ایک خستہ تہی دست بھی رکھتا ہے بڑا دل

جمالؔ کاکوی

ایک خستہ تہی دست بھی رکھتا ہے بڑا دل

قسمت ہے شبِ تار مگر ماہ لقا دل

وہ دل نہیں پتھر ہے ہو جو درد سے خالی

جینے کامزا دیتا ہے زخموں سے بھرا دل

میں مصر کے بازار میں سجھ دھج کے گیا تھا

پوچھا نہ کسی نے تو میراٹوٹ گیا دل

مانا کہ ذہن ہوتا ہے سورج کا اجالا

جو شمع فروزاں ہے وہی راہ نما دل

لو ٹوٹ گیا آخر میری جان کھیلونا

میں کہتا رہا کہتا رہا ہائے میرا دل

دربار بھی اشخاص بھی الفاظ بھی لیکن

مقبول وہ ہوتی ہے جو دیتا ہے دعا دل

بن جاتا ہے کردار کی عظمت کی نشانی

ہیروں سے گراں تر ہے اک سونے سے کھرا دل

آئینہ بنا دیتی ہے سینے کی صفائی

شیطان بنا دیتا ہے انساں کو برا دل

دنیا میں ہے مشہور بہت دل کا فسانہ

مجنوں بنا فرہاد بنا خاک ہو ادل

لٹتا ہوا بکتا ہوا ٹوٹا ہوا بے بس

یو سف کا زلیخہ کا کردار بنا دل

سنتا نہیں ہر گز جمالؔ ذہن کا کہنا

آسان ہو مشکل بھی اگر مان گیا دل

تبصرے بند ہیں۔