انسان اور زمین کی حکومت (قسط 78)
رستم علی خان
وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو مشرق و مغرب تک سارے جہان کی سلطنت ملی اور تمام مخلوقات خدا آپ کی تابع فرمان ہوئیں- تب جناب باری میں عرض گزار ہوئے کہ الہی میرے دل کی آرزو ہے کہ ایک دن کے لیے تمام عالم کی مخلوقات کی جو کہ تیری آفریدہ ہے- جل تھل میں، دریا، خشکی، پہاڑ میں جتنی بھی مخلوقات ہیں جن و انس، دیو پری، حش و طیور، مور و ملخ، چیونٹی، مکھی، کیڑے مکوڑے الغرض جتنے ذی روح ہیں سب کی ضیافت کروں اور ایک دن کے لیے ان کے رزق کا انتظام کروں-
تب درگاہ الہی سے ندا آئی، اے سلیمان میں سب کی روزی پنہچاتا ہوں- میری موجودات مخلوقات بےانتہا ہیں تم سب کو کھانا نہیں کھلا سکو گے- تب حضرت سلیمان نے عرض کی، الہی تو نے مجھ کو بہت نعمت سے نواز رکھا ہے- تیری عنایت سے میرے پاس سب کچھ موجود ہے- پس اگر حکم ہو تو میں ایک دن کے لیے ساری مخلوقات کے طعام کا انتظام کروں اس میں سے جو تو نے مجھے عطا کر رکھا ہے- تب حکم ہوا اے سلیمان اگر تو کرنا چاہتا ہے تو کر دیکھ لیکن میری پیدا کردہ مخلوقات کو میرے سوا رزق پنہچانا کسی کے بس میں نہیں-
القصہ حکم ملنے کے بعد حضرت سلیمان نے دیووں کو حکم کیا- طعام کے واسطے ایک میدان بہت وسیع و عالیشان دریا کے کنارے منتخب کیا گیا- دیووں نے اول اس میدان میں موجود تمام جھاڑ جھٹکار کو وہاں سے صاف کیا میدان کو ہموار اور آراستہ کیا گیا جھاڑو دئیے گئے- الغرض اس میدان کو صاف ستھرا کر کے اس میں بچھونا کیا گیا- اس سب میں آتھ مہینے کی مدت لگی-
بعد اس کے دیووں کو حکم ہوا انہوں نے مشرق سے مغرب تک جتنا اسباب کھانے کا مہیا تھا سب وہاں لا جمع کیا- کھانا بنانے کے لیے سات لاکھ دیگیں اور ہر ایک دیگ ستر گز لمبی چوڑی اور ایک ایک لگن مثل تالاب کے دیووں نے تیار کی تھی- یہ قصص النبیاء میں لکھا ہے اور جامع التواریخ میں لکھا ہے کہ دو ہزار سات دیگ مسافت میان دو کنارہ ہر دیگ کی ہزار گز اور ایک لگن مثل تالاب کےدیووں نے بنائی تھی- چنانچہ ارشاد ہوا، "بناتے تھے سلیمان کے واسطے جو کچھ چاہتا قلعوں سے اور ہتھیاروں سے اور تصویروں سے اور لگن مانند تالاب کے اور دیگیں ایک جگہ دھری رہنے والی”-
مروی ہے کہ بائیس ہزار گائیں موٹی تازی صحت مند اس ضیافت کے واسطے زبح ہوئیں تھیں- اور باقی اشیائے ضیافت کا قیاس اسی حساب سے لگایا جا سکتا ہے- الغرض دیووں اور جنوں نے کھانے کا مکمل انتظام کیا- جب کھانا تیار ہو گیا تو جن و انس و حیوانات سب کو اس میدان وسیع میں بٹھایا- اور ہوا کو حکم دیا کہ تحت حضرت سلیمان کا اس میدان میں دریا کے اوپر ہوا پر معلق رکھے تاکہ مخلوقات اسے دیکھیں اور حضرت سلیمان بھی تمام مخلوقات پر نظر رکھیں اور ضیافت کرتے ہوئے دیکھیں-
الغرض اس وقت ایک مچھلی دریا میں سے نکلی اور حضرت سلیمان سے عرض کی، اے حضرت خدا نے مجھ کو بھیجا ہے کہ آج تم نے تمام مخلوقات کا کھانا تیار کیا ہے- میں بہت بھوکی ہوں اول مجھ کو کھانے دیجئے- حضرت سلیمان نے فرمایا زرا صبر کر، سب کو آ لینے دو- پھر سب کے ساتھ جتنا کھا سکو کھائیو اور آسودہ ہو کر جائیو- اس نے عرض کی اتنی دیر میں باہر نہیں ٹھہر سکتی کہ سب کے آنے کا انتظار کروں آپ مجھے پہلے کھلا دیجئے-
چنانچہ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ اگر تو اتنی دیر نہیں ٹھہر سکتی تو اس میں سے تو جتنا چاہے کھا لے- پس جو کچھ کھانا اس میدان میں موجود تھا مچھلی سب ایک ہی لقمے میں کھا گئی- اور پھر عرض کی اے سلیمان مجھے اور کھانا چاہئیے میں ابھی بھوکی ہوں- حضرت سلیمان اس کے حال سے متعجب ہوئے اور فرمایا، اے مچھلی میں نے تمام مخلوقات کے واسطے یہ کھانا تیار کیا تھا اور تو سب کھا گئی- اور ابھی بھی کہتی ہے مجھے اور چاہئیے- مچھلی نے عرض کی اے حضرت میرا ہر روز کا کھانا تین لقمے ہے جو اللہ کی طرف سے مجھے ملتا ہے- جو تم نے تیار کیا وہ میرا ایک لقمہ تھا پس دو لقمے کھانا مجھے اور چاہئیے تب میرا پیٹ بھرے گا-
حضرت سلیمان نے فرمایا اب تو کچھ باقی نہیں بچا جو کچھ تھا سب تم نے کھا لیا اور ابھی باقی تمام مخلوق بھوکی بیٹھی ہے- تب مچھلی نے کہا، اے سلیمان میرا اللہ روز میرا پیٹ بھرتا ہے جبکہ تمہاری ضیافت میں آج میں بھوکی رہی- اور اگر تم کھانا نہیں دے سکتے تو لوگوں کو ناحق بلوایا اور تکلیف دی- حضرت سلیمان مچھلی کی یہ بات سنکر بیہوش ہوئے- بعد ایک ساعت کے ہوش آئی تو سر سجدے میں رکھ کر بارگاہ الہی میں مناجات کی- کہنے لگے، یا الہی ! میں نے قصور کیا اور نادانی کی تیری درگاہ میں- توبہ کی میں نے اپنی نادانی سے، بیشک روزی دینے والا مجھے اور سارے جہان کو تو ہی ہے- میں نادان اور مسکین ہوں دانا اور توانا تو ہی ہے-
کہتے ہیں سب خلائق جو اس دن مدعو تھی بھوکی رہی- روایت ہے کہ اللہ تعالی نے یہ دریائی جانور بھیجا کہ جو ایک ہی لقمے میں سب کھا گیا تاکہ قدرت اور عجز و توانائی سلیمان کی اللہ تمام مخلوقات کو دکھا دے-
مروی ہے کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے تحت پر بیٹھے ہوا پر جاتے تھے- جو تحت دیووں نے ان کے واسطے بنایا تھا- اور ہزار وزیر ان کی ملازمت میں کرسیوں پر سامنے بیٹھے ہوئے تھے- ان میں حضرت سلیمان کا ایک وزیراعظم کہ نام اس کا آصف دیو تھا وہ بھی ساتھ تھا- باقی غلام دیو تحت کے گردبگرد مودب کھڑے تھے- اور ہوا تحت کو اونچا اڑائے لےے کر جاتی تھی اور پرند تمام ہواوں کے ان کے سروں پف سایہ کیے ہوئے تھے- فرشتوں کی تسبیح حضرت سلیمان کے کانوں تک پنہچی کہ وہ کہتے تھے الہی تو نے سلیمان کو جیسا ملک و حشم دیا ایسا کسی اور کو جن و بشر میں نہیں دیا- جناب باری سے ندا آئی، اے فرشتو بیشک میں نے سلیمان کو عظیم سلطنت و بادشاہت عطا فرمائی اور ایسی بادشاہت کسی دوسرے کو نہ دی- اور نبوت عطا فرمائی لیکن سلیمان میں اس بات کا زرا برابر بھی کبر و غرور نہیں- اور اگر ان کو زرا بھر بھی غرور ہوتا تو میں ان کا تحت ہوا پر سے الٹ کر ان کو زمین پر دے مارتا اور نیست و نابود کر دیتا- پس سلیمان علیہ السلام یہ کلام سن کر سجدہ شکر بجا لائے اور اللہ کی بزرگی و کبریائی بیان کرنے لگے-
تب ہوا نے آپ کے تحت کو اس زمین پر لیجا کر رکھا جہاں چیونٹیوں کی بستی تھی- جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا؛ ” یہاں تک کہ جب پنہچے سلیمان چیونٹیوں کے میدان پر ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو گھس جاو گھس جاو اپنے گھروں میں نہ پیس ڈالے تم کو سلیمان اور اس کا لشکر اور ان کو خبر بھی نہ ہو-” پس چیونٹیوں کی سردار کی یہ بات سنکر حضرت سلیمان مسکرائے اور فرمایا کہ یہ بھی اپنی رعیت پر شفقت اور مہربانی کرتی ہے- تب اس کو پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور پوچھا کہ اے چیونٹیوں کی سردار تم نے اپنے لشکر سے یہ کیوں کہا کہ سلیمان آتا ہے اپنے غاروں میں گھس جاو- بھلا تم نے مجھ سے ایسا کونسا ظلم دیکھا ہے-
تب چیونٹی نے کہا اے سلیمان ہم نے آپ سے اور آپ کے لشکریوں سے ایسا کوئی ظلم نہیں دیکھا- مگر اس واسطے کہ چیونٹی حقیر سی مخلوق ہوتی ہے کہیں غلطی سے آپ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کے نیچے آ کر نہ کچلے جائیں اور آپ کو تو خبر بھی نہ ہو اور میری رعایا کی ناحق جان چلی جائے- اس لیے میں نے احتیاطا یہ بات کہی کہ اپنے گھروں میں گھس جاو-
حضرت سلیمان اس کی بات سے بڑے متعجب ہوئے کہ ایک ننھی سی مخلوق کس طرح خوش اسلوبی سے امور سلطنت سنبھالے ہوئے ہے- چنانچہ اس سے پوچھا کہ کیا تم ان پر ہمیشہ ایسے ہی شفقت کرتی ہو- چیونٹیوں کی سردار نے جواب دیا اے حضرت یہ میری قوم اور میرا کنبہ ہے- ان کی خوشی سے میری خوشی ہے اور ان کے غم سے میرا غم اور ان کی غمخواری مجھ پر واجب ہے- اللہ نے مجھ کو ان پر اس واسطے سردار کیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی زمین مر جائے تو اسے اٹھا کر اس کے مسکن تک پنہچاتا ہوں- اور اسی واسطے ان کو خبردار کر رہا تھا کہ آپ تو لاعلمی میں انہیں کچل کر گزر جاو گے اور بعد میں مجھے ان کو ان کے مسکن تک پنہچانا پڑتا-
تب حضرت نے پوچھا کہ یہ تو بتاو کہ ہر وقت تمہارے ساتھ کتنی چیونٹیاں رہتی ہیں- اس نے جواب دیا کہ چالیس ہزار نقیب اور ہر نقیب کیساتھ چالیس ہزار چوبدار ہیں- حضرت نے پوچھا کہ ان کی تعداد کیسے معلوم رکھتے ہو- اس نے کہا کہ خدا نے دماغ صرف آپ کو ہی عطا نہیں کیا بلکہ اس خاکسار کو بھی دماغ دیا ہوا ہے-
تب حضرت سلیمان نے فرمایا یہ بتاو کہ سلطنت تیری بہتر ہے یا میری- تب اس نے کہا کہ میری بادشاہی بہتر ہے تمہاری بادشاہی سے- حضرت نے پوچھا وہ کس طرح- کہنے لگی کیونکہ ہوا اٹھاتی ہے تمہارے تحت اور بساط کو اور تحت اٹھاتا ہے تم کو کہ تم اس پر بیٹھتے ہو- یہ اتنا تکلف ہے تمہاری بادشاہی میں- چیونٹی کی یہ بات سنکر حضرت سلیمان ہنس پڑے اور پوچھا کہ تم کس طرح جانتے ہو تم سے یہ بات بھلا کس نے کہی- تب چیونٹیوں کی سردار نے کہا اے سلیمان اللہ نے عقل و بصیرت تمہیں کو نہیں سونپی بلکہ ہم ناتوانوں کو بھی کچھ عنایت کی ہے- پھر کہنے لگی اگر اجازت ہو تو کچھ مسئلے پوچھوں- حضرت نے فرمایا پوچھو کیا پوچھنا ہے۔
چنانچہ چیونٹی نے کہا اگر حکم ہو تو چند مسلئے آپ سے پوچھوں- حضرت سلیمان نے فرمایا پوچھو کیا پوچھنا ہے- تب شاہ مور نے کہا آپ نے اللہ سے سوال کیا تھا چنانچہ ارشاد ہوا، "کہا اے پروردگار مغفرت کر میری اور بخش مجھ کو ایسا ملک کہ نہ لائق ہو کسی کو میرے پیچھے تو ہے سب سے زیادہ بخشنے والا-” اے حضرت آپ کے اس سوال سے بو حسد کی آتی ہے- پیغمبروں کو یہ حسد نہ ہونا چاہئیے- کیونکہ خدا مالک ہے سارے جہان کا وہ جسے چاہے بادشاہی دے اور جسے چاہے نہ دے- اور یہ نہ کہنا چاہئیے کہ اے پروردگار میرے سوا کسی کو بادشاہی نہ دیجئو- کیونکہ یہ بات کہنا پیغمبروں کی شان سے بعید ہے-
حضرت سلیمان چیونٹی کی اس بات سے کچھ خفا ہوئے- چیونٹی نے بولی اے حضرت راست بات یہی ہے اور سچائی سے بیزار نہیں ہونا چاہئیے- کہنے لگی ایک بات اور پوچھتی ہوں- آپ اس کا جواب دیجئے کہ خدا نے آپ کو جو انگشتری دی ہے کہو تو اس کا کیا بھید ہے- حضرت نے فرمایا میں جانتا ہوں- لیکن تم بیان کرو جو کرنا چاہتی ہو- چیونٹی بولی کہ خدا نے آپ کو سلطنت عطا کی ہے قاف سے قاف تک وہ سب ایک نگینہ کی قیمت ہے- تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ دنیا کی کچھ حقیقت نہیں-
اور یہ بتاو کہ اللہ نے جو ہوا کو آپ کے تابع کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے- کیا آپ اس بارے آگاہ ہیں- حضرت نے فرمایا نہیں تم کہو- چیونٹی بولی کہ اس کا بھید یہ ہے کہ بعد مرگ دنیا تمہیں ہوا جیسی معلوم ہو گی- حضرت چیونٹی کی اس بات کو سنکر بہت روئے اور فرمایا کہ تم نے سچ کہا کہ دنیا واقعی ہوا جیسی ہے- پھر چیونٹی نے کہا کیا آپ کو سلیمان کے معنی معلوم ہیں- حضرت نے فرمایا نہیں تم کہو- چیونٹی بولی سلیمان کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں دل مت لگا کہ ہر ساعت موت قریب ہے-
حضرت نے چیونٹی سے فرمایا کہ مجھے تو بڑی دانا و عقلمند ہے- مانگ مجھ سے کیا مانگتی ہے- بادشاہوں کا یہ اصول تھا کہ جب کسی سے کوئی بات دانشمندی کی سیکھتے تو انعام سے نوازتے- پس سلیمان کی بات سنکر چیونٹی بولی اے سلیمان تو خود مختاج ہے اور دینے والی زات تو اللہ کی ہے تو مجھے کیا دے گا- حضرت نے فرمایا میری سلطنت قاف سے قاف تک ہے اور تحت میرا ہوا اڑاتی ہے اور تمام مخلوقات میری تابع ہیں- تو مانگ جو مانگ سکتی ہے- چیونٹی بولی اے سلیمان اگر تو دے سکتا ہے تو میری عمر جو اللہ نے مقرر کی ہے اسے بڑھا دو اور جو رزق خدا نے میرے لیے لکھا ہے اس میں تھوڑا زیادہ کر دو-
حضرت سلیمان چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور کہا تو مخلوق تو بہت چھوٹی ہے لیکن عقلند ہے کہ وہ چیزیں مانگتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں- پھر فرمایا کہ مجھ کو کچھ نصیحت کر- چیونٹی بولی، تم کو اللہ نے نبوت اور جہان کی بادشاہت دی ہے- لازم ہے کہ تم رعیتوں پر مہربانی کرو اور عدل و انصاف سے رعیت کو شاد رکھو- اور ظالم سے مظلوم کی داد لو- میں بیچاری ضعیفہ مسکین ہوں پھر بھی اپنی رعیتوں کی روز خبر لیتی ہوں- بار اٹھاتی ہوں کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے-
پس سلیمان نے یہ سنکر اجازت چاہی تو چیونٹی بولی کے کچھ کھائے بنا جانے نہ دوں گی- جو کچھ اللہ نے ہم کو عنایت کیا ہے اس میں سے تناول فرمائیں- اور ایک ران ٹڈی کی لا کر رکھی- حضرت اسے دیکھ کر ہنسے اور فرمایا یہ ران میرے اتنے بڑے لشکر کا کیا بنائے گی- تب چیونٹی بولی اے حضرت اس کو کم نہ جانئیے بلکہ اللہ کی قدرت پر نظر رکھئیے-
منقول ہے کہ سلیمان اور ان کا لشکر اس کو کھا کر آسودہ ہوئے پھر بھی کچھ بچ رہی- یہ حال دیکھ کر حضرت سلیمان متعجب ہوئے اور سجدے میں گر کر اللہ کی تعریف و توصیف بیان فرمائی۔
تبصرے بند ہیں۔