حب دنیا

خان عرشیہ شکیل

اللّٰہ تعالی نے دنیا بنائی اور دنیا کی ہر شئے کو انسانوں کے لئےمسخر کردیا۔اور  فرمایا”دنیا میں تم اپنا حصہ مت بھولو”( سورہ قصص 77)

لیکن یہ حب دنیا اتنی نہ بڑھ جائے کہ انسان کو اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اللہ کی راہ میں جہدوجہد سے عزیز ہو جائے۔لیکن افسوس آج  دنیا  کی زندگی ہی انسان کے سب کچھ ہے۔ہر کوئی عالی شان بنگلوں، گاڑیوں، بنیک بینلس، اچھے کھانوں، عمدہ لباس غرض ہر طرح سے آلائش سے بھرپور آرام دہ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔مراد دنیا ہی اس کا مقصد زندگی بن چکا ہے۔

حالانکہ اللّٰہ تعالی نے دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔”دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا زمین کی پیداوار جیسے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوگئی اور پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی۔کھیتاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھ رہے تھےکہ ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں۔یکایک دن کو یا رات کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے الٹا غارت کر کے رکھ دیا۔گویا کہ وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔(سورہ یونس)

یہ دنیا تو اپنی تمام رنگینیوں کے باوجودفانی ہے۔اور آخرت پائیدار، یہاں کی کامیابی اور ناکامی دونوں عارضی ہے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دنیا کی مثال ایک مری ہوئی بکری سے دی ہے۔ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔لیکن انسان نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہےاورخواہشات کا غلام بن گیا۔۔  بیوی اور بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کی تگ و دور میں وہ اتنا مصروف ہوتا کہ وہ فرائض سےاجتناب کرنے لگ جاتا ہے۔  جیسے نماز،  تلاوت قرآن، دین کی تبلیغ  وغیرہ۔

اور یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔

 آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

"میں تم پر فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا۔ لیکن مجھے تمہارے بارے میں ڈر ھیکہ دنیا تم پر وسیع کردی جائے جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر کردی گئی تھی پھر تم اس کو زیادہ چاہنے لوگ جیساکہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا، پھر وہ تم کو برباد کر دے جیسے کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کردیا تھا۔(مسلم و بخاری)”

غور کریں تو پتہ چلتا ہے دنیا کی وسعت بری شئے نہیں بلکہ دنیا کی لالچ، چاہت، کثرت نقصان دہ ہے۔

صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہے۔انھوں نے دنیا کو برتا، اس سے اپنا حصہ لیا۔ اور آخرت کی تیاری کرتے رہے۔ اپنی دھن دولت، وقت، صلاحیتں، اولاد سب کچھ اللّٰہ کی راہ میں لگا دیا۔

مہشور واقعہ ہے جب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ فلسطین میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہورہے تھے آپ کے کپڑوں پر پیوند لگے تھے۔آپ کے خادم نے کہا آپ اچھا لباس زیب تن کیجیے اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہر میں داخل ہو۔آپ نے فرمایا قسم خدا کی ہمیں عزت اسلام سے ملی ہے، کپڑوں سے نہیں۔جب وہاں کے عیسائیوں نے دیکھا تو کہا کہ یہ تو عیسی علیہ سلام کے حواریوں جیسے ہیں اور بیت المقدس کی چابی آپ کے حوالے کردی۔

 جن لوگوں نے دنیا کو ٹھوکر ماری دنیا ان کے پیچھے پیچھے آنی۔حضرت عمر ایک بہت بڑی مملوکت کے مالک تھے لیکن آپ ہمیشہ آخرت کی فکر کرتے۔کہتے دریائے فرات پر اگر کوئی بکری بھی مر جائے تو اللّٰہ عمر سے سوال کریے گاکہ تہماری مملوکت میں بکری کیسے مری؟

آخرت کی جواب دہی کا احساس دنیا کی چاہت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔

افسوس ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگی گاڑیاں، موبائل، لباس، جاہ و جلال ہماری عزت بڑھاتے ہیں۔جبکہ ہمارے سامنے فرعون اور قارون کی  مثالیں موجود ہے جن کے پاس دنیا موجود تھی پھر بھی ناکام تھے۔

سورہ ملک میں اللّٰہ تعالی فرماتا "ہم نے زندگی اور موت کو ایجاد کیا تاکہ تہمیں آزمانے تم میں کون سب سے بہتر عمل کرتا ہے۔ "

حضرت حسن رضی اللّہ عنہ کا قول ہے "اللّٰہ تعالی ان لوگوں پر رحم فرما جن کے پاس دنیا امانت کے طور پر آئی۔انہوں نے اسے خیانت کے بغیر لوٹا دیااور اللّہ کی بارگاہ میں سبک باد روانہ ہوئے۔مزید فرمایا جو تجھے دین کی طرف رغبت دلانے اسے قبول کرلیے۔اور جو تجھے دنیا کی طرف رغبت دلانے اسے قبول نہ کر۔”

آج دنیا پرستی اور آخرت سے غفلت نے ہمیں اخلاقی،  دینی سطح پر بہت پسماندہ بنا دیا ہے۔

آج ہمیں اپنی حیثیت، مقام اور ذمہ داری کو  سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اللّہ ہمیں دنیا  اور آخرت کی بھلائی نصیب فرما۔امین

تبصرے بند ہیں۔