انسان اور زمین کی حکومت (قسط 95)
رستم علی خان
چنانچہ حضرت جرجیس علیہ السلام نے قبرستان میں جا کر اللہ سے دعا مانگی- تب ہڈیاں مردوں کی کہ جو مٹی کیساتھ ملکر مٹی ہو گئیں تھیں اور نام و نشان ان کا باقی نہ رہا تھا- قبریں پھٹیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے مٹی سے دوبارہ ہڈیاں بنیں پھر وہ ہڈیاں ایک دوجی کیساتھ درست ہو کر جڑیں پھر ان پر گوشت پوست چڑھا اور اللہ کے حکم سے اس دن بارہ ہزار مردے زندہ ہو کر قبر میں سے اٹھے- اور ان میں ایک زندہ ہونے والا مردہ کہ نام اس کا نوفل بھی تھا- حضرت جرجیس نے اس سے پوچھا کہ اے شیخ تم کو مرے ہوئے کتنا عرصہ گزرا اور یہ کہ تمہارا دین و ملت کونسا تھا- وہ کہنے لگا کہ مجھ کو مرے ہوئے آج چار ہزار برس گزرے ہیں اور میں بےدین بت پرست تھا- حضرت نے پوچھا بتاو تو قبر میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا- تب وہ کہنے لگا کہ جب سے مرا ہوں جان کنی کی حالت میں ہوں ہر روز ہزار طرح کے عذاب بسبب بت پرستی کے مجھ پر مسلط کیے جاتے ہیں اور کوئی پل راحت و سکون کا میسر نہیں ہے- تب حضرت نے کافروں سے کہا دیکھا تم نے یہ بھی تمہاری طرح بت پرست ہی تھا اور اپنی اسی بت پرستی کے سبب ہر روز طرح طرح کے عذاب جھیلتا ہے- پس اب بھی وقت ہے ایمان لاو اور بت پرستی چھوڑ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو تمہارا حال بھی ان جیسا ہو- تب بھی کافر لوگ ایمان نہ لائے اور کہنے لگے کہ اے جرجیس تو واقعی ایک بڑا جادوگر اور ساحر کے پس ہم تیرے جادو سے عاجز آئے ہوئے ہیں-
حضرت جرجیس کے معجزات کے سبب سے ان کی شہرت کافی ہوئی- آپ کی شہرت سنکر ایک بڑھیا عورت حضرت کی خدمت میں آئی اور اس کیساتھ ایک لڑکا تھا- حضرت جرجیس کی خدمت میں حاضر ہو کر بولی کہ اے نیک بزرگ میں نے تمہاری کرامات اور معجزات کے بارے میں بہت سنا ہے- پس یہ لڑکا میرا بیٹا ہے جو اندھا اور گونگا اور بہرا اور لنگڑا ہے- آپ اس کے حق میں دعا فرما دیں کہ اس کے مرض تمام جاتے رہیں اور یہ صحت یاب ہو- تب حضرت جرجیس نے اپنا لعاب دہن اس کی آنکھوں پر لگایا تو وہ بینا ہوا اور اس کے کان میں دعا پڑھ کر پھونکی تو اس کا بہرہ پن جاتا رہا اور وہ اپنے کانوں سے سننے لگا اور باقی دو علتیں باقی رہیں-
تب وہ بوڑھی عورت کہنے لگی کہ اے حضرت دو علتیں آپ نے ٹھیک کر دیں ہیں باقی دو رہ گئیں ان کو بھی اچھا کر دیجئے- حضرت نے فرمایا کہ دو نقص دور ہوئے باقی کے دو بعد میں کروں گا- پس وہ عورت کافرہ تھی حضرت جرجیس کا یہ کھلا معجزہ دیکھ کر آپ پر ایمان لائی اور مشرف بااسلام ہوئی- جب دادیانہ ملعون کو اس بات کی خبر پنہچی تو حضرت جرجیس کو اس بوڑھی عورت کے گھر ہی میں قید کروا دیا اور کھانا پینا تمام ان کا بند کروا دیا یعنی ان کا گھر سے نکلنا بند کر دیا- جب بھوک پیاس نے تنگ کر لیا تو وہ بڑھیا گھر سے باہر نکلی کہ شائد کہیں کچھ کھانے کو مل جائے- اس بڑھیا کے گھر میں ایک ستون لکڑی کا تھا- حضرت جرجیس کی دعا سے وہ ستون ایک تازہ درخت کی صورت ہو گیا- اس میں ٹہنیاں اور پتے لگے اور پھل پھول انواع و اقسام کے اس پر آئے- جب بڑھیا باہر سے واپس گھر خالی ہاتھ آئی تو اس درخت اور اس پر لگے قسم قسم کے میوے اور پھل دیکھ کر متعجب ہوئی اور اسے اور بھی یقین کامل ہوا کہ حضرت جرجیس نبی برحق ہیں اور انہی کی دعا سے سوکھا ستون ایک سرسبز اور تناور شجر بنا اور اس پر پھل پھول آئے۔
چنانچہ جب دادیانہ ملعون کو اس کے بارے خبر ہوئی کہ حضرت جرجیس اس بڑھیا کے مکان پر قید ہیں اور اللہ تعالی نے ان کے واسطے وہیں رزق کا بندوبست کر دیا ہے تو اس نے حکم دیا کہ بڑھیا کا مکان اکھاڑ دو اور اس جگہ کو کھدوایا تاکہ وہ درخت وہاں سے نکال سکے- پھر جب زمین تمام کھود چکے اور اس درخت کیطرف نظر کی تو دیکھا کہ وہ پہلے کی سی حالت میں ہے اور ایک سوکھے ہوئے ستون کے سوا کچھ نہیں-
تب اس ملعون نے حضرت جرجیس کو پکڑ کر زمین پر لٹایا اور چار میخیں آہنی ان کے چاروں ہاتھ پیروں میں گاڑھیں اور سر مبارک کو لوہے کے بنے ہوئے شکنجے میں جکڑا اور شکنجے کو کسنا شروع کر دیا- یہاں تک کہ آپ جان بحق تسلیم ہوئے- پھر آپ کے جسم کو وہیں پر جلایا اور راکھ کر دیا- پھر اس راکھ کو دریا میں بہا دیا- جب وہ حضرت جرجیس کے جسم کی راکھ کو دریا میں ڈال کر واپس چلے تو ایک آواز غیب کی انہوں نے اپنے پیچھے سنی کہ اے دریا اس جسم مبارک کو تو اپنی حفاظت میں سالم سوکھے پر ڈال دے- اور یہ آواز سب کافروں نے سنی- پھر جب پلٹ کر دیکھا تو دریا نے حضرت جرجیس کے جسم کو صحیح سالم پہلے سی حالت میں سوکھے پر ڈال دیا تھا-
جب کافروں نے یہ معاملہ دیکھا تو متعجب ہوئے اور ایک دوجے سے کہنے لگے کہ دیکھو جرجیس کے خدا نے اسے دوبارہ سے زندہ کیا ہے- پھر حضرت جرجیس علیہ السلام اللہ کی مہر اور عنایت سے دریا سے باہر آئے اور وہاں کھڑے ہوئے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگے-
پس جب حضرت جرجیس دریا سے بھی صحیح سلامت نکل آئے تب بادشاہ اور کافروں نے جانا کہ وہ حضرت جرجیس کو کچھ نقصان نہیں پنہچا سکتے- تب بادشاہ ملعون نے کہا کہ اے جرجیس اگر تم ہمارے بتوں کو سجدہ کرو اور ان پر جانوروں کا نذرانہ چڑھاو اور میرے ساتھ میرے محل میں چل کر رہو تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے- تب حضرت جرجیس نے فرمایا کہ میں ہرگز بتوں کو سجدہ نہ کروں گا اور نہ ہی ان کی کچھ نذر چڑھاوں گا کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا یا کسی کی نذر ماننا کھلم کھلا شرک اور کفر ہے پس میں ایسا کسی طور نہ کروں گا- ہاں البتہ اگر تم محل میں رہنے کا کہو تو میں رہنے کو تیار ہوں- اور ایسا اس لیے فرمایا کہ شائد قریب رہ کر ملعون کو کچھ سمجھا سکیں-
چنانچہ جب حضرت جرجیس نے محل میں رکنے کی حامی بھری تو کافروں نے آپ کے بارے غلط سلط باتیں مشہور کر دیں کہ جرجیس علیہ السلام نے بطمع دولت اور محل میں رہنے کے ہمارے بتوں کو سجدہ کرنے کی حامی بھر لی ہے اور معاذ اللہ سجدہ بت قبول کیا ہے- دادیانہ بھی یہ دروغ گوئی سن کر بہت خوش ہوا اور حضرت جرجیس کے سر و ماتھے پر بوسہ دیکر کہنے لگا کہ اے جرجیس تم ہمارے یہاں رہو- جو دل چاہے کھاو پئیو اور آرام کرو کہ میں نے تمہیں بہت رنج و تکلیفیں دی ہیں- پس میں ان سب تکلیفوں کا ازالہ کیے دوں گا- پس حضرت جرجیس علیہ السلام اس دن دادیانہ کے محل میں ٹھہرے اور نماز عشاء پڑھ کر توریت خوش آواز ہو کر پڑھنے لگے- ادھر دادیانہ کی جورو پر اللہ کی مہر ہوئی- وہ کلام توریت حضرت کی زبانی سنکر ایمان لائی اور مشرف بااسلام ہوئی۔
تبصرے بند ہیں۔