پیغمبر اسلام کی تعلیمات

ڈاکٹر جہاں گیرحسن مصباحی

آج ہم جس ملک، معاشرہ اور ماحول میں جی رہے ہیں، اگر اِس تعلق سے غورکریں تو واضح طورپریہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں ہم دو حیثیتوں سےاپنی زندگی بسر کررہےہیں :ایک اقلیتی حیثیت سے، اوردوسری اکثریتی حیثیت سے۔ ہندوستان، نیپال، چین، جاپان، برطانیہ اورامریکہ جیسےملکوں میں ہم اقلیتی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور خطۂ عرب، پاکستان، بنگلہ دیش اوردیگرمسلم ممالک میں اکثریتی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں ہر طرح کی آزادی حاصل ہونے کے باوجود بہت سے معاملات میں ہمیں محتاط رویہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہی مصلحت اور وقت کا تقاضاہے، جب کہ ان ملکوں میں جہاں ہم اکثریت میں ہیں، انصاف، غیرجانب داری اور محبت و اخوت کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں اکثریتی انداز میں جیناچاہتے ہیں، یاپھر اکثریت کے دباؤ کی وجہ سے تشددپسند ہوگئے ہیں، یا اپنی ناسمجھی، بے صبری اورپریشاں حالی کی بناپر سخت اضطراب میں ہیں۔ اس کے باوجودہم اس پہلوپرغوروفکر کرنے کے لیے تیارنہیں کہ اقلیت میں ہونےپرزندگی گزارنے کےتعلق سے پیغمبراسلام نے کیا رہنمائی فرمائی ہے؟اس کے برخلاف جہاں ہم اکثریت میں ہیں وہاں اپنی آمرانہ قوت کے گھمنڈمیں چورہونے کی وجہ سے سخت مشکل میں ہیں، اوراس مشکل کے عالم میں بھی ہم یہ معلوم کرنے کے لیےتیار نہیں کہ اکثریت میں ہونےپرپیغمبراسلام نے کس اندازاورطرزسےزندگی بسرفرمائی ہے؟ مزیدیہ کہ اقلیت میں ہونے پرہم اپنی جہالت اورسست روی کی وجہ احساس کمتری کےشکارہیں، تو اکثریت میں ہونےپرہم اپنی غیرانسانی حرکت، جانبدارانہ برتاؤ اور متعصبانہ رویے کی وجہ سےاپنے اصل چہرے کومسخ کررہےہیں۔ غرض کہ ہم چاہے اقلیت میں ہوں یااکثریت میں، عالمی سطح پر اپنی پہچان کھوتے جارہےہیں۔ اس پر طرفہ تماشایہ کہ ہم اپنی پہچان کیسے برقراررکھیں اورہم اپنی کھوئی ہوئی عزت کوکیسےحاصل کریں، اس کا راستہ بھی ہمیں سجھائی نہیں دیتا، اور نہ ہی اس پہلوپرسنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی فرصت ہے۔ حالاں کہ اس سلسلے میں پیغمبراسلام کی سیرت ہماری کامل رہنمائی کرتی ہے، یعنی جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں مکی سیرت ہمارے لیےبہترین رہنما کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں ہم اکثریت میں ہیں وہاں مدنی سیرت ہمارے لیےعمدہ رہبرکی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ حقیقت بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت پیغمبراسلام نے اپنی نبوت کااعلان فرمایااُس وقت آپ اقلیت میں تھے اور اپنےمذہبی وجود کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کررہے تھے، آپ یہ جانتےتھےکہ آپ کوجو دین اسلام دیاگیاہے وہ اپنی صداقت اور برحق ہونے کے اعتبارسے تمام مذاہب پر فوقیت رکھتاہے، پھربھی آپ نے نہایت خاموشی سے اسلام کو آگے بڑھایااوراس سلسلےمیں سب سےپہلے ان افرادتک اسلام کو پہنچایاجو آپ کے سب سے زیادہ قریبی تھے۔ پھر جیسے جیسے موقع ملتا گیادین اسلام کو عام کرتے گئے، مگر آپ نے کبھی بھی قبول اسلام کے لیے جبروتشدد، یازورزبردستی کی راہ اختیار نہیں فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو ہمیشہ سامنے رکھاکہ دین اسلام میں کوئی جبرنہیں۔ (بقرہ:۲۵۶)بلکہ جب بھی کسی سےدین اسلام کی کوئی بات کہی، توبڑی نرمی اور پیارومحبت بھرے انداز میں کہی اور اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو برابر سامنے رکھاکہ لوگوں کوحسن تدبیر اور حسن کلام سےاپنے رب کی طرف بلاؤ اور اُن سے بحث بھی کرو توبہتراندازسے۔ (نحل:۱۲۵)

چنانچہ اگر سامنے والامان جاتاتو ٹھیک، اور اگرکوئی بدسلوکی کرتا، تو بھی پیغمبراسلام اس کے ساتھ عظیم حسن اخلاق کا مظاہرہ فرماتے۔ یہاں تک کہ جوآپ کو ہمیشہ ستاتااور پریشان کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا، ایسے شخص کے ساتھ بھی بڑی محبت و شفقت اورحسن اخلاق سے پیش آتے۔ گویاجب تک آپ اقلیت میں تھے اپناکام بڑی خاموشی اور صبروتحمل سے انجام دیا، اوردھیرے دھیرے، موقع ومحل کے مطابق افرادسازی کی مہم کو آگے بڑھاتے رہے، حالاں کہ پیغمبراسلام اگرچاہتے توکفارومشرکین کے خلاف محاذ کھول سکتے تھے، کیوں کہ آپ جس قبیلہ اور جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ مکہ میں نہایت ہی اعلیٰ واشرف قبیلہ اور بہادر خاندان تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیاتو صرف اس لیے کہ ایسا کرنا تبلیغی اعتبار سے بہتر نہ تھا۔ اس طرح پیغمبراسلام نے اقلیت کی حالت میں جینےلیےایسےانمول نقوش چھوڑے ہیں جنھیں اپناکرہم آج بھی ایک مثالی زندگی گزارسکتے ہیں جوپوری انسانی برادری کے لیے مفیدتر ہیں اورکسی بھی طرح کے تشددبھرے ماحول میں بھی امن وامان قائم رکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔

پھرجب پیغمبراسلام نے اقلیتی حیثیت سےزندگی بسرکرلی توایک دن وہ بھی آیاکہ آپ کو ہجرت ِمدینہ کا حکم دیاگیا، چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب، مدینہ ہجرت کرگئے، جہاں سے آپ نے اکثریتی ماحول میں اپنی زندگی کاآغازفرمایا۔ مہاجرین وانصارجو ایک دوسرے کے لیے بالکل نئے اوراجنبی تھے، ان کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا۔ یہ بظاہرمہاجرین وانصار کے درمیان ایک اخوت کارشتہ تھا مگرحقیقت میں یہ پیغام پوری انسانی برادری کے لیے تھا، جس کا اثریہ ہواکہ مہاجرین وانصار کےاس اخوت بھرے رشتے نے دوسرے انسانوں کوبھی دین اسلام قبول کرنے پرمجبور کردیا، لیکن آج ہم نے اس سبق کوبھی یکسرفراموش کردیاہے۔

اس کے بعدمیثاق مدینہ کا واقعہ پیش آیاجس میں تین جماعتوں کے درمیان آپسی عہدوپیمان کیاگیاکہ مسلمان، کفارومشرکین اوریہود سیاسی و سماجی اعتبارسےایک دوسرے کے معاون ومددگار اورمحافظ ہوں گے۔ اس وقت پیغمبراسلام مدینےمیں تھےاور مکہ کے برعکس اکثریت میں بھی تھے، اگرآپ چاہتے توجبروتشدداورزورزبردستی سےاقلیتی طبقات پر اپنادین مسلط کرسکتےتھے، جیساکہ آج بھی کچھ جماعتیں طاقت کے بل پراپنی بات منوانے میں لگی ہوئی ہیں۔ مگرآپ نے یہ طریقہ پسندنہ فرمایا اورکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیتی طبقہ سےمعاہدہ کیااور نہ صرف اہل مدینہ اوراس کے باشندوں کے لیے پُرسکون ماحول اورترقی کی راہیں ہموارکیں بلکہ کفارومشرکین کوبھی سیاسی و معاشرتی تحفظ فراہم کیا اور اپنےبہترین نظام حکمرانی سےپوری انسانی برادری کے لیےقابل رشک نمونہ پیش فرمایا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر باوجودکہ پیغمبراسلام اکثریت میں تھے، پھر بھی صلح کی راہ اختیارفرمائی، اور وہ بھی یکطرفہ شرائط پر، حالاں کہ اس طرح یکطرفہ شرائط کی بنیادپر صلح کرنابعض صحابہ کرام کو ناگوار بھی تھا، اس کے باوجودپیغمبراسلام نے کفارومشرکین کی یکطرفہ شرطوں کو ماناتو محض اس لیے کہ کچھ برسوں تک ہی سہی امن وامان تو قائم ہوگا۔

فتح مکہ کے موقع پرجب مکہ کا ہر فردپیغمبراسلام کے قبضے میں تھا، اس وقت ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ آپ مکہ میں فاتحانہ اورحاکمانہ شان سے داخل ہوتے لیکن اس کے برخلاف آپ جب مکہ میں داخل ہوئے توانتہائی عجزوانکساری کے ساتھ داخل ہوئے۔ انکساری کا یہ حال تھاکہ فاتح ہونے کےباوجودآپ کاسرجھکاہواتھااور آپ کی پیشانی جس قصوانامی اونٹنی پرسوار تھے اُس کے اگلے حصے سے ٹچ کررہی تھی۔ پھر یہ بھی پیغمبراسلام کے اختیارمیں تھاکہ اقلیتی طبقہ ہونے کی حیثیت سےجو نارواسلوک اورظلم کارویہ، مشرکین مکہ نے آپ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ اپنارکھاتھا اس کا بدلہ گن گن کر لیاجائے مگرآپ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ آپ اپنے اوراپنے اصحاب کے جانی دشمنوں سےانتقام لینےکے بجائےان کے لیےعام معافی کا اعلان کیااور انسانیت کی بقاوتحفظ کویقینی بناتے ہوئے یہ فرمایاکہ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے کہ وہی معاف فرمانے والاہے، جاؤ!آج کے  دن تم سب آزادہو۔ (زرقانی علی المواہب)اور ایک دن وہ تاریخی موقع بھی آیا جب پیغمبراسلام نے ہر طرح کی غیرانسانی حرکتوں پر پابندی عائدی فرمادی، اور ایک ایسا نظام قائم کیا کہ جس نے اقلیت واکثریت کے درمیان احساس برتری کے نشان ہی کومٹاڈالاکہ اب نہ کوئی عربی رہانہ کوئی عجمی، اورنہ کوئی سفیدرہانہ کوئی سیاہ، بلکہ سب کے سب انسانیت کے ایک اٹوٹ دھاگےمیں بندھ گئے۔

ہمارے خیال میں مواخات مدینہ، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے مواقع پرپیغمبراسلام نے انسانیت کی بقاوتحفظ میں جوبنیادی کردار اداکیا، دنیااس کی مثال پیش کرنے سے نہ صرف عاجزوبےبس ہے، بلکہ اس کا احسان، انسانیت کبھی نہیں چکا سکتی۔ غرض کہ ہم چاہے اقلیت میں رہیں یا اکثریت میں۔ بہرصورت پیغمبراسلام کی سیرت سےہم انسانوں کو بطور خاص سبق لینے کی ضرورت ہے، یعنی اقلیت میں رہیں توموقع ومحل کے اعتبار سے پہلےخود کو ثابت کریں، مصیبتوں میں صبروضبط سے کام لیں، افرادسازی کریں، اور اگر اکثریت میں رہیں تو ہر امیر-غریب، محتاج -غیرمحتاج اور طاقتور-کمزورسبھوں کے ساتھ عدل وانصاف اورایمان داری ودیانت داری کا مظاہرہ کریں۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    "ایک دوسرے کی خیرخواہی کرو۔ کسی کو دھوکہ اور دغا فریب نہ دو۔ جو چیزیں تمام لوگوں کے کام کی ہیں، ان کو اپنے پاس دبا کر نہ رکھو۔ صرف اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لو اور باقی اوروں کے لیے چھوڑ دو۔ معاملات میں انصاف اور نرمی سے کام لو۔ اپنے حق پر زیادہ زور مت دو۔ دوسرے کا حق فوراً ٹھیک ادا کرو۔ جھوٹ مت بولو۔ چغلیاں نہ کھاو غیبت نہ کرو۔ گالیاں نہ دو۔ فحش باتوں سے زبان گندی نہ کرو، ورنہ رفتہ رفتہ دل گندا ہوجائے گا۔ بڑوں کی عزت کرو۔ چھوٹوں پر شفقت کرو۔ اللہ کو ہر وقت یاد رکھو۔ اس کا ذکر کرو۔ ہر کام اسی کو سونپ دو۔ خواہ مخواہ کسی سے لڑائی نہ کرو۔ اوروں کے قصور سے درگزر کرو۔ اپنی خطاو ں کا اقرار کرو اور اس کی فوراً تلافی کرو۔ مال، دولت اور عزت میں دوسروں سے بڑھنے کی ہوس مت کرو۔ ہاں نیک کاموں میں سب سے آگے رہنے کی کوشش کرو۔ یتیموں بے کسوں اور غریبوں کی خبرلو۔ حاجت مند کی حاجت روائی کرو۔ امانت میں خیانت مت کرو۔ سخت دل اور بے درد مت بنو۔”
    عورتیں شروع سے مظلوم رہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح قدردانی کا تاج پہنایا اور فرمایا:
    ” عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو“۔ آپ کی ان تعلیمات پر اگر مسلمان اپنا اجتماعی نظام قائم کرلیں تو ہمارے معاشرے کے کتنے ہی سلگتے ہوئے مسائل حل ہوجائیں۔

تبصرے بند ہیں۔