مسئلہ کشمیر: بہتے لہو کے تناظر میں

شہباز رشید بہورو

مجھے ذاتی طور پر نہ اقوام متحدہ،  نہ مغربی ممالک، اور نہ ہی مسلم ممالک سے کوئی توقع ہے کہ وہ کشمیر میں ہمارے گرتے لہو کی روک تھام کے لئے کوئی موئثر اقدام کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں جاری ظلم و سفاکی سے دنیا کا کون سا ملک واقف نہیں لیکن مظلوموں کو نظر انداز کرنے کی خبیث عادت سے پوری دنیا مجبور ہے۔ اس عادت کی عادی دنیا خود غرض و بے حس بن چکی ہے اور اسی  خود غرضی و بے حسی نے انسانی خون کو بارودی مواد کی پیاس بجھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ وحشی جانور اپنی حقیقی بھوک کو مٹانے کے لیے کبھی کبھار انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں  لیکن آج جس ظلم کا راج ہے اس کے تحت انسانی خون کو  گولیوں کی آگ کو بجھانے کو طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

 مسئلہ کشمیر بھی اس نوعیت کی حقیقی داستان اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پیچیدہ پس منظر میں بھارت کا کشمیر میں جارحانہ کارروائیاں بھارتی سیاستدانوں کی جہالت و پسپائی کا مظہر ہے۔ بھارت کشمیریوں کا دل جیتنے میں بری طرح ناکام ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر انسانیت کا عدم درد و احساس اور انسانی اقدار کی سرے سے نفی کرنے کے نتیجہ میں کھڑا کیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر تعصب،  ضد،  احساسِ کمتری،  وعدہ برخلافی،  جھوٹ،  فریب،  غداری،  ضمیر فروشی اور چنگیزیت کا مجموعہ ہے۔ مسئلہ کشمیر مستقبل میں بھارت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اس کی تاریخ میں ایک اہم ترین باب ہے جس میں بھارت کے نقوشِ مستقبل کو ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔

 یہ دنیا صرف مادی مواد کے بدلاو کا ہی نام نہیں کہ یہاں پر صرف مادہ اور مشین کے آپسی تعامل کا چلن چلتا رہے  بلکہ جذبات،  خواہشات اور احساسات کا ایک موئثر حلقہ ہے جس میں تھوڑی سی دخل اندازی بھی انسانی دنیا کے اندر انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ کشمیری عوام کے جذبات،  خواہشات اور احساسات کے ساتھ ایک صدی سے جو کھلواڑ ہو رہا ہے وہ دنیا کی عدالتوں میں منتظرِ انصاف تو ہے ہی اور نہ ہی ان سے کوئی امید ہے لیکن الله کی عدالت میں اس کا فیصلہ ہو چکا ہے  بس اب انتظار صرف اس کے نزول کا ہے۔ فیصلہ کا نزول مظلوم عوام کی طرز حیات کے بدلنے کی منتظر ہے جیسے علامہ اقبالؒ کا ایک شعر اسی موضوع سے ملتا جلتا ہے؛

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

یہ خون کی ہولی جو کھیل رہا ہے وہ ضرور اسی خون میں غرق ہو کر  تلچھٹ میں تبدیل ہو جائے گا پھر اس کے ابھرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

کشمیریوں کے خون کی ہولی میں میرے خیال سے دنیا کے اکثروبیشتر ممالک ملوث ہیں کیونکہ کوئی بھی ملک اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام نہیں اٹھا پا رہا ہے۔ آج اگر پوری دنیا کشمیریوں کے گرتے لہو کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھ رہی ہے لیکن یہ لہو ضرور ایک دن ان پر سیلاب کی مانند امڈ کر آگر پڑے گا پھر اس وقت اس سے بچنے کے لیے دنیا ہاتھ پاؤں مارے گی لیکن امداد کا کوئی بھی ہاتھ نہیں پائیں گے۔

کشمیر میں جاری قتل و غارت بھارت کے لیے تاریخ کے ایک اہم درس کو دھرانے کا اشارہ دے چکا ہے کیونکہ پوری انسانی تاریخ میں جو ملک،  قوم یا فرد بھی ظالم رہا ہے تو اسے تاریخ نے سبق سکھا کے ہی اپنے آپ کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے یہاں پر جو جیسا کرے ویسا ہی کمائے گا کا اصول کارفرما ہے۔ کسی بھی قوم یا فرد کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری تمام چنگیزیاں معاف کردی جائیں گی۔ کشمیر میں قتل وغارت انسانی لہو کی پامالی اور انسانیت کی تباہی ایک خطرناک انسانی بحران ثابت ہو چکا ہے۔ اس بحران کا اثر عالمی سطح پر ظاہر ہو چکا پے۔ وادی میں ہر طرف ہر دن ماتم برپا ہوتا ہے،  ہرطرف چیخ و پکار اور دہشت کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس ظلم نے ظلم کے انسیکلوپیڈیا (encyclopedia of brutality) کو جنم دیا ہے جس میں ظلم کی ہر نوعیت کے متعلق جانکاری  حاصل ہو سکتی ہے۔ کشمیر کی ایک صدی کی تاریخ دراصل ظلم کی تاریخ ہے اور اب اس تاریخ میں مزید وحشیانہ انداز کا مواد بھرا جارہا ہے۔

مظلوم پر ظلم ایک دھماکہ خیز مواد کی ذخیرہ اندوزی کا کام ہے جو اپنے متعین وقت پر تمام تر کنٹرول کے باوجود پھٹ پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے چاہے جس نوعیت کی ناسازگاری پیدا ہوجائے اگر چہ اس میں تھوڑا بہت حصہ مظلوم کی طرف سے بھی ہو لیکن واضح ترین مجرم ظالم ہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے شمالی ایشیاء کے اس خطے میں آج یا مستقبل میں جو بھی کچھ ہنگامہ پیدا ہوتا ہے اس کا ذمہ دار مظلوم کشمیری قوم نہیں ہوسکتی بلکہ ظالم کا ذمہ دار ہونا بیّن ہے۔ بھارت سرکار کو عصبیت،  لالچ اور تنگ نظری دور کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آگے آنا چاہئے۔

مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ان غیر اخلاقی عناصر سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر کوئی بھی بات چیت حل تو دور کی بات حل کی طرف بھی ایک قدم کے طور پر تسلیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ اخلاق کی عدالت میں ہر چیز کا فیصلہ ہو تو فیصلہ صحیح ہو سکتا ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے متعلق بات چیت ان غیر اخلاقی عناصر کے ماحول میں ہوتی ہے جس کا نتیجہ کبھی بھی اخلاقی حدود کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ میں حیران ہوتا ہوں کشمیر کے سیاسی لیڈران،  پاکستان کی سیاسی لیڈران اور بھارت کے حکمرانوں پر ان کی کرسیوں نے حکومت کی ہے اور اس کرسی کو بچانے کے لیے انہوں نے ضمیر فروشی کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ انسان کی اخلاقی تاریخ میں ایک سیاہ صفحہ ہے۔ ایک بے جان چیز اور حقیر چیز کی حفاظت میں اپنے دل وجان کی محبتوں کو منسلک کر کے اس کی حفاظت میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا،  انسانیت کا ستیاناس کر کے رکھ دیا گیا،  خون کی ہولیاں کھیلی گئیں اور انسان ہونے کے احساس کو مجروح کر دیا گیا۔

مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ شرفِ انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے،  انسانی اقدار کی قدردانی کا مسئلہ ہے اور سچائی کی بلندی کا مسئلہ ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں حکمران بدلتے رہتے ہیں لیکن خونِ انسان کی حرمت محکم اور اٹل ہے اس کا کسی اقتدار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کہ اقتدار میں آنے والی حکومت اس کی اجازت دے تو یہ حلال ہو گیا۔ بلکہ اس کا مطلق ہونا اپنی جگہ سالم ہے۔ وقت اس قسم کی حماقت کا حساب ضرور لیتا ہے،  وقت جیسی شئے ایک نازک پردہ ہے جس پر انسانوں کی یک ذرا بھر جنبش بھی ایک نشان چسپاں کر دیتی ہے جو ردعمل میں اپنا کام کردیتا ہے۔ فرض کیجیے کسی انسان نے راستے سے پتھر اٹھایا وقت نے اس کے اس عمل کو محفوظ کر لیا اور ردِ عمل میں اسے دل کا اطمینان اور لوگوں کی دعائیں سمیٹنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے برعکس اگر کسی نے راستہ بند کیا تو وقت کی فلم جیسی پرت نے اس کا یہ فعل بھی محفوظ کر لیا اور ردِ عمل میں اس کے دل میں اسے مجرم ہونے کا احساس اور لوگوں کی بد دعائیں دلوائی۔ اس لیے وقت ملنے کی قدر کی جانی چاہئے لیکن بھارت جس طریقے سے کشمیر میں جارحیت کے ٹینک داخل کرچکا ہے اور ظلم کی جو مثال قائم کر رہا ہے وقت اس کا جواب دینے کے لیے اب تیار نظرآرہا ہے۔

اس دنیا میں قدرت کا یہ ایک اصول ہے کہ ہر ایک کو اس کے کئے ہوئی کی سزا مل جاتی ہے لیکن اس سزا کے ملنے کے وقت کے دور یا نزدیک ہونے کا معاملہ ایک مسئلہ ہے جس کے تعین کرنے کی جسارت انسان کرے تو وہ اس کی ایک حماقت ہے۔ لیکن اس وقت کو نزدیک کرنے میں مظلوم عوام کی اخلاقیات ایک اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اگر مظلوم عوام کا اخلاقی پہلو مظبوط ہے تو نتیجہ آنے میں دیر نہیں لگتی اور اگر اس میں کمزوری ہے تو وقت اس کے درست ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ اس لئے مظلوم کو جلد از جلد اپنی اخلاقی حالت درست کرنی چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔