انسان اور زمین کی حکومت (قسط 82)

رستم علی خان

چنانچہ بلقیس کے ایلچی حضرت سلیمان کے پاس سے واپس بلقیس کی طرف آئے اور بلقیس سے حضرت سلیمان کے علم و عرفان اور معجزے کرامتیں بیان کیں اور وہاں گزرنے والا تمام حال اور بلقیس کی شرائط کو پورا کرنے کے بارے بیان کیا- تب بلقیس نے جانا کہ سلیمان واقعی پیغمبر ہیں سو اس نے خود حضرت سلیمان کی خدمت میں جانے اور اطاعت قبول کرنے کی بابت اپنے درباریوں کو بتایا- اور اسباب سفر کا اس نے تیار کیا لونڈی اور لشکر بہت ساتھ لیا- تخت اور دولت ہفت خانے میں رکھ کر ہفت دربند کر کے کنجیاں اپنے ساتھ رکھیں- اور بعضی روایات میں آیا ہے معتمدالیہ کے سپرد کیں اور اسے حکم کیا کہ تخت جڑاو اور دولت یہ مدار سلطنت ہے سو ان کو اچھی طرح خفاظت سے رکھئیو- اور خود حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونے کا عزم کیا-

ادھر بلقیس نے رخت سفر تیار کیا ادھر ہوا نے جلدی سے حضرت سلیمان کو خبر پنہچائی کہ بلقیس ملکہ شہر سباء سے ازخود حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کو وہاں سے نکل پڑی ہے- اور ہوا سے آگے دیووں نے حضرت سلیمان سے قبح بلقیس کی بیان کی تھی کہ اس کی ساق پر بال بہت ہیں اور یہ کہ وہ کم عقل بہت ہے- کیونکہ ماں اس کی پریزاد سے ہے اور پری کی عقل کم ہوتی ہے- پس دیو سلیمان سے یہ بات کہنے کے بعد ڈرے کہ اگر ہماری یہ بات غلط نکلی تو سلیمان علیہ السلام ہمیں سرزنش کریں گے اور عذاب سخت دیں گے-

چنانچہ حضرت سلیمان نے دیووں کی بات کی آزمائش کرنے کے لیے بلقیس کی آمد کے راستے میں اپنے تخت کے سامنے ایک خوض بنوا کر اس پر ایک پل شیشے کا تیار کروایا اور اس میں مچھلی اور مرغابی وغیرہ طلسم سے بنوا کر اس میں رکھوا دئیے- اور وہ خوض ایسا تھا کہ پانی شیشے کے پل کے اوپر سے ظاہر ہوتا اور اس میں تیرتی مچھلیوں اور مرغابیوں کو دیکھ کر گمان ہوتا گویا ایک خوض صاف شفاف پانی سے لبریز ہے اور اس میں مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں- اور ایسا حضرت سلیمان نے اس لیے کیا کہ بلقیس جب اس پر آسے گی تو یقینا دھوکہ کھائے گی اور خوض میں پانی دیکھ کر اس میں اترنے سے پہلے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھائے گی جس سے اس کی پنڈلیوں پر بال اگر ہوئے تو ظاہر ہو جائیں گے-

دوسرا حکم حضرت سلیمان نے یہ جاری کیا کہ تم میں سے کون لائے گا بلقیس کا تخت میرے پاس اس سے پہلے کہ وہ مسلمان ہو کر میرے پاس پنہچے- تب یہ حکم سن کر جنوں کے ایک بڑے سردار نے کہا اے سلیمان میں بلقیس کا تخت لے آوں گا تمہارے پاس اس سے پہلے کہ تم اپنی محفل برخاست کر کے یہاں سے اٹھو میں تخت کو تمہارے پاس باامانت پنہچا دوں گا- اور ایسا اس واسطے کہا کہ بلقیس کے تخت میں ہیرے جواہرات بہت لگے تھے سو اس جن نے کہا کہ جس حالت میں اٹھاوں گا ویسے ہی آپ کی خدمت میں پنہچا دوں گا-

اس سردار جن کی بات کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ نہیں بلکہ کوئی ایسا ہے جو اس سے بھی پہلے لے آوے- تب آپ کے وزیر دیو آصف بن برخیا نے کہا اے حضرت میں تخت بلقیس کا آپ کے پاس پنہچا دوں گا ایک پلک میں- چنانچہ ارشاد ہوا؛ ” کہا ایک شخص نے نزدیک اس کے تھا علم کتاب (یعنی اسم اعظم اللہ کا وہ جانتا تھا) بولا میں لے آوں گا تخت اس کا تیرے پاس اس سے پہلے کہ پھر آوے طرف تیرے نظر تیری” یعنی آپ کسی جانب نظر کریں اور اس سے پہلے کہ آپ کی نظر واپس پلٹے میں تخت آپ کے سامنے لا حاضر کروں گا-

چنانچہ حضرت کا حکم ملنے کے بعد آصف نے تخت بلقیس ایک ہی ساعت میں آپ کے سامنے لا حاضر کیا- حضرت سلیمان نے حکم دیا کہ اب اس تخت کا روپ بدل دو تاکہ ہم دیکھیں کہ بلقیس کچھ سوجھ بوجھ بھی رکھتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو کم عقل ہوتے ہیں اور کسی بارے کچھ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے- چنانچہ دیوں نے بلقیس کے تخت کے جڑاو کو اکھاڑا اور پھر سے اسے اور بھی قرینے سلیقے سے جڑا اور اس میں کچھ اور چیزوں کو جوڑا اور اس سے حضرت سلیمان کا مقصد بلقیس کو اپنا معجزہ دکھانا تھا اور اس کی عقل اور سمجھ کی آزمائش کرنا مقصود تھی کہ وہ اپنی چیز کی پہچان رکھتی ہے یا نہیں اور یہ کہ تخت کی پرکھ کر سکے گی یا نہیں- چنانچہ دیووں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ انہیں حکم دیا گیا تھا۔

چنانچہ مزدور دیووں نے حضرت سلیمان کے حکم کے مطابق بلقیس کے تخت میں چند تبدیلیاں کر دیں- جب بلقیس حضرت سلیمان کے محل میں پنہچی تو آپ کے تخت کے سامنے بنے ہوئے طلسم کے خوض جس پر شیشے کا پل بنوایا گیا تھا اس کو دیکھ کر دھوکہ کھا گئی اور سمجھی کہ یہ پانی ہے- تب اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا تاکہ پانی میں اترنے سے کپڑے نہ بھیگ جائیں- تب حضرت سلیمان نے دیکھا کہ اس کی ساق پر کوئی بال نہیں ہیں اور دیو کی بات غلط ہے-

اور ایک تفسیر میں یوں بیان ہوا ہے کہ جب بلقیس حضرت سلیمان کی خدمت میں پنہچی تو اول اسے اس کا تخت دکھایا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے- اور اس سے مقصود بلقیس کی عقل کو آزمانہ تھا- تب بلقیس تخت کے پاس گئی اور دیکھ کر اس نے جواب دیا کہ گویا یہ وہی تخت ہے ہم کو معلوم ہو چکا پہلے سے ہی اور ہم ایمان لائے اور مسلمان ہو چکے- اس سے معلوم ہوا کہ بلقیس عاقلہ ہے- اور مفسرین نے لکھا کہ بلقیس نے "گویا یہ ہمارا ہی تخت ہے” اس لیے کہا کہ اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہارا تخت بھی ایسا ہی ہے- اور اگر اس سے پوچھا جاتا کہ کیا یہ تمہارا تخت ہے تو اس کا جواب یہی ہوتا کہ ہاں یہ ہمارا ہی تخت ہے- اور ایک دوسری وجہ اس کی یہ بیان ہوئی کہ چونکہ حضرت سلیمان نے تخت میں تبدیلیاں کروائیں تھیں- اس لیے اس نے کہا گویا یہ ہمارا ہی تخت ہے- یعنی ہے تو ہمارا ہی لیکن اس کی ہئیت بدل دی گئی ہے-

الغرض وہاں سے بلقیس آگے بڑھی اور جیسے ہی محل میں داخل ہوئی تو محل کا پورا فرش بجائے پتھروں کے شفاف شیشے کا بنا ہوا تھا- دور سے دیکھنے سے یوں چمکتا گویا شفاف پانی کا ایک بڑا تالاب ہو- چنانچہ جب بلقیس وہاں پنہچی تو اپنی پنڈلیاں کھول دیں اور چاہا کہ پانی میں پاوں ڈال کر بیٹھے- تب حضرت سلیمان نے پکارا کہ یہ کیا کرتی ہو- اس نے جواب دیا کہ پانی میں پاوں ڈالنے سے کپڑے بھیگ جانے کا خطرہ ہے اس لیے پنڈلیوں کو کھولا ہے- تب حضرت سلیمان نے فرمایا کہ یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ ہے- پس بلقیس نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو واقعی شیشہ تھا- پس دونوں باتوں سے بلقیس کی عقل کا کمال اور عقل کا قصور حضرت سلیمان کو معلوم ہوا- اور اس کے علاوہ حضرت سلیمان نے جو دیووں کی زبانی سنا تھا کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں بکریوں کیطرح اب معلوم ہوا کہ سچ ہے- تب اس کی دوا تجویز ہوئی جسے "نورہ” کہتے ہیں- کیونکہ بلقیس پری کے بطن سے پیدا ہوئی تھی سو یہ اسی کا اثر تھا- (اس روایت میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ بلقیس کی پنڈلیوں پر بال تھے یا نہیں تھے اس لیے ہم نے دونوں روایات کو بیان کر دیا ہے- واللہ اعلم الصواب)

القصہ بلقیس حضرت سلیمان پر ایمان لائی اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئی اور اپنی قوم کے ساتھ حضرت سلیمان کی تابع فرمان ہوئی- حضرت سلیمان بلقیس کو اپنے نکاح میں لائے- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت سلیمان کی تین سو بیویاں اور سات سو حرم تھیں- ان سب پر بی بی بلقیس کو شرف دیا اور ایک مکان عالیشان بنوا کر اس میں اسے رکھا- اور سب بیبیوں میں سب سے زیادہ محبت بلقیس سے کرتے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔