انسان اور زمین کی حکومت (قسط 75)

رستم علی خان

چنانچہ طالوت نے سپاہی بھیجے کہ شبخون مار کر داود اور اس کے ساتھی عابدوں کو مار آو- اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت داود علیہ السلام اس شب عبادت گاہ سے باہر نکلے ہوئے تھے- تب سپاہیوں نے عبادت گاہ کے اندر جا کر تمام عابدوں کو قتل کر دیا- اور حضرت داود زندہ بچ گئے اور مطلب اس کا داود کو مارنے سے تھا- جب طالوت کو اس بات کی خبر ہوئی کہ عابد تمام مارے گئے ہیں تو اس کو پشیمانی اور ندامت نے آن گھیرا کہ اس نے ظلم کیا اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کا قتل ناحق کروایا-

چنانچہ تب مارے ندامت کے چاہا کہ حضرت داود کو بلوا کر ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دے اور عذر خواہی اپنی تقصیر کی کرے اور معافی طلب کرے- تب قاصدوں نے حضرت داود علیہ السلام سے جا کر کہا کہ آپ کو طالوت بادشاہ بلاتا ہے آپ ہمارے ساتھ چلئیے- وہ آپ سے اپنی تقصیر کی معافی چاہتا ہے- اور اپنا عہد جو اس نے میدان جنگ میں کیا تھا اسے پورا کرنا چاہتا ہے- حضرت داود علیہ السلام نے اس بات کو سن کر قاصدوں سے کہا کہ طالوت نے گناہ کبیرہ کیا ہے کہ بےگناہ مسلمان عابدوں کو مار ڈالا ہے- اور میرے بھی مار ڈالنے کا قصد کیا تھا- پس اب جب تک بعوض خون ہر ایک عابد کے جب تک ایک کافر کو اور بعض نے کہا کہ بعوض خون ایک عابد کے ستر کافروں کو نہ مارے گا تب تک میں وہاں نہ جاوں گا اور نہ اس کی تقصیر معاف کروں گا-

چنانچہ قاصدوں نے یہ باتیں جا کر طالوت بادشاہ سے بیان کیں- طالوت یہ باتیں سن کر اپنی غلطی اور کردار زشت سے اور بھی پشیمان ہوا- اور حضرت داود کا فرمان بجا لایا- لڑائی میں جب معرکے میں جا کر کھڑا ہوا تو اچانک کافروں کیطرف سے ایک تیر آیا جو اس کے سینے میں لگا اور پشت کیطرف سے نکل گیا- وہیں جان اس کی نکل گئی اور لشکر تمام اس کا ہزیمت اٹھا کر واپس لوٹا- جب حضرت داود کو طالوت کی موت کی خبر پنہچی تو آپ اس کے گھر آئے اور اس کی بیٹی سے شادی کر کے تمام سلطنت کے مالک ہوئے- اور بہ سبب ان کے صبر کے بادشاہی اور پیغمبری ان کو ملی- چنانچہ حق تعالی فرماتا ہے؛ "اور دی اللہ تعالی نے داود کو سلطنت اور حکمت یعنی پیغمبری-"

خبر ہے کہ حضرت داود علیہ السلام یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے- جب تحت سلطنت پر بیٹھے اس کے چالیس برس بعد پیغمبری ملی- اور قوت ان کو اللہ نے اس قدر عطا کی تھی کہ کوئی بادشاہ ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتا تھا- چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا؛ "اور یاد کرو ہمارے بندے داود صاحب قوت کو تحقیق وہ رجوع کرنے والا تھا بخدا یعنی زکر کرنے والا تھا-” اور دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛ "اور زور دیا ہم نے اس کی سلطنت کو اور دی ہم نے اس کو حکمت اور فیصلہ کرنے والی بات اور اللہ نے اس کو خلیفہ بنایا-” اور ایک جگہ فرمایا؛ "اے داود تحقیق ہم نے کیا ہے تجھ کو خلیفہ زمین میں پس حکم کرو درمیان لوگوں کے ساتھ حق کے- اور مت پیروی کر خواہش نفس کی پس گمراہ کر دیوے گی تجھ کو خدا کی راہ سے-

اور اللہ تعالی نے حضرت داود کو ایسا خوش آواز کیا تھا- جب آپ زبور پڑھتے تو آپ کی خوش الحانی سے بہتا پانی تھم جاتا تھا- مروی ہے کہ بہتر طرح کے الحان سے پڑھتے تھے- حوش و طیور، چرند و پرند، جمیع جانور ہوا پر پانی پر اور زمین پر کھڑے ہو کر سنتے- اور بیہوش ہو جاتے- اور پتیاں درختوں کی زرد ہو جاتیں- اور پتھر موم ہو جاتے اور پہاڑ لرزش میں آجاتے- اور ہر چیز ان کیساتھ خالق ارض و سما کی تسبیح پڑھا کرتی- چنانچہ حق تعالی فرماتا ہے؛ "اے پہاڑو اے جانورو رجوع سے پڑھو اور تسبیح کرو اس کے ساتھ-

کتاب زبور کو اللہ تعالی نے ان پر الہام سے نازل فرمایا تھا- اور ویسا الہام نہ جبرائیل پر تھا اور نہ میکائیل و اسرافیل پر تھا۔

چنانچہ بحسب خواہش حضرت داود کی اللہ تعالی نے ان کی ہتھیلی پر ایک نشان اس گناہ کا رکھ دیا جو زکر ہو چکا- تب حضرت داود اس نشان پر ہمیشہ نگاہ رکھتے- اور اپنی خطا ماضی کو نہ بھولتے- اور خوب زکر و استغفار کرتے- اور جب منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھتے تو اس ہتھیلی کو سامنے رکھتے اور سب کو دکھلاتے- تب سب افسوس کرتے اور گناہوں پر نادم ہوتے-

مروی ہے کہ ایک دن حضرت داود اپنے دربار میں عدل و انصاف والے تحت پر بیٹھے لوگوں کے فیصلے کرتے تھے کہ دو دہقان متخاصمین داد خواہ ان کے پاس آئے- ان میں سے ایک کے کسان تھا اور کھیتی باڑی کیا کرتا تھا- اور دوسرا چرواہا تھا اور بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتا تھا- چنانچہ کسان نے چرواہے کے خلاف فریاد پیش کی کہ اس کی بکریوں نے کسان کا سارا کھیت اور فصل برباد کر دی ہے- پس اسے اس کا انصاف چاہیئے- حضرت داود علیہ السلام نے بکریوں والے سے پوچھا کہ جو کچھ یہ شخص کہتا ہے کیا وہ سچ ہے–؟ چرواہے نے جواب دیا کہ کسان جو کہتا ہے وہ سچ ہے- چرواہے نے عرض کی کہ وہ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے کو لیٹا کہ اسے نیند نے آ لیا اور جب جاگا تب تک بکریاں کسان کا کھیت برباد کر چکی تھیں- حضرت داود نے بکریوں والے سے کہا چونکہ اس کی بکریوں نے کسان کی فصل برباد کی ہے اور یہ کہ کسان کا جتنا نقصان ہوا ہے چروایا اس کی قیمت بھرے-

چرواہے نے عرض کی کہ اس کے پاس سوائے بکریوں کے کوئی دولت املاک نہیں ہے سو وہ کس صورت کسان کے نقصان کی بھرپوری کر سکے گا- تب حضرت داود نے فرمایا کہ قیمت بکریوں کی اور کھیت کی ٹھہرائی جائے- چنانچہ جب قیمت دونوں کی ٹھہرائی تو کھیت کی قیمت بکریوں کی نسبت زیادہ ٹھہری- تب حضرت داود نے بکریوں کو صاحب زراعت کے حوالے کیا کہ ان کو بیچ کر اپنا نقصان پورا کرے- اور چرواہا حضرت داود کے پاس سے روتا ہوا نکلا-

تب حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر سات برس یا گیارہ برس تھی اور آپ دروازے پر بیٹھے کھیل رہے تھے- جب چرواہے کو روتے ہوئے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ تم کیوں روتے ہو- اس نے جواب دیا کہ حضرت داود نے فیصلہ کر کے میری بکریاں کھیت والے کو دے دیں ہیں- اور میرے پاس ان بکریوں کے سوا دوسرا کوئی زریعہ معاش نہیں ہے- تب حضرت سلیمان نے فرمایا کہ تم خلیفہ خدا کے پاس واپس جاو اور عرض کرو کہ اے خلیفہ خدا اگر آپ ہمارے اس فیصلہ میں غور کر کے انصاف فرماویں تو اس غریب کے حق میں بہتر ہو گا-

چنانچہ اس شخص نے بموجب حضرت سلیمان کے ارشاد کے جا کر حضرت داود سے وہی بات کہی- حضرت داود نے اس سے پوچھا کہ بھلا بتاو تو تم کو یہ بات کس نے کہی- تب اس نے جواب دیا کہ سلیمان نے- حضرت داود نے سلیمان کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ اے بیٹا جان ان کا فیصلہ تو ہو چکا پھر تمہارا اس کو میرے پاس واپس بھیجنے کی کیا وجہ ہوئی-

تب حضرت سلیمان نے فرمایا کہ اے بابا جان اگر آپ ان کے فیصلے پر غور فرما کر انصاف کر دیں تو اس غریب کی اس میں بہتری ہوتی ہے- تب حضرت داود نے فرمایا کہ تم کہو کہ اس مقدمے کا فیصلہ انصاف کیساتھ کیا ہو گا- چونکہ کھیت کی قیمت بکریوں کی قیمت سے زیادہ تھی اس واسطے کھیت والے نے بھی چاہا کہ فیصلہ دوبارہ ہو جائے- قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا؛ "اور داود اور سلیمان کو دی ہدایت ہم نے جس وقت دونوں حکم کرتے تھے بیچ کھیتی والوں کے، جس وقت چگ گئیں بیچ اس کے بکریاں ایک قوم کی اور روبرو تھا ہمارے ان کا فیصلہ پس سمجھا دیا ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو اور دونوں کو حکم اور علم دیا تھا-"

تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت داود علیہ السلام نے بکریاں دلوا دیں کھیتی والوں کو بدلہ ان کے نقصان کا- ان کے دین میں یوں تھا کہ چور کو غلام کر لیتے تھے- (جیسا کہ پیچھے بنی اسرائیل کے واقعات اور حضرت یوسف کے واقعہ میں بھی اس بارے بیان ہو چکا) لیکن حضرت داود نے اس کے موافق یہ حکم کیا کہ بجائے اسے غلام کرنے کے بدلہ دلوا دیا بکریاں اس کی- اور حضرت سلیمان اس وقت لڑکے تھے- جب انہیں خبر پنہچی تو انہوں نے جھگڑا اپنے پاس منگوایا اور بعد غور کرنے کہ فیصلہ یہ دیا کہ چونکہ بکریوں والے کی کل املاک بکریاں ہیں چنانچہ اگر اس کی بکریاں دلوا دی جائیں تو نقصان اس کا زیادہ ہے برعکس کھیت والے کے- تب حضرت سلیمان نے بکریاں کھیتی والے کے حوالے کیں کہ ان کا دودھ پئیو اور فائدہ حاصل کرو ان سے- اور کھیت بکریوں والے کے حوالہ کیا کہ کھیتی کو پانی وغیرہ دیا کرے- اور جب فصل جیسی تھی ویسی ہو جائے تو فصل کھیتی والے کے حوالے کر کے بکریاں اپنی واپس لے لے- اور اس میں دونوں کا کچھ نقصان نہ تھا۔

چنانچہ جب حضرت سلیمان نے ان دونوں فریقین میں یہ فیصلہ انصاف کا کیا تو اس فیصلے کو سب نے بہت پسند کیا کہ اس میں کسی کا کوئی نقصان نہیں تھا اور نہ ہی کسی پر کوئی بوجھ تھا- پس حضرت داود بھی سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلے سے بڑے خوش اور مطمئن ہوئے- اور بعد اس کے حضرت داود بنا حضرت سلیمان کی مشورت کے کوئی فیصلہ لوگوں کا نہیں کیا کرتے تھے-

اسی طرح تفسیر میں ایک اور واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک دن ایک بڑھیا حضرت داود علیہ السلام کے پاس آئی اور اس وقت حضرت سلیمان ان کے پاس نہیں تھے- چنانچہ بڑھیا نے آ کر حضرت داود کے سامنے اپنی فریاد پیش کی، بولی، اے خلیفہ خدا میں بڑھیا ضعیفہ عیالدار ہوں- میں اپنے عیال و اطفال کے لیے سارا دن محنت مزدوری کر کے اور دکھ اٹھا کر اپنے سر پر آٹا لیے آتی تھی کہ "ہوا” وہ سارا آٹا میرے سر پر سے اڑا کر لے گئی- اور میرے بچے بالے بھوکوں مرتے ہیں- آپ مجھے اس کا انصاف دلائیے اور ہوا سے میرا آٹا واپس دلا دیجئے-

حضرت داود نے فرمایا اے بڑھیا ہوش کر بھلا ہوا پر بھی کسی کا زور چلتا ہے جو میں ہوا سے اس بارے بازپرس کر سکوں- اور خود سوچ میں بھلا کیسے تجھے ہوا سے انصاف دلا سکتا ہوں- پس تو ایسا کر کہ جتنا تیرا نقصان ہوا کی وجہ سے ہوا ہے اس قدر آٹا مجھ سے لیتی جا- جب بڑھیا آٹا لیکر واپس ہوئی تو دروازے پر حضرت سلیمان علیہ السلام ملے- اور آپ نے اس سے پوچھا، اے بڑھیا تو کس واسطے آئی تھی- کوئی فریاد لیکر یا آٹا مانگنے کے واسطے-

بڑھیا نے جواب دیا کہ فریاد لیکر آئی تھی اور حضرت داود نے انصاف کیا اور مجھے اپنی طرف سے آٹا دلوا دیا- حضرت نے پوچھا بھلا بتاو تو تمہارا کیا معاملہ کیا ہے- چنانچہ اس بوڑھی عورت نے سب حال بیان کیا- تب حضرت سلیمان نے فرمایا کہ تم جاو واپس اور خلیفہ خدا سے کہو کہ اے نبی اللہ میں ہوا سے قصاص چاہتی ہوں آپ سے آٹا نہیں مانگتی ہوں- چنانچہ بڑھیا واپس ہوئی اور حضرت داود سے قصاص مانگا- تب حضرت نے فرمایا اے بڑھیا تو چاہے تو مجھ سے دس من آٹا لے جا لیکن ہوا سے قصاص نہ مانگ کہ میری حکومت اس پر ہرگز نہیں چلتی کہ اسے پکڑ مبگواوں اور اس پر فیصلہ صادر کروں-

چنانچہ بڑھیا ناچار ہو کر دس من آٹا حضرت داود سے لیکر خوش ہو کر جب دروازے پر آئی تو پھر حضرت سلیمان نے اسے روکا اور پوچھا کیا معاملہ ہوا- بڑھیا نے بیان کیا- حضرت نے فرمایا اے بڑھیا تو کیوں بغیر فیصلہ کے جاتی ہے- پھر جا کہ خلیفہ خدا سے کہو کہ مجھے ہوا سے بدلہ چاہئیے میں آٹا نہیں مانگتی ہوں- چنانچہ وہ بڑھیا واپس گئی اور اپنی بات دہرائی تو حضرت داود نے اس سے پوچھا کہ اے بڑھیا تجھے یہ بات کس نے بتائی- وہ بولی سلیمان نے- تب حضرت داود نے سلیمان کو بلایا اور کہا، اے بیٹے ہوا سے بدلہ اور قصاص دلانا کس صورت ممکن ہے کہ اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا- ہاں اگر صورت مجسم ہوتی تو البتہ اسے پکڑ منگواتا اور ضرور بدلہ دلواتا-

حضرت سلیمان نے کہا اے بابا جان اس کو پکڑ کر حاضر کرنا سہل بات ہے- آپ کی دعا کافی ہے- آپ دعا کریں اللہ کے حکم سے ہوا خود صورت شخص بنکر حضور میں حاضر ہو جاوے گی- میں ڈرتا ہوں اس بات سے کہ قیامت کے دن خدا کے حضور مواخذہ نہ ہو- وہ بڑھیا اگر آپ کی شکایت اللہ کے دربار میں کرے اور انصاف چاہے تو اس وقت آپ کیا جواب دیویں گے-

چنانچہ یہ سنکر حضرت داود نے اللہ کے حضور دعا مانگی اور حضرت سلیمان نے آپ کیساتھ آمین کہا- اسی وقت بحکم ربی ہوا صورت شخص ہو کر آپ کیسامنے پیش ہوئی- تب بڑھیا نے ہوا سے اپنے آٹے کا دعوی کیا- حضرت نے ہوا سے پوچھا کہ جو کچھ یہ بڑھیا کہتی ہے کیا وہ سچ ہے- ہوا نے جواب دیا اے نبی اللہ بیشک یہ سچ ہے- لیکن میں نے جو کچھ کیا خدا کے حکم سے کیا- حضرت نے پوچھا وہ کیا تھا سو اپنا معاملہ بیان کرو-

ہوا نے کہا، اے خلیفتہ اللہ دریا میں ایک قوم کی کشتی تھی- اس میں ایک سوراخ ہو گیا تھا اور قریب تھا کہ ڈوب جاتی کہ آب کے گرداب میں گری پڑی تھی- تب اس قوم نے اللہ کی حضور میں نذر مانی کہ اگر اللہ اس کشتی اور اہل کشتی کو بچاوے تو اس کشتی کا سارا مال جو اس میں موجود ہے سب خدا کی راہ پر فقیروں اور محتاجوں کو دیں گے- تب خدا نے مجھے حکم دیا کہ اس بڑھیا کے سر سے آٹا اڑا کر لیجاوں اور اس کشتی کے سوراخ کو اس آٹے سے بند کر دوں- چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی اور وہ کشتی غرق ہونے سے بچ گئی۔

تبصرے بند ہیں۔