بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سوال(1): میں ایک باپردہ خاتون ہوں، شوہر پچھلے تین سالوں سے کفالت نہیں کر رہے نہ میرے والدین ان پہ زور ڈال سکتے اور نہ ہی میرے سسرال والے کوئی نوٹس لیتے ہیں،یہ میرا دوسرا نکاح ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالات سے مجبور ہو کر مجھے جاب کرنی ہے اور اپنےبھائی کا ہاتھ بھی بٹانا ہے جس کے لئے مجھے چہرے کا پردہ نہیں کرنا ہوگا کیونکہ باقی جاب بہت کم معاوضہ والاہے اور اس سے گھر والوں کی میں کفالت نہیں کر پاؤں گی۔ دعا کے ساتھ میری رہنمائی کر دیں۔

جواب: اولا :عورت گھر کی زینت ہے، اپنے بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت اور گھر کی ذمہ داریاں اس کے سرہیں، اس وجہ سے اسلام نے عورت کو معاشی تگ ودو سے نجات دیدی ہے۔  اگر عورت گھر چھوڑ دے اور باہر کی ذمہ داری ادا کرنے لگ جائے تو گھرویران بلکہ بسااوقات برباد ہوجاتاہے مگر جو صورت حالات آپ نے ذکر کی ایسی صورت میں آپ کسی ادارہ یا بااثرلوگوں کے ذریعہ شوہر پر اخراجات کا دباؤ ڈالیں، اگر پھربھی وہ نفقہ برداشت کرنے پر راضی نہ ہو تو طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہیں یا خلع لے سکتی ہیں۔ پھر عدت کے بعد کسی تیسرے صالح مرد سے نکاح کرکے اللہ کے فضل سے اپنی زندگی خوشگوار بناسکتی ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی نوکری کی ضرورت پڑے تو جان لیں اسلام نے عورتوں کو نوکری کرنے سے منع نہیں کیا ہے، ایک عورت شرعی حدود میں رہ کر اس کے لئے جو وظیفہ جائز ہے انجام دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اہل خانہ  کی پرورش کرسکتی ہے  مثلا سلائی، کڑھائی، صفائی، امور خانہ داری، کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں مزدوری وغیر ہ۔  نوکری کے لئے شرعی حدود یعنی حجاب کی پابندی، اختلاط سے اجتناب، عفت وعصمت کی حفاظت، محرم کے ساتھ سفر اور خلوت سے دوری ضروری ہے۔اسلام میں ایسے کسی جاب کی اجازت نہیں ہے جس سے پردہ ہٹانا پڑے، اگر حجاب کے ساتھ تھوڑا ہی معاوضہ ملے وہی اختیار کریں اور صبروقناعت سے زندگی گزاریں ساتھ ہی اللہ سے مزید بہتری اور مال میں برکت کی بکثرت دعا کریں،وہی مشکل دور کرنے والا اور سارے جہان کو پالنے والا ہے۔

سوال(2): سورہ کہف پڑھنے سے سکینت نازل ہوتی ہے اس کا کیا معنی ہے ؟ کیا اس کے پڑھنے سے گھریلو مسائل حل ہوجاتے ہیں یا گھر میں سکون آتاہے ؟

جواب : سکینت کا نزول سورہ کہف کی قرات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ مکمل قرآن کے لئے عام ہے گوکہ پس منظر میں ایک صحابی رسول کا سورہ کہف پڑھنے کا ذکر ہے تاہم فرمان رسول بخاری میں ان الفاط میں ہے:

اقرَأْ فُلانُ، فإنها السكينةُ نزلَتْ للقرآنِ، أو تنزَّلَتْ للقرآنِ(صحيح البخاري:3614)

ترجمہ:قرآن پڑھتا ہی رہ کیونکہ یہ «سكينة» ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی یا (اس کے بجائے راوی نے) «تنزلت للقرآن» کے الفاظ کہے۔

اور صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔

فإنها السكينةُ تنزلت عند القرآنِ . أو تنزلت للقرآنِ( صحيح مسلم:794)

ترجمہ:یہ سکینت (اطمینان اوررحمت)تھی جو قرآن (کی قراءت) کی بنا پر (بدلی کی صورت میں) اتری۔

اللہ کی رحمتوں کی کوئی انتہا نہیں، قرآن کی قرات سے ایسا بھی ممکن ہے کہ گھر کے فتنے، تنازع، اور مسائل ختم ہوجائیں یا بے چین دل کو اس سے ٹھنڈک وسکون پہنچے، رحمت کے فرشتوں کا نزول ہو تاہم قرات کے ساتھ قرآن کے دیگر حقوق بھی اداکئے جائیں مثلا اس کے معانی پہ غوروخوض، آیات سے عبرت ونصیحت، دعوت وعمل کا جذبہ وغیرہ۔

سوال(3): ہم اپنے یہاں دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں اور مشارکین میں اکثر لوگ میلاد منانے والے ہیں۔ پہلے لوگ قرآن کلاس اور دیگر دروس میں آتے تھے پر جب سے انکو پتہ لگا ہم میلاد نہیں مناتے تو قرآن کلاس میں نہیں آرہے ہیں۔ ایسے میں کیا کریں ؟کھلے عام ہم میلاد کا انکار کرتے رہیں یا حکمت کے تحت پہلے لوگوں کو قرآن سے جوڑیں اور پھر آہستہ آہستہ انہیں ان بدعات کے بارے میں بتائیں، سمجھ نہیں آرہا پلیز جلد رہنمائی کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب : دعوت میں حکمت وبصیرت اپنانا چاہئے مگر دعوت کے لئے خود کو میلادی منوانایا ظاہرکرنابدعت اور اہل بدعت کا تعاون ہے۔  بلاشبہ دعوت کا کام حکمت کے ساتھ کریں یہ بڑے اجر کا کام ہے مگر خود کو بدعتى کا معاون نہ ظاہر کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منکر ات پہ خاموشی اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اولا ہاتھ سے مٹانے، ثانیا زبان سے نصیحت کرنے اور ثالثا دل میں اسے برا جاننے کا حکم دیا ہے۔ بھلے آپ کے درس میں لوگوں کی قلت ہو مگر حق کی تعلیم دیں، میلادیوں سے غصے میں نہیں، حکمت سے بات کریں تاہم میلاد منانے والے بھی ٹھیک اور نہ منانے والے بھی ٹھیک ایسی پالیسی نہ اپنائیں۔  یاد رکھیں حق كى پیروی کرنے والے اور حق قبول کرنے والے ہردور میں کم رہے ہیں۔  دعوت کا مقصد بھیڑ جمع کرنا نہیں حق بات پہنچانا ہو خواہ اس کے قبول کرنے والے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔

سوال(4): اگر میاں بیوی بوس و کنار کر رہے ہوں اوراذان ہونے لگے تو اذان کے احترام کے لئے یہ عمل چھوڑ دینا چائیے یا نہیں ؟ اور اگر نہیں چھوڑنا چائیے تو کیااذان کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز اگر حالت جماع ہو اور اس دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو کیا اس عمل کو روک دینا چائیے یا کھانے پر قیاس کیا جا سکتا ہے جس طرح ایک حدیث ہے کہ اگر کھانا سامنے رکھا ہو تو پہلے کھانا کھائیں مہربانی ہوگی رہنمائی فرمائیں۔

جواب : اذان کا مقصدلوگوں کو نماز کی طرف بلانا ہوتا ہے۔  جب مسجد میں اذان ہونے لگے تو سارے کام کاج چھوڑ کر نماز کے لئے تیار ہونا چاہئے اور اول وقت پہ نماز ادا کرنا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: أفضلُ الأعمالِ الصَّلاةُ في أوَّلِ وقتِها(صحيح الجامع:1093)

ترجمہ:بہترین عمل نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا ہے۔

اور جب جماع کی حالت میں اذان ہونے لگے یا اقامت کی آواز سنائی دے تو اس عمل کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اس سے جلد فراغت حاصل کرکے اور غسل کرکے نمازادا کریں۔یاد رہے اذان سننے کے بعد بھی قصدا بستر پر لیٹے رہنا حتی کہ اقامت ہونے لگے تب جماع کرنا ہماری کوتاہی اور نماز سے غفلت ہے۔جہاں تک اذان کے جواب کا مسئلہ ہے تو یہ سب پر واجب نہیں بلکہ فرض کفایہ اوربڑے اجر وثواب کا حامل ہے اس لئے میاں بیوی سے بات چیت یابوس وکنار کے دوران جواب دینا چاہیں تو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جماع کے وقت اذان کا جواب دینے سے علماء نے منع کیا ہے، جب اس عمل سے فارغ ہوجائیں تو بقیہ کلمات کا جواب دے سکتے ہیں۔

سوال(5): کیا گھر میں طوطا اور پرنده رکھنا جائز ہے؟

جواب : ہاں گھر میں طوطا یا خوبصورت وخوشالحان پرندہ رکھنا، اسے پالنا اور پنجڑے میں بند کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی دیکھ ریکھ کی جائے اور اس کی خوراک کا انتظام کیا جائے۔  نبی ﷺ کے زمانے میں ابوعمیر نامی بچہ ایک چڑیا سے کھیلا کرتا، آپ نے اسے آزاد کردینے یا نہ کھیلنے کا حکم نہیں دیا۔

سوال(6):غیر مسلم ہندو اور کفار کے ہوٹل میں کھانا کیسا ہے وہ لوگ نجس ہوتے ہیں اور انکی کمائی حرام کی ہوتی ہے؟

جواب : یقینا کافر نجس ہوتے ہیں مگر اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا حلال کھانا نجس کے حکم میں نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہوی کا پیش کیا کھانا کبھی نہیں کھاتے۔  اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا جو ہمارے لئے شرعا حلال ہو اس کے ہوٹل میں کھاسکتے ہیں تاہم جس جگہ شراب وکباب عام ہوایسی جگہ کھانے سے پرہیز کریں خصوصا جب خنزیروغیرہ پکایا جاتا ہوکیونکہ بنائے اور کھائے گئے ایسے برتن میں آپ بھی کھائیں گے نیز یہ علم رہے کہ کفار کے ہوٹل سے اجتناب کرسکیں تو بہتر ہی ہے اور ضرورت پڑجائے تو حرج نہیں اور کفار کی ہر کمائی حرام نہیں ہے مثلا ہوٹل کی کمائی حرام نہیں ہے الا یہ کہ اس میں بھی حرام کاری کرتا ہو۔ یہاں ہوٹل میں ہمیں اس کی حرام کمائی سے سروکار نہیں ہے حلال فوڈ سے مطلب ہے۔

سوال(7): کیا دوران وضو باتیں کرنا منع ہے بہت ساری مساجد میں وضو والی جگہ لکھا ہوتا ہے کہ دوران وضو باتیں نہ کریں کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب : میں نے آج تک کہیں کسی مسجد کے وضوخانہ میں ایسا لکھا نہیں دیکھا البتہ وضو میں اسراف نہ کریں اس قسم کا جملہ  عموما لکھا ہوتا ہے۔  ممکن ہے عورتوں والے وضوخانوں میں ایسا کہیں لکھا ہوتا ہو کیونکہ عورتیں باتیں زیادہ کرتی ہیں اور بات کرتے کرتے وضو بنانے میں پانی زیادہ خرچ ہوگا۔  بہرکیف! وضو کے دوران بات کرنا شریعت کی طرف سے منع نہیں ہے۔

سوال(8): آج کل مساجد میں مریضوں کے لئے نماز کی ادائیگی کی خاطر کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اوراس کے آگے تختی لگی ہوتی ہے، نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو وہ اس تختی پرسجدہ کر لیتا ہے,اس عمل کی شرعی حثیت کیا ہے؟

جواب: شیخ صالح فوزان نے ایسی کرسی پر سجدہ کرنا ناجائز کہا ہے جس میں سجدہ کے لئے آگے تختی لگی ہو۔ ان کا استدلال ہے کہ نبی ﷺنے ایک مریض کو تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اسے پھینک دیا۔  اس لئے کرسی پر نماز پڑھنے والے مریض کو چاہئے کہ اگر زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو زمین پر سجدہ کرے ورنہ کرسی پر ہی رکوع کے مقابلے میں ذرا زیادہ جھک کر سجدہ کرے۔

سوال(9):نماز کے دوران اگرکسی کاوضو ٹوٹ جائے تو کیا اس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟

جواب : اگر نماز کے دوران کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے نماز توڑ کر پھر سے وضو بنانا ضروری ہے اور ازسرے نو نماز شروع کرناہے۔

سوال(10):اگر لفظ بلفظ سیکھنے کا معاملہ ہو تو کیا حائضہ عورت اپنے ہاتھوں میں قرآن لے سکتی ہے ؟

جواب : صحیح قول کی روشنی میں حیض والی عورت بغیر چھوئے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے البتہ جہاں تک چھونے کا مسئلہ ہے تو ہاتھوں میں دستانے لگاکر مصحف پکڑے یعنی سیکھنے یا سکھانے یا تلاوت کی غرض سے جب قرآن اٹھانے کی ضرورت ہو تو اپنے ہاتھوں میں دستانے لگالے۔  امام بخاری نے اپنی صحیح میں "كِتَابُ الحَيْض "(بَابُ قِرَاءَةِ الرَّجُلِ فِي حَجْرِ امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ) کے تحت ترجمہ الباب کے طورپر ایک اثر ذکر کیا ہے: وَكَانَ أَبُو وَائِلٍ: «يُرْسِلُ خَادِمَهُ وَهِيَ حَائِضٌ إِلَى أَبِي رَزِينٍ، فَتَأْتِيهِ بِالْمُصْحَفِ، فَتُمْسِكُهُ بِعِلاَقَتِهِ»

ترجمہ:ابووائل اپنی خادمہ کو حیض کی حالت میں ابورزین کے پاس بھیجتے تھے اور وہ ان کے یہاں سے قرآن مجید جزدان میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر لاتی تھی۔

تبصرے بند ہیں۔