جوگندر پال کا تخلیقی سفر

حیدر قریشی

جوگندر پال نے ادبی رسائل میں ۱۹۴۵ء سے لکھنا شروع کیا۔ ابتدا افسانے سے کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۱۹۶۱ءمیں شائع ہوا۔ تاہم انہوں نے ناول بھی اسی دور میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۶۱ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”دھرتی کا کال“شائع ہوا تو۱۹۶۲ء میں ان کا پہلا ناول ”اک بوند لہو کی“ شائع ہو گیا۔ اب تک جوگندر پال کے افسانوں کے نو مجموعے چھپ چکے ہیں جن میں مجموعی طور پر۱۵۲افسانے، ۶فینٹاسیاں اور چند افسانچے شامل ہیں۔ منتخب افسانوں کے تین انتخاب الگ سے چھاپے جا چکے ہیں۔ دو ناولٹ ”بیانات“ اور ”آمدورفت“ اور چار ناول”اک بوند لہو کی“، ”نادید“، ”خواب رو“، ”پار پرے“ اور افسانچوں کے تین مجموعے ”سلوٹیں“، ”کتھا نگر“ اور” نہیں رحمن بابو“ شائع ہو چکے ہیں۔ اس وقت ان کے افسانچوں کا تازہ ترین مجموعہ”نہیں رحمن بابو“پیشِ نظر ہے۔  ناول، ناولٹ، افسانہ اور افسانچہ، فکشن کی ابھی تک یہ چار معروف صورتیں ہیں اور ان چاروں کو جوگندر پال نے بڑے فنکارانہ انداز کے ساتھ اور تخلیقی رچاؤ کے ساتھ برتا ہے۔ ناول سے افسانچہ تک جوگندر پال نے اردو فکشن کو مالا مال کر دیا ہے۔ کوئی صنف اپنے پھیلاؤ اور ضخامت کے اعتبار سے چھوٹی بڑی نہیں ہوتی۔ اگرچہ فکشن رائٹر محض تصویر کشی یا عکاسی نہیں کرتا تاہم بات کو سمجھنے کے لیے میں فوٹو گرافی اور فن مصوری کی مثال دے رہا ہوں۔ یہ مثال بھی میں نے جوگندر پال سے سنی تھی تاہم یہاں یادداشت کی بنیاد پر اپنے طور پر بیان کر رہا ہوں۔ کسی بلند ترین پہاڑکی پینٹنگ آپ بڑے کینوس پر بھی بنا سکتے ہیں اور چھوٹے کینوس پر بھی۔ یا ایک فوٹو زیادہ سے زیادہ بڑے سائز میں بھی بنایا جا سکتا ہے اور محض ایک مربع انچ سائز میں بھی۔ اصل کمال یہ ہوتا ہے کہ جو پینٹنگ یا فوٹو بنائی گئی وہ کس حد تک اپنے آپ کو ظاہر کر نے میں کامیاب ہے۔  بس اس سے کچھ ملتی جلتی بات ناول، ناولٹ، افسانہ اور افسانچے کی تخلیق کی ہے۔

   جوگندر پال کا ایک افسانچہ دیکھیے:

  ”میری ماں کو مَرے پندرہ برس ہو لیے ہیں رحمن بابو، آج میں نے اس کی تصویر دیکھی تو رنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، تصویریں ہی اصل ہوتی ہیں جو رہ جاتی۔  ماں تو محض گمان تھی جو گزر گئی“۔

اپنی کیفیات اور محسوسات کے لحاظ سے یہ کتنی بڑی کہانی ہے لیکن اسے جوگندر پال نے چند الفاظ میں مکمل کر دیا ہے۔ (یہ افسانچہ مجھے اتنا اچھا لگا تھا کہ میں نے اسی خیال کو ایک ماہیا میں پیش کر کے وہ ماہیا جوگندر پال کے نام کر دیا تھا۔

رہ جاتی ہیں تصویریں

خواب ہیں ہم شاید

 اور اصل ہیں تعبیریں۔)

  ”نہیں رحمن بابو“میں شامل افسانچوں کی جوگندر پال کے پہلے افسانچوں سے ایک الگ شناخت یہ ہے کہ یہ سب ایک کردار رحمن بابو کے ساتھ مکالمہ کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اظہار کی یہ صورت بجائے خود افسانچوں میں ایک نیا تجربہ ہے، کامیاب تجربہ۔ موضوعاتی لحاظ سے ان افسانچوں میں نہ صرف کئی عصری مسائل، عالمی سیاسی صورتحال اور مقامی خارجی معاملات سامنے آتے ہیں بلکہ داخلی دنیا کی بھی انوکھی سیاحت نصیب ہوتی ہے۔ ہندوستان میں فسادات میں مارے جانے والے بے گناہ مسلمان ہوں یا افغانستان میں امریکی جارحیت کا نشانہ بننے والے عام افغانی عوام، ان سب کے دکھوں کا گہرا احساس جوگندر پال کے افسانچوں میں موجود ہے۔ ہمارے عدالتی نظام کی خرابیوں اورمجرموں کی متعفن دلیریوں کو جوگندر پال کے اس افسانچے میں دیکھئے:

  ”پہلے بھی لوگ جھوٹ بولا کرتے تھے رحمن بابو، مگر تھے بڑے ایمان پرست۔ اسی لیے عدالتوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہر مقدمے سے پہلے اُنہیں خدا اور ایمان کی قسم کھانے کو کہا جائے۔ ۔ ۔ ہاں، یوں ہر مجرم مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی دھر لیا جاتا۔

  ہاں اُسی وقت سے عدالتیں خدا کی قسم سے ہی ہر کیس کی چھان بین شروع کرتی آرہی ہیں۔

  بجا کہتے ہو، بابو۔ اب تو خدا کی گواہی کا موقعہ پا کر مجرم اتنا کارگر جھوٹ بولتے ہیں کہ بے گناہ فوراً اپنے جرم کا اقبال کرکے عدالتی رحم کے لیے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ “

ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کے عمومی کردار کو جوگندر پال کے ایک افسانچہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:

  ”ہاں، رحمن بابو، اُس غریب ماشکی کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی ہے کہ ہفتے میں ایک بار ہمارے سیاسی نیتا کے بُت کو دھو کر صاف کر دیا جائے، تاکہ منہ کالا نہ پڑ جائے۔ کیا؟۔ ۔ ہاں، نیتا لوگ خود آپ بھی تو بُت کے بُت ہوتے ہیں۔ ۔ ہاں، بابو، کچھ کرتے دھرتے تو ہیں نہیں، پھر بھی اُن کی تعریف کے نعرے سُن سُن کر کان پکنے لگتے ہیں۔

نہیں، بابو، غریب لوگ بے چارے کیا کریں؟بُت اپنے منہ آپ تھوڑ اہی دھو سکتے ہیں، ماشکی نہ دھوئیں تو ہاتھ اُٹھا کر منہ کی کالک بھی نہ چھُپا سکیں۔ “

  ہندوستان میں ہوتے رہنے والے ہندو مسلم فسادات کے بارے میں جوگندر پال کے کئی افسانچے ہیں۔ ایک افسانچے میں شری رام چندر گجرات کے فسادات سے دُکھی ہو کر احمدآباد کی کسی مسلم عورت کے گھر میں جنم لینے کا ارادہ کرتے ہیں تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ رام جی آپ ایسا نہ کیجئے، ورنہ آپ کے جنم لیتے ہی گجرات کے ہندو جنونی آپ کو مار ڈالیں گے۔ ایک اور افسانچہ جس میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک مسلم کردار کے کرب کو اجاگر کیا گیا ہے پیش کر رہا ہوں۔

   ”نہیں رحمن بابو، اسے پتہ بھی نہ چلا اور مذہبی جنونیوں نے اسے ایک ہی وار میں ختم کر دیا۔ ۔ نہیں، اس میں ایک سانس بھی نہ بچا تھا، پھر کیا پیش آیاکہ جب اسے قبر میں لٹادیا گیا اور ہم اس پر مٹی ڈالنے لگے تو وہ اچانک اُٹھ کر بیٹھ گیا اور ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگا، خدارا مجھے میری جان مت لو۔ ۔ خدارا۔ ۔ !

  نہیں، بابو، وہ سو فیصد مر چکا تھا مگر کیا ہوا کہ خوف کی شدت سے ہڑبڑا کر جی پڑا اور قبر میں بیٹھے بیٹھے فریادکیے گیا۔ ۔ خدا کے لیے۔ ۔ ۔ !

  نہیں، بابو، اُس وقت تو وہ بے خبری میں چل بسا تھا، اس وقت اسے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے پاکر ہمیں یہی لگ رہا تھا کہ جان تو اس کی اب نکل رہی ہے۔ “

  پاکستان میں کتنے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے ہاں کی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سفاکانہ سانحات پر اس حد تک ہمدردی کے ساتھ لکھا ہو؟چلیں پاکستان کے افسانہ نگاروں کی بات کو چھوڑ کر تنگ نظری کی ایک صورت دیکھتے ہیں:

   ”نہیں مجھے ان سیدھے سادے قیدیوں کی کوئی فکر نہیں۔ یہ بے چارے تو دو یا دس سال کھلے کھلے اپنے کیے کی سزا بھگت کرمکت ہو جائیں گے، قابلِ رحم تو وہ سیاہ بخت ہیں جو تنگ و تاریک نظریوں کی کال کوٹھڑی میں اپنے نہ کیے کی سزا جھیل رہے ہیں۔ آؤ بابو، ان سیاہ بختوں کے حق میں دعا مانگیں۔ “

  فرقہ پرستی اور تنگ نظری کے موضوع کو یہیں روک کر جوگندر پال کے چند افسانچے کسی بڑے انتخاب کے بغیر پیش کر رہا ہوں، کہ ان سے ان کے افسانچوں کے عمومی اندازکو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

*”ہاں، مجھے بھی معلوم ہے رحمن بابو۔ کوئی درجن بھر لوگوں سے اس کی بیوی کے غیر اخلاقی جنسی تعلقات رہے ہیں۔ ۔ نہیں وہ چُپ کہاں بیٹھا رہا بابو؟اُسی دم گھر بار کو خیرباد کہہ دیا اور بھرے بازار اپنی بیوی کے عاشقوں کی قطار میں جا کھڑا ہوا۔ “

*”میں نے ایک عمر اندھے پن میں ہی کاٹ دی رحمن بابو، لیکن جب ایک برٹش آئی بنک سے حاصل کی ہوئی آنکھیں میرے ساکٹس میں فِٹ کر دی گئیں تو مجھے دکھائی دینے لگا۔ اور میں سوچنے لگا، غیروں کا نقطۂ نظر اپنا لینے سے بھی اندھا پن دور ہوجاتا ہے“

*  ”رحمن بابو، آج صبح ہجڑوں کا ایک پورا ٹولہ تالیاں پیٹ پیٹ کر بخشش کی خاطراس عالیشان گھر کے سامنے آبیٹھا۔ کسی نے انہیں وہاں سے اُٹھ جانے کو کہا۔ تمہیں معلوم نہیں کہ مالک مکان کا پورے کا پورا کنبہ ایک کار حادثے میں کام آچکا ہے؟بے چارے کے آگے پیچھے کوئی نہیں رہا۔

مگر ہجڑے آئی پر آجائیں بابو، تو ٹلتے تھوڑا ہی ہیں۔ ایک کو جو سوجھی تو اس نے جھوٹ موٹ کی آہ و زاری شروع کر دی اور پھر اس کے ساتھی بھی اس کے سُر میں سُر ملانے لگے۔ تعجب کی بات ہے بابو، ہجڑے شروع تو ہنسی مذاق میں رونے سے ہوئے پر سُر بندھتے ہی سب کے سب سچ مچ رونے لگے اور انجانے میں زارو قطار روتے چلے گئے۔ بھلا سوچو، بابو، کیوں۔ “

*”نہیں، رحمن بابو، ایلورہ کے گپھاؤں میں تو پراچین کال کی مورتیاں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔

نہیں، پہلے گُپھا میں ہی مَیں حیرت سے کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ اَن گنت اپسرائیں اور دیوتا باہم ناچ رہے تھے۔ ۔ نہیں بابو، سچ مچ ناچ رہے تھے اور ناچ ناچ کر بے سُدھ ہو رہے تھے۔

ہاں مجھے یہی لگا کہ وہ سب لوگ زندہ ہیں اور صرف ایک مَیں، مُورت کا مُورت!“

*”دیکھو، بابو، تمہارا بچہ آپ ہی آپ بے اختیار ہنسے جا رہا ہے۔ ۔ ہاں، ہرنوزائیدہ بچہ یہی کرتا ہے۔ لیٹے لیٹے آپ ہی آپ ہنسنے لگتا ہے۔ ۔ ہاں، رونے بھی لگتا ہے۔ ۔ کیوں؟۔ ۔ کیونکہ وہ اپنے نئے جنم پر ابھی پچھلا جنم ہی جئے جا رہا ہوتا ہے۔ ۔ نہیں، اپنے بچے کو ہلا ہلا کر ڈسٹرب مت کرو۔ اِس وقت شاید وہ اپنے پوتے کو گود میں لئے کھلکھلا رہا ہو۔ ۔ ۔ “

   اس مجموعہ میں چند افسانچے خاصے طویل ہیں۔ خاص طور پر ص ۵۵سے ۵۸تک کا افسانچہ اور ص۱۵۵سے ۱۵۸تک کا افسانچہ۔۔ اگر افسانچے کے اختصار کو مدِ نظر رکھا جائے تو ان کی طوالت کھلتی ہے لیکن یہ بھی ہے کہ رحمن بابو کے تناظر میں جو باتیں یہاں کہی گئی ہیں وہ الگ افسانے کی صورت میں کہہ پانا شاید ممکن نہ تھیں۔ بہر حال اس ایک چھوٹی سی الجھن سے قطع نظریہ سارے افسانچے جوگندر پال کے فن کاعام معیار ہیں اور ان سے ان کے فن کی بلندی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ان افسانچوں کو پڑھتے ہوئے بطور خاص جستجو رہی کہ آخر ان میں رحمن بابو کے کردار کو مستقل حیثیت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کی وجہ میرے ذہن میں یہ آتی ہے کہ وہ انڈیا میں فسادات کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے رحمن بابو کے ساتھ مکالمہ کر کے وہ در اصل ہندو مسلم اتحاد کے فراموش کردہ سبق کو یاد کرا رہے ہیں۔ یہ افسانچے تخلیقی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کا خواب بھی دکھاتے ہیں اور اس کی تعبیر کی آرزو بھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری سطح پر مجھے لگتا ہے کہ رحمن بابو بھی در اصل جوگندر پال خود ہیں۔ مجھے تو ذاتی طور پر بھی کئی بار ایسا لگا تھا کہ کوئی رحمن بابو، کوئی رحیم بابو ہمیشہ سے جوگندر پال کے اندر چھپا ہوا ہے۔ یوں جوگندر پال کے یہ مکالماتی افسانچے در اصل خود کلامی کے افسانچے بن جاتے ہیں۔ ان کی دوسری تخلیقات کی طرح ان افسانچوں میں فلسفہ بھی انتہائی سبک ہوکرکہانی سی لگنے لگتا ہے۔

”بات صرف مذہب کی نہیں۔ بات توفیق کی بھی ہے۔ ہر کسی کو اپنی توفیق کا ہی خدا ملتا ہے۔ “

”ہمارے منے کو تعجب ہے کہ دادا بیٹری کے بغیر ہی کیوں کراتنا تیز چلتا اور اتنے زور سے ہنہناتا ہے“

”خوش تو وہ ہوتا ہے بابوجو ہنستے کھیلتے اک ذرا جی بھر آنے پر کھلے کھلے رو دے!“

”آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ بھی گمان میں نہ ہوں تو ہمیں کہاں نظر آتے ہیں؟“

”میری واپسی کے دن آن پہنچے ہیں اور مجھے سرے سے علم ہی نہیں کہ مجھے کہاں واپس جانا ہے۔ “

”چوٹیوں پر سینہ پھُلا کر اچھل کود کی گنجائش نہیں ہوتی“

”کیا کلجگ آگیا ہے!۔ ۔ انسانوں کو جانور ہوتے تو دیکھا اور سنا تھا، مگر جانوروں کو انسانوں کی طرح لوٹ مچاتے پہلی بار دیکھا“

”چلتے آؤ۔ ہم صرف چلتے چلے جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور پہنچ جانے پر مرجاتے ہیں“

   جوگندر پال کا ایک افسانچہ ان کے مجموعی کام کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے، اسی افسانچے کے اقتباس پر یہ مضمون ختم کرتا ہوںکہ یہ اقتباس خود جوگندر پال کے تخلیقی سفر کی روداد بیان کر رہا ہے:

”زندگی تو اٹوٹ ہے، اسے کوئی ایک جنم میں کیسے پورا کرے۔ ہاں، اسی لیے میرا کہنا ہے کہ میں ہی چیخوف ہوں، میں ہی پریم چند، میں ہی منٹو۔ ۔ ۔ اور وہ بھی کوئی، جسے ابھی پیدا ہونا ہے۔ ہاں بابو، میں اسی لیے بار بار جنم لیتا ہوں کہ اپنا کام پورا کر لوں مگر میرا کام ہر بار ادھورا رہ جاتا ہے۔ نہیں، اچھا ہی ہے کہ ادھورا رہ جاتا ہے، اسی لیے تو زندگی کو زوال نہیں، بابو۔ “

1 تبصرہ
  1. خالد ملک کہتے ہیں

    بہت عمدہ قریشی صاحب

تبصرے بند ہیں۔