انسان اور زمین کی حکومت (قسط 74)

رستم علی خان

چنانچہ دو آدمی عبادت خانے کی دیوار توڑ کر حضرت داود کی خدمت میں حاضر ہوئے- حضرت داود علیہ السلام انہیں دیکھ کر گبھرائے تو انہوں نے کہا مت گبھرا ہم تو صرف تجھ سے اپنے ایک مسلئے کا فیصلہ کروانے آئے ہیں پس ہمارا فیصلہ کر دیں ساتھ انصاف کے اور سیدھی راہ دکھا دیں- تب حضرت داود علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنا مسلئہ بیان کرو پھر ہم اس میں فیصلہ کریں گے ساتھ انصاف کے اگر اللہ نے چاہا تو-

چنانچہ ان میں سے جو فریادی تھا اس نے عرض کی کہ اے بادشاہ یہ جو میرا بھائی ہے مجھ پر زیادتی کرتا ہے کہ اس کے پاس اول ننانوے دنبیاں اپنی موجود ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے- اور پھر مجھ سے بھی کہتا ہے کہ اپنی دنبی میرے حوالے کر اور اس بات میں مجھ سے زبردستی کرتا ہے اور میرا چیز جس پر میرا حق ہے مجھ سے چھینتا ہے- حضرت داود نے دوسرے شخص سے کہ جس کے خلاف مقدمہ تھا پوچھا کیوں جی جو یہ بولتا ہے سچ ہے یا نہیں-؟ اس شخص نے کہا اس کی دنبی خوبصورت ہے اور دیکھنے میں آنکھوں کو بھلی لگتی ہے پس مجھے وہ پسند ہے اس لیے میں اسے اپنی دنبیوں میں ملانا چاہتا ہوں تاکہ میری سو دنبیاں پوری ہو جائیں-

حضرت داود نے فرمایا یہ تو تم کھلی بےانصافی کرتے ہو کہ اپنی سو دنبیاں پوری کرنے کے واسطے اس کی دنبی کو ناحق اپنے ریوڑ میں ملاتے ہو اور یہ تو تم واقعی زیادتی کرتے ہو- پس حضرت داود کی بات سن کر دونوں فرشتے ہنس پڑے اور کہنے لگے، اے داود باوجود تمہاری نناوے بیویاں ہونے کے تم نے اوریا کی منکوحہ کو حرص سے تم نے بیاہا اور ایک سو عورتوں کو اپنے نکاح میں لائے- اور تم نے زیادتی کی ناحق ایک شخص پر اور یہ کھلی بےانصافی ہے- اور یہی وہ مقدمہ ہے جو ہم لائے ہیں تمہارے پاس دنبی کا معاملہ بنا کر- یہ تم نے ظلم کیا اپنے نفس پر- اور یہ کہہ کر دونوں فرشتے غائب ہوئے-

پس داود علیہ السلام اس بات سے بہت نادم ہوئے- اور معلوم کیا کہ وہ دونوں فرشتے دنبی کا معاملہ لیکر دراصل ہم کو نصیحت و سرزنش کرنے آئے تھے اس پر جو خطا مجھ سے سرزد ہوئی تھی- تب اپنی خطا سے معترف ہو کر بہت روئے اور توبہ کی اور سجدے میں چالیس دن رات پڑے رہے- نہ کھاتے نہ پیتے، شب و روز رویا کرتے- مروی ہے کہ حضرت داود ان ایام میں اتنا روئے کہ ان کی آنسووں سے چاروں طرف گھاس پیدا ہو گئی- بعد چالیس روز بارگاہ خداوندی سے ندا آئی، اے داود اپنا سر سجدے سے اٹھا میں نے تیری خطا کو معاف کیا- تب آپ نے سر سجدے سے اٹھایا اور ایک ایسی آہ ماری کے جو گھاس آپ کے آنسووں سے اگا تھا اس آہ کی گرمی سے سب جل گیا-

اللہ تعالی فرماتا ہے؛ "اور خیال کیا داود نے کہ ہم نے اس کو جانچا- پھر گناہ بخشوانے لگا اپنے رب سے اور گرا جھک کر سجدے میں اور رجوع ہوا اللہ کیطرف پس ہم نے معاف کیا اس کو وہ کام”- چنانچہ جب اللہ نے آپ کی تقصیر کو معاف فرمایا اور توبہ آپ کی قبول ہوئی تو بعد اس کے حضرت جبرائیل امین آپ کے پاس آئے اور فرمایا، اے داود اوریا کی قبر پر جا کر اس سے اپنی تقصیر کی معافی مانگ تاکہ فردائے قیامت میں تم سے مواخذہ نہ کرے-

پس حضرت داود نے جبرائیل کی اس بات کو سنکر اوریا کی قبر پر جا پکارا- اے اوریا، دو دفعہ پکارنے پر کوئی جواب نہ آیا، جب تیسری دفعہ پکارا تو اس نے جواب لبیک دیا- اور کہنے لگا تم کون ہو جو مجھ کو اس طرح سے پکارتے ہو اور یہ کہ مجھے سوتے سے جگا دیا- حضرت نے جواب دیا میں داود ہوں- بولا خلیفہ خدا آپ یہاں کس واسطے آئے ہیں- (حضرت داود علیہ السلام کو "خلیفتہ اللہ” یعنی اللہ کے خلیفہ بھی کہا جاتا ہے یہ آپ کا لقب تھا) حضرت داود نے فرمایا اے اوریا میں تجھ سے معافی مانگنے کے واسطے حاضر ہوا ہوں- تب اس نے کہا جواب دیا کہ اے حضرت آپ نے مجھ کو جہاد کے واسطے میدان جنگ میں بھیجا تھا جہاں میں شہید ہوا- اس کے بدلے اللہ نے مجھ کو بہشت عطا فرمائی جہاں میں سکون میں ہوں- اور جو کچھ کیا ہو گا آپ نے میرے ساتھ اسے میں نے معاف کیا-

پس حضرت داود علیہ السلام اوریا سے معافی ملنے کے بعد خوش ہو کر واپس اپنے گھر چلے گئے- پھر حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا، اے داود اللہ نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ پھر سے اوریا کی قبر پر جائیں اور یہ بات کہیں کہ تم کو میں نے جہاد میں بھیجا تھا اپنے نفس کی خواہش سے پھر تو وہاں شہید ہوا- میں نے تیرے بعد بطشا سے اپنے نفس کی خواہش پر نکاح کیا اور یہ تقصیر مجھ سے ہوئی پس تو مجھے اس پر معاف کر دے۔

چنانچہ حکم ہوا کہ واپس دوبارہ اوریا کی قبر پر جائیں اور اس سے اپنی غلطی بیان کر کے معافی مانگو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے- تب حضرت داود علیہ السلام بحکم خدا دوبارہ اوریا کی قبر پر گئے اور اسے پکارا- تب اس نے جواب دیا اے حضرت آپ پھر کس سبب مجھے پکارتے ہیں- احوال اپنا بیان کیجئے جو کچھ مجھ سے درکار ہے- تب حضرت داود علیہ السلام نے اس عورت بطشا کے بارے سب حال حقیقت بیان کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے اپنے نفس کی خواہش پر اسے جہاد پر بھیجا تھا سب بیان کیا اور پھر اوریا سے اپنی اس غلطی کی معافی چاہی- اوریا نے اس بار حضرت داود کی بات کا کوئی  جواب نہ دیا- چنانچہ حضرت داود اس بات سے بہت گرویدہ ہوئے اور رو رو کر کہا اے اوریا میری تقصیر معاف کر میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور جب تک تو مجھے معاف نہ کرے گا مجھے سکون میسر نہ آئے گا-

تب اس نے کہا اے داود مت رو، بیشک اس بار میں تمہیں معاف نہ کروں گا اس پر جو تم نے کیا- حضرت داود علیہ السلام نے بہت رو رو کر اس سے اپنی تقصیر کی معافی مانگی مگر اس نے معاف نہ کیا- تب حضرت داود کے رونے اور اظہار ندامت پر بارگاہ ایزدی سے ندا آئی، اے داود مت رو بیشک میں نے تجھے معاف کیا- تب حضرت داود نے روتے ہوئے عرض کی، الہی ! اوریا مجھے معاف نہیں کرتا- تب حکم ہوا اے داود بےغم رہو حشر کے دن اس کے لیے ایک قصر جنت میں یاقوت سرخ کا بناوں گا، اس میں بہشت کی حوریں رہیں گی- اوریا کو ان پر عاشق و فریفتہ کروں گا تب وہ ضرور تم کو معاف کر دے گا-

منقول ہے کہ حضرت داود نے فرمایا کہ الہی مجھے ہرگز چین نہیں پڑے گا جب تک کہ اوریا مجھ کو معاف نہ کر دے گا- تب حق تعالی نے اسی وقت بہشت میں ایک محل پرتکلف جواہرات سے بنا کر اوریا کو دکھایا- اور اس سے فرمایا کہ اگر تو داود کو اس کی تقصیر معاف کر دے تو یہ محل تجھ کو بخش دوں گا- چنانچہ اس نے جب وہ پرتکلف محل اور اس میں حسین ترین حوروں کو دیکھ کر عاشق ہوا اور خوش ہو کر حضرت داود علیہ السلام کو پکارا، اے داود میں نے آپ کی خطا معاف کی اور میری طرف سے آپ پر کوئی بوجھ باقی نہ رہا-

پس حضرت داود علیہ السلام اوریا کیطرف سے یہ سنکر خوش ہو کر گھر کیطرف واپس آئے- تبھی ساری قوم بنی اسرائیل حضرت داود کو دیکھ کر ان کیطرف آئی- اور سب کہنے لگے، اے حضرت آپ کو کیا ہوا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے چالیس روز سے آپ نہ باہر نکلتے ہیں- نہ کچھ کھاتے پیتے ہیں نہ کسی سے کلام کرتے ہیں- ایسا کونسا غم یا پریشانی ہے جو آپ اس قدر غمزدہ ہوئے پھرتے ہیں- ہم سے کہئیے ہم آپ کے ہر غم کا مداوہ کرنے کی کوشش کریں گے-

تب حضرت داود نے فرمایا، اے صاحبو! اللہ نے مجھے تم پر خلیفہ کیا اور نبی بنا کر بھیجا- اور مجھے حکم دیا کہ عدل و انصاف کیساتھ تمہارے فیصلے کروں اور کسی فریق پر زیادتی نہ کروں- اور مجھ کو اللہ نے منع فرمایا تھا کہ نفس امارہ کے پیچھے نہ پڑیو کہ خراب ہو گے- پس اس بات کو بھول کر میں نے نفس امارہ کی پیروی کی تھی- اور ایک شخص کہ نام اس کا اوریا تھا- میں نے اس کو مغالطہ دیکر جہاد میں بھیجا کہ اس کی ہونے والی منکوحہ سے خود نکاح کر سکوں- پھر وہاں وہ شہید ہو گیا اور اس عورت سے میں نے نکاح کر لیا- اور یہ میں نے زیادتی کی اس کیساتھ اپنے نفس کے کہے پر- چنانچہ اسی تقصیر کیوجہ سے خدا نے چند روز مجھے بلا میں مبتلا رکھا- اور اب اللہ نے مجھے اس سے نجات بخشی ہے-

وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ داود علیہ السلام اپنی اس خطا پر تیس برس تک روتے رہے- اور سجدے میں سر رکھے اتنا روتے کہ ان کے آنسووں سے تہہ در تہہ سات موٹے کپڑے تر ہو جاتے- اور چار ہزار عابد ان کیساتھ رویا کرتے- واللہ اعلم اصواب

اور حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت داود اپنے گناہ کی معافی کے بعد خشک روٹی پر بجائے نمک چھڑک کر کھانے کے خاک چھڑک کر کھاتے اور آنسو بہاتے اور فرمایا کرتے یہی خوراک ہے- ستر برس تک ان کا یہی حال رہا- ایک دن بیت المقدس میں جا کر سر زمین پر رکھ کر روتے تھے کہ جبرائیل امین جناب باری سے یہ مژدہ لائے اور فرمایا، "پس ہم نے معاف کر دیا اس کو وہ کام اور اس کو ہمارے پاس مرتبہ ہے اور اچھا ٹھکانہ”-

تب حضرت داود یہ پیغام سنکر خوش ہوئے اور بیت المقدس کے منبر پر چڑھ کر شکر بجا لائے اور زبور کی تلاوت کی اور عرض کی الہی تو نے میری توبہ قبول کی- ارشاد ہوا قبول ہوئی- تب عرض کی الہی میں ڈرتا ہوں کہ خطا اپنی بھول نہ جاوں پس تو ایک نشان خطا کا میرے بدن میں رکھ دے تاکہ اسے دیکھ کر خطا اپنی یاد رکھوں اور توبہ استغفار کرنے والوں میں شامل رہوں.

تبصرے بند ہیں۔