بھارت کینسر سے لڑنے کے لیے کتنا تیار ہے؟

رويش کمار

بھارت کینسر سے لڑنے کے لیے کتنا تیار ہے؟ میٹروز کو چھوڑ ریاستوں کے دارالحکومتوں اور شہروں میں کینسر سے جنگ کی ہماری تیاری کیا ہے؟ گوا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر کینسر کا شکار ہیں۔ بیرون ملک بھی علاج کے لیے گئے اور پھر واپس آکر ایمس میں بھی علاج کروایا۔ منوہر پاریکر تو لڑ رہے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کینسر سے لڑ رہے ہیں تو ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے، کیا ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ کینسر سے لڑنا مریض کی ذمہ داری ہے یا پھر ہماری اداروں کو اس جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

بنگلور جنوب سے بی جے پی کے 6 بار ایم پی رہے اننت کمار کا انتقال ہو گیا۔ اننت کمار کو کینسر تھا۔ 59 سال کی زندگی میں اننت کمار نے طویل سیاسی سفر طے  کیا۔ 1996 میں 37 سال کی عمر میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ بنے اور تب سے اس سیٹ پر انہیں کوئی نہیں ہرا سکا۔ آنت کا کینسر ایک مشکل بیماری ہے۔ علاج کو لے کر قیاس لگانا بالکل مناسب نہیں ہوگا، لیکن کیا ہم اننت کمار کے بہانے ہی سہی، کینسر سے لڑنے کی اپنی تیاری اور عزم پر بات کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے لیے یہ سوال اہم نہیں ہے تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ اننت کمار کا انتقال کیا عام بات ہے۔ مرکزی وزیر رہے ہیں۔ بی جے پی کی پارٹی میں اہم نیتا رہے ہیں۔ ظاہر ہے علاج میں کوئی کسر نہیں رہی ہوگی۔ وزیر اعظم اور امت شاہ نے ان کے انتقال پر گہرا دکھ ظاہر کیا ہے۔ دیگر جماعتوں کے نیتا راہل گاندھی سے لے کر نتیش کمار تک نے افسوس ظاہر کیا ہے۔

کینسر پر پہلے بھی پرائم ٹائم پر بات کرتا رہا ہوں، لیکن آج پھر سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کہاں تک پہنچے ہیں؟ بھارت میں تین لاکھ مریض کینسر سے مر جاتے ہیں۔ دنیا کینسر پر جیت حاصل کرنا چاہتی ہے، جیت بھی رہی ہے مگر اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ کینسر کے مریض دوہرے جھٹکے سے گزرتے ہیں۔ اخراجات سے اور زندگی سے۔ لاکھوں لوگ کینسر سے بچ بھی جاتے ہیں۔

اوباما جب صدر تھے، اس وقت کے نائب صدر بیڈین کے بیٹے کا دماغ کے کینسر سے انتقال ہو گیا۔ بییڈین نے استعفی دے کر کینسر سے لڑنے کا عہد کر لیا۔ امریکہ بھر میں گھومے۔ کینسر پر ریسرچ کرنے والوں سے ملاقات کی، ڈاکٹروں سے بات کی اور ایک نیٹ ورک بنایا۔ بہت کم وقت میں بییڈین نے ایک پلان بنا کر اوباما کو دے دیا جسے وائٹ ہاؤس مون شاٹ کہتے ہیں۔ بییڈین نے اس کے لئے ایک قانون بھی پاس کروایا جسے 21st century cancer act کہتے ہیں۔ کیا ہندوستان میں کچھ ایسا ہو رہا ہے، جس سے لگے کہ ہم بھی اس ضد پر ہیں کہ کینسر کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ اچھے ڈاکٹر ہیں مگر کیا سب کے لیے یہ ڈاکٹر دستیاب ہیں۔ اس سوال پر ڈاکٹر ابھیشیک نے بتایا کہ برطانیہ میں دس لاکھ کی آبادی پر 3 سے 4 ریڈیشن تھراپی مشین ہیں۔ بھارت میں ایک ہے۔ پرائیویٹ اور سرکاری طور پر 650 سے زیادہ مشینیں نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ابھیشیک کے مطابق ہندوستان کو 1300 اس طرح کی مشینوں کی ضرورت ہے۔ ایک مشین 7-8 کروڑ کی آتی ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ سرکاری استپالو میں کہیں مشین ہے تو ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہے تو مشین نہیں۔

بہت سے لوگ تو اسی سوال سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں کہ نہ شراب، نہ سگریٹ نہ الٹا سیدھا کھانا، پھر کینسر کیسے ہو گیا۔ ویسے سگریٹ تمباکو والوں کو کینسر ہونے کے زیادہ خطرے ہوتے ہی ہیں۔ کینسر کے کئی فارم ہیں۔ کئی وجوہات ہیں۔ بھارت میں اسے امیروں کی بیماری کے طور پر دیکھا گیا، مگر اس بیماری سے اب کوئی نہیں بچا ہے۔ حکومت کے پروگرام چلتے رہتے ہیں۔ بہت ساری تنظیمیں کینسر کو لے کر اچھا کام کر رہی ہیں، مگر یہ تمام مدد کی سطح پر ہیں۔ ریسرچ کی سطح پر ہماری کیا پیش رفت ہے۔ دنیا نے کینسر کے معاملے میں کیا پیش رفت کی ہے؟ اس پر بات کرنی چاہیے، جتنی بھی بات کریں وہ کم ہی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2020 میں دنیا کی آبادی 7۔5 ارب ہو جائے گی اور ان میں سے تقریبا ڈیڑھ کروڑ کینسر کے نئے مریضوں کی شناخت ہوگی۔ ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کی موت کینسر سے ہوگی۔ 2020 تک بھارت میں 25 لاکھ کینسر کے مریض ہوں گے اور اس سے ہونے والی موت کی تعداد 3 ملین سے بڑھ کر ساڑھے پانچ لاکھ ہو جائے گی۔ بھارت میں سب سے زیادہ کیس بڑی آنت کے کینسر کے ہوتے ہیں جسے اسٹمك کینسر کہتے ہیں۔ کینسر کے کل صورت میں سے 9٪ اسٹمك کینسر، 8۔2 فیصد بریسٹ کینسر، 7۔5٪ لنگ کینسر، منہ کا کینسر 7۔2٪، فیرنكس کینسر 6۔8٪، کولن اور ریكٹم کینسر 5۔8 فیصد، بلڈ کینسر 5۔2٪، سروائكل کینسر 5۔2٪ ہے۔

اگر فی لاکھ لوگوں پر کینسر کی بات کریں تو بھارت اس معاملے میں کافی پیچھے ہے۔ Institute of Health Metrics and Evaluation،Washington University کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں فی لاکھ لوگوں پر کینسر کے 106۔6 نئے کیس تھے۔ اس معاملے  میں دنیا کے سب سے اوپر دس ممالک میں آسٹریلیا 743.8 کے ساتھ پہلے نمبر پر تھا۔ اس کے بعد فی لاکھ پر 542.8 نئے کیس کے ساتھ نیوزی لینڈ دوسرے اور 532.9 کے ساتھ امریکہ تیسرے نمبر پر تھا۔ یہ سب ہمیں ریسرچ میں ملا ہے۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔