستان ہی کے نہیں بلکہ برصغیر کے ان ادیبوں میں شمارہوتاہے، جن کی تحریریں اہل ادب کو متاثر کرتی رہی ہیں، انھوں نے تقریباََ ہر صنف سخن پر کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ وہ بحیثیت شاعر، محقق، نقاد اور افسانہ نگار اردوکے ادبی دنیامیں مشہورومعروف ہیں۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں حمیدیہ کالج بھوپال میں آگے کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، جہاں ان کی ملاقات اردو نامور اساتذہ پروفیسرگیان چندجین، ڈاکٹر ابومحمد سحر، ڈاکٹر حامد رضوی، پروفیسر آفاق احمد خاں اور ڈاکٹر عزیز انصاری وغیرہ سے ہوئی۔ ان اساتذہ کی سرپرستی میں شمیم صاحب کی ذہنی تربیت ترقی کرتی رہی، اور کچھ ہی عرصے میں وہ بحیثیت شاعر اور افسانہ نگار پہچانے جانے لگے۔

ڈاکٹر ابومحمد سحر صاحب کی نگرانی میں شمیم صاحب نے دوتحقیقی مقالے لکھے۔ ۱۹۶۹ء میں ’’ریاست ٹونک اوراردوشاعری‘‘کے عنوان سے انھوں نے اپنا پہلامقالہ لکھا، جو ۱۹۷۷ء میں کتابی شکل میں منظرعام پر آئی۔ جبکہ دوسرا مقالہ’’ظہیر دہلوی:حیات اور فن‘‘کو  انھوں نے پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا۔ جو بعدمیں کتابی شکل میں شائع ہوکرسامنے آئی۔ اس کتاب کو کئی انعامات سے بھی نوازاگیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایک قلمی رسالہ ’’راہی‘‘کے نام سے خالد محمود اور محی الدین راہی کے اشتراک سے نکالا۔

مختار شمیم نے کم وبیش اردوادب کے ہر صنف میں کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’نامۂ گل، دریچۂ گل، حرف حرف آئینہ‘‘کے علاوہ ایک مجموعہ دیو ناگری میں ’’جہاں برسات ہوتی ہے‘‘شامل ہے۔ یہ مجموعے ایک حساس اور باشعور شاعر کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بقول اختر سعید خاں :

’’آپ کی تخلیقات اکثراخبارات ورسائل میں پڑھنے کے لیے مل جاتے ہیں۔ آج ہر طرح کے شعر کہے جارہے ہیں۔ میں ’نئے اسالیب‘اور انداز بیان‘ کا قائل ہی نہیں مداح بھی ہوں، لیکن یہ ضروور چاہتاہوں کہ شعردل کی راہوں سے گذرکر اداہو اور ہمیں اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ منہ دیکھنے کی بات نہیں ہے۔ بہت دنوں سے آپ کی غزل محض ذہن کی کارفرمائی نہیں ہے۔ دل کی دردمندانہ لہروں سے زندگی کی کیفیات کااظہار ہے۔ اکثر آپ کے اشعار میرے دل کو چھو لیتے ہیں اور میں چپکے سے آپ کودعادیتاہوں۔ ‘‘

مختار شمیم کی غزلیں اور نظمیں اکثر رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ’’دریچۂ گل‘‘ان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کاایک شعری مجموعہ ’’نامہ گل‘‘کے نام سے ۱۹۷۲ء میں شائع ہوچکاتھا۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ساتھ روانی اور پُرکشش بھی ہے۔

مختار شمیم کی شاعری میں ایک سچے شاعر کی بے قرار روح کومحسوس کیاجاسکتاہے۔ ان کے اندر جو تڑپ اور بے چینی پائی جاتی ہے، وہ اشعار میں ڈھل کر تخلیقی روپ اختیار کرلیتی ہیں۔ بقول عنوان چشتی:

’’مختار شمیم کی شاعری پر حسی فضاچھائی ہوئی ہے، اور ہر صفحہ پر ایک بے قرار روح سے ملاقات ہوتی ہے۔ ‘‘

مختار شمیم کی شاعری کا آخری مجموعہ’’ہجر کی صبح، ہجرکی شام‘‘۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی۔ اس مجموعے کو چار حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ پہلاحصہ انھوں نے’’یہ تو واقعہ بھی عجیب ہوا‘‘کے عنوان سے نثرمیں مختصر طور پر اپنی سوانحی حالات کو قلمبند کیاہے۔ اس کے مطالعے سے مختار شمیم کے خاندان، تعلیم وتربیت، پڑھنے لکھنے کاشوق، اساتذہ کرام اور ان کی ملازمت کے بارے میں مختصراََ آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں حمد، مناجات، نعت، منقبت، اور نعتیہ قصیدے وغیرہ کا مطالعہ کیاجاسکتاہے۔ تیسرے حصے میں غزل کے علاوہ انھوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں، جن میں کئی نظمیں اپنے اساتذہ اور دوست احباب وغیرہ کے نام لکھاہیں، ان نظموں کے ذریعے انھوں نے اپنی محبت کااظہارکیاہے۔

مختار شمیم کے ادبی کارناموں میں ان کی شریک حیات کااہم رول رہاہے، انھوں نے ان کی ادبی زندگی کو نکھارنے میں ہرطرح کاتعاون پیش کیا۔ مختار شمیم کی اخچر غزلیں اورنظمیں ان کی اہلیہ کی یاد سے منسوب ہیں، کشور سلطان اگرچہ جسمانی طور پران سے جدا ہیں، لیکن ان کی یاد میں ہرلمحہ ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ جس اندازہ مختار شمیم کاشعری مجموعہ’’ہجر کی صبح، ہجر کی شام‘‘کے آخری حصہ کے مطالعہ سے لگایاجاسکتاہے۔ جو اس مجموعے کاسب سے اہم حصہ ہے، اور کشورسلطان کے نام سے منسوب کیاگیاہے۔ اس میں انھوں نے اپنی محبت کااظہاراور اپنی شریک حیات سے بچھڑنے کا غم کاذکر پُرسوزاندازمیں کیاہے۔ اس حصہ میں شامل نظموں میں ’’تمہیں نے توکہاتھا، حرف سادہ، طلسم آئینہ، کشور کے نام، ہجر، اس کے نام سال رواں کی آخری نظم(خودکلامی) وغیرہ ایسی نظمیں ہیں، جس میں انھوں نے اپنی یاد وں کے ان لمحوں کو سجایاہے، جو انھوں نے کشورسلطان کے ساتھ گزارے تھے۔ ان نظموں کے مطالعے سے شمیم صاحب کی محبت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اشعار دیکھیں  ؎

ہمیں اک راس آیاتھا تمہارامسکرادینا

سواب ہم زندگی کی لو کبھی مدھم نہیں کرتے

ہراک لمحہ سسکتی زندگی ہے

کسی کی یاد ہے اور بے کسی ہے

مختار شمیم کی شاعری کے بارے عزیز اندوری ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’شمیم صاحب نے اپنے شعوری کرب کو ایسے موضوع میں ڈھالناچاہاہے، جس کے نشانات میر تقی میر سے لے کرناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی کی غزلوں میں وحشت خیال کی شکل میں نمایاں ہوتے رہے ہیں۔ شمیم صاحب ان شعرا کی ہی طرح اپنی ذات کے کرب کو سمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘

مختار شمیم کی شاعری میں جو سادگی پائی جاتی ہے، وہی سادگی ان کے اشعار میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی شخصیت اور ان کی شاعری ایک ہی سکے کے دو پہلوہیں، ان سے ملنا اور ان کااشعار پڑھنا تقریباََ یکساہیں۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں  ؎

میراگھر خود میتی تنہائی کاقصہ کہہ گیا

شہرتوں کے خوف سے جب بنددروازہ کھلا

حرف حرف آئینہ لفظ لفظ چہرہ ہے

روبروسخن میرادیکھو میرے جیساہے

میں سوچتا ہوں توسوچتا ہی رہتا ہوں

خیال آتاہے کیاکیاخیال آتاہے

حرف ہے نامعتبر سوچاکیے

سادہ کاغذ دیرتک دیکھاکیے

مختار شمیم نے اپنی ادبی زندگی کاآغاز بحیثیت شاعر اور افسانہ نگار کے کیا۔ بنیادی طورپر وہ ایک شاعر ہیں، لیکن انھوں نے کئی افسانے بھی لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں کامجموعہ’’پس غبار‘‘ہے، جس چھ(۶) کہانیاں شامل ہیں۔ ان کے افسانے جامعیت کے اعتبارسے بھلے ہی کم ہوں، لیکن انھوں نے افسانوی ادب میں اپنی اہمیت تسلیم کرواچکے ہیں۔ ان کاانداز بیان منفرد اور جداہے، وہ قاری کو اپنی گرفت میں لینے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے افسانوں میں کسی قسم کی پیچیدگی یاالجھائو نہیں ملتا، جس کے سبب قاری کوکسی الجھن کا شکار ہوناپڑے۔

مختار شمیم اپنے افسانوں میں اپنے گردوپیش کے سماج کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ خیالی اور طلسماتی دنیا کو پیش کرنے کے بجائے زندگی کے مختلف مراحل کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں سماجی حقیقت نگاری کاواضح رجحان دکھائی دیتاہے۔ انھوں نے غریبی، محبت، بے کسی، بے بسی اور معاشرتی نشیب وفراز وغیرہ کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ زندگی کی تلخ حقیقت کو اپنے افسانوں میں بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کاافسانہ’’کتنی بلندی کتنی پستی‘‘ ایک علامتی افسانہ ہے، جس میں انھوں نے ماضی کے نشیب وفرازکو خوبصورت اندازمیں پیش کیاہے۔ یہ افسانہ واحد متکلم کے صیغے میں لکھاگیاہے۔

انسان اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے ہرطرح کی کوشش کرتاہے، لیکن وہ صرف گول گول دائروں کاچکر لگاتارہتاہے۔ مگر ان دائروں کووہ پار نہیں جاسکتا، جو صدیوں سے اس کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ مختارشمیم کی کہانی’’پہچان‘‘کی بنیاد بھی یہی دائرے ہیں۔ انسان کی زندگی میں تین پڑائو آتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا، یہ پڑائو ہمیں یہ سوچنے پرمجبور کرتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، اور کہاں جاناہے۔ انسان اسی فکرمیں مبتلا رہتاہے، اور اپنی ذات کو تلاش کرتارہتاہے۔ مخمور سعیدی افسانہ ’’کتنی بلندی کتنی پستی‘‘اور ’’پہچان‘‘کے حوالے سے رقمطرازہیں :

’’کتنی بلندی کتنی پستی‘‘اور ’’پہچان‘‘ایسے افسانے ہیں جوجدید اسلوب سے ان کی باخبری کاپتہ دیتے ہیں۔ خصوصاََ’’پہچان‘‘ جو اس بے کراں کائنات میں فرد کی طرف سے کسی گوشۂ اماں کی تلاش اور اس تلاش کے مختلف مراحل کوقاری پر اس طرح منکشف کرتاہے کہ چندلمحوں کوہی سہی خودوہ بھی اپنی شناخت کے سفر پر نکل کھڑا ہوتاہے۔ یہ افسانہ بیانیہ کی حدوں کو پارکرگیاہے، مگر کہانی پن سے دور نہیں ہواہے۔ یہ ایک بڑی خوبی ہے۔ افسانے میں دلچسپی کے عنصر کو ترجیح دینے والے قارئین کے لیے ’’پس غبار‘‘ایک دلکش تحفہ ہے۔ ‘‘

مختار شمیم کے افسانوں کی زبان عام فہم اورسادہ ہوتی ہے، ان کے اسلوب میں سادگی اور فطری پن ہے۔ ان کے اندر ایک اچھے افسانہ نگار کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ ’پس غبار‘‘ کا مقدمہ مشہورومعروف ناقد ومحقق ابراہیم یوسف نے لکھاہے۔ ایک جگہ رقمطرازہیں :

’’مختار شمیم نے اگر کہیں پرانی شراب کو نئے شیشے میں بھراہے تونہ صرف اس کی دلکشی اور خوبصورتی میں اضافہ کیاہے، بلکہ ہمارے جذبات کو اس طرح جھنجھوڑ دیاہے کہ ہم محسوسات کی دنیامیں کھوکر رہ جاتے ہیں۔ ‘‘

مختار شمیم بنیادی طورپر شاعر ہیں، لیکن اردو نثر کے مختلف اصناف میں بھی ان کی دلچسپی رہی ہے۔ بقول مظہرامام:

’’مختار شمیم ہمہ جہت شخصیت ہیں، شاعر تو اچھے ہیں ہی، ان کی تنقیدی خصوصاََ تحقیقی کاوشیں خاصی توجہ کاتقاضہ کرتی ہیں۔ ‘‘

محمد توفیق خان اپنی کتاب ’’مختار شمیم :ایک تاثر‘‘میں لکھتے ہیں :

’’مختار شمیم بنیادی طورپر شاعر ہیں، لیکن وہ ناقد اور محقق کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شعری تخلیقات کم شائع ہوئیں اور تحقیقی اور تنقیدی مضامین کی اشاعت کا سلسلہ برابر جاری رہا، اور تحقیق وتنقید پر مشتمل کتابیں بھی شائع ہوتی رہی۔ ‘‘

مختار شمیم کانام اردوشعروادب میں اہمیت کاحامل ہے، خاص طور سے اردوتحقیق و تنقیدکے میدان میں ان کو ایک الگ اور منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کے تحقیقی وتنققیدی مجامین و ادبی حلقوں میں بہت اہتماام اور غورو کوض کے ساتھ پڑھاجاتارہاہے۔ ان کی پہلی نثری کتاب’’ریاست ٹونک میں اردوشاعری‘‘ ایک تحقیقی کتاب ہے، لیکن ان کی تنقیدی نظریات کی وجہ سے یہ ایک تنقیدی کتاب بھی تسلیم کی جاتی ہے۔

مختار شمیم صاحب کی نثری کتابوں میں ’’ریاست ٹونک میں اردوشاعری، سواد حرف، تناظروتشخص، ظہیردہلوی:حیات وفن‘‘اور’’مدھیہ پردیش میں اردوتحقیق‘‘وغیرہ کو اردوادب میں تحقیق وتنقید کی بہترین کتابیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کی ادبی اہیت وافادیت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتا۔ انھوں نے ظہیردہلوی پر تحقیقی کام کرکے ظہیردہلوی کی شخصیت میں چار چاند لگادیے ہیں۔ اردو ادب میں جب بھی ظہیردہلوی کانام آئے گا شمیم صاحب کا یہ کارنامہ پیش نظر ہوگا۔ پروفیسر گیان چند جین ایک جگہ رقمطرازہیں :

’’تم نے بہت صرفہ کرکے مجھے اپنا بیش بہا مجموعہ’’تناظروتشخص‘‘ بھیجا، اس کے لیے مشکور ہوں۔ تمہارا مقالہ ’’ظہیر دہلوی۔ حیات وفن‘‘ بڑے اچھے موضوع پر بڑ اپختہ کام تھا۔ اس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ تم تو اس موضوع کے ماہر ہو۔ تم نے مدھیہ پردیش کی درسگاہوں میں اردوتحقیقی اور ذکراحتشام میں میرے لیے جو اچھے الفاظ استعمال کیے ہیں، یہ تمہاری سعادت مندی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب تم بہت اچھی اردونثر لکھنے پرقادرہو۔ ‘‘

مختار شمیم نے نثری وشعری، تحقیقی وتنقیدی، افسانوی وغیرافسانوی الغرض ہرطرح کی کتابوں پر مضامین، تبصرے اور دیباچے بھی لکھے ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین کی تحقیقی کتاب ’’خواجہ احمد عباس۔ ایک مطالعہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تنقید میں فکر تو دراصل دروں بینی کی سنت گزار ہے اور تحقیق کی لو جستجو نے پیہم سے عبارت ہے۔ لہذاایک اچھے ناقد اور تحقیق کے لیے یہ اوصاف خصوصی ذہنی تربیت کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ادب کی تہذیب کاتقاضابھی یہی ہے۔ بلاتامل کہاجاسکتاہے کہ ڈاکٹر غلام حسین اس کسوٹی پر کھرے اترے ہیں۔ ‘‘

نورمحمد یاس مدھیہ پردیش کے ایک اہم رباعی گوشاعرکی حیثیت سے مشہورومعروف ہیں۔ منتخب رباعیوں پر پر مشتمل ان کی شاعری کا مجموعہ’’خوشبو کے جزیرے‘‘شائع ہوچکی ہے۔ مختار شمیم ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’بھوپال کے قرطاس پر ایک حرف روشن نورمحمد یاس سے عبارت ہے۔ صبرو قناعت، ریاضت، شفقت، محبت اور رحمت کے خمیر سے یاس کی شخصیت تشکیل ہوئی۔ تخلیقیت اور حسیت ان کے مزاج میں ڈھل کر شعریت کو پروان چڑھایا۔ ‘‘

مختارشمیم اردوادب میں آنے والے نئے رجحانات کا نہ صرف مطالعہ کرتے ہیں، بلکہ اس پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ وہ اردوادب کے میدان انھوں نے کبھی کسی سے سمجھوتا نہیں کیا، بلکہ جو کچھ پڑھا اسے مشاہدہ کے بعد بے خوف لکھ دیا۔ سرونجی کی افسانوی مجموعہ’’ہم رہ گئے اکیلے‘‘ کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’اپنی شاعری کی طرح سیفی سرونجی نے اپنے افسانوں کی اساس ذاتی تجربات و احساسات پر رکھی ہے۔ معمولی سے معمولی واقعات کوبھی انھوں نے اپنا موضوع بنایاہے، لیکن احساس کی شدت اور تجربے نے اس میں تیکھا پن پیداکردیا ہے۔‘‘

’’تناظر وتشخص‘‘مختار شمیم کی تنقیدی شعور کی ایک اہم کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، وہ صرف ادب کے مسائل ہی نہیں بلکہ ان کارشتہ ہماری زندگی سے بہت قریب ہے، ان کی تنقیدی نگاہ بہت گہری ہے۔ وہ ادبی رجحانات صرف مطالعہ ہی نہیں کرتے بلکہ  اس پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون’’ہمارامشترکہ کلچر اور اردوشاعری‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ہم عصر اردو شاعری میں جدید ذہن کے شعرا کے یہاں مشترکہ فرقہ واریت کی دوئی مشکل سے ہی نظرآئے گی۔ مذہبی آنچ بھی کچھ نرم ہوئی ہے، گوکہ فسادات نے اس آنچ کو ہواضرور دی ہے۔ لیکن ہمارے شاعروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے قومی یکجہتی کے جذبہ کو عام کیاہے۔ ملکی تہذیب وثقافت کے رنگوں سے ایک خوبصورت دنیا سجائی ہے۔ ہندوستانی کلچر ان کے یہاں ایک علامت، ایک استعارہ بن کر ابھرا ہے۔ جسے شعروادب کایقیناََ قابل فخر سرمایہ کہاجائے گا۔ ‘‘

مختار شمیم کے تنقیدی مضامین ادب کے معیار پر کھرے اترتے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے بارے میں پروفیسر عتیق اللہ صاحب رقمطرازہیں :

’’اِدھر آپ بہت اچھا لکھ رہے ہیں، مدھیہ پردیش میں نثر کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے، اور جو لووگ لکھ رہے ہیں، ان میں اکثر حجرات زبان کا صحیح درک نہیں رکھتے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اسی طرح علم وادب کے کاموں سے جڑے رہیں۔ ‘‘

مشہورومعروف محقق وناقدسیدہ جعفر ان کے مضامین کے حوالے سے ایک جگہ لکھتی ہیں :

’’نومبر کے کتاب نمامیں آپ کا مضمون شائع ہواہے، حیدرآباد والوں نے آپ کے طرزتحریر اوراسلوب تنقید دونوں کوبہت سراہاہے اور آپ کے بارے میں تفصیلات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘

اردوادب کے مشہورومعروف محقق وناقد کالی داس گپتا مختار شمیم کی تحقیقی وتنقیدی نگارشات کے بارے اپنے خیالات کااظہار کچھ یوں کیاہے:

’’نئی نسل میں تحقیق کارجحان بالکل ختم ہوچکاہے، اکثرتحریریں جھوٹ کاپلندہ ہوتی ہیں۔ ہاں مدھیہ پردیش میں اگر کوئی صحیح تحقیقی مزاج رکھتاہے تو وہ ہیں مختار شمیم صاحب۔ ‘‘

مختار شمیم کے مضامین کامطالعہ کرنے کے بعد یہ احساس ہوتاہے کہ وہ ادبی تخلیق میں مثبت ترجمان کے قائل ہیں۔ ان کے مضامین کو ادبی حلقوں میں پسندکیاجاتارہاہے۔ ان کی ادبی اپمیت کاندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، اور کئی مقالے بھی ان کے اوپر لکھے جاچکے ہیں۔

مختار شمیم ایک اچھے شاعر، افسانہ نگار، نقاداور محقق کے علاوہ ایک اچھے آرٹسٹ بھی ہیں، کئی کتابوں پران کے آرٹ کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کا شمارمدھیہ پردیش کے ان چند اہم شخصیتوں میں ہوتاہے، جن کی نگارشات ادبی دنیا میں اہمیت کے حامل ہیں۔ مختار شمیم ہر اعتبار سے پُروقارشخصیت کے مالک ہیں۔ وہ مدھیہ پردیش کے اعلیٰ دانش گاہوں کے آبروہیں۔ مختار شمیم کی شخصیت ایک ہی سکے کے دو پہلوہیں، ان سے ملنا اور ان کے اشعار کامطالعہ کرنا تقریباَ یکساں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔