پرینکا روڈ شو: ہماری توقعات کے جنازہ کا جلوس نہ بن جائے

حفیظ نعمانی

سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی توقعات سے بڑھ کر لکھنؤ اور اترپردیش کے پوروانچل کہے جانے والے اضلاع کے لوگوں نے پرینکا گاندھی کا استقبال کیا۔ ایئرپورٹ سے کانگریس کے دفتر تک 9 گھنٹے جس جس علاقے سے قافلہ گذرا اس پورے راستے میں پھولوں کی بارش ہوتی رہی اور وہ نعرے جس کا حاصل یہ تھا کہ یہ دوسری اندرا گاندھی ہے مسلسل لگتے رہے۔

ایک بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہے کہ ہر آدمی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو اور نہ یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی سیاسی ورکر ہو۔ اپنے ملک میںصرف الیکشن کا زمانہ وہ ہوتا ہے جس وقت کافی تعداد میں پارٹی کی حمایت کرنے والے کھل کر سامنے آتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو ایک بار بی جے پی کے ساتھ نظر آیا وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہی نظر آئے گا۔ اگر لیڈروں نے اس کی نہیں مانی تو وہ کسی بھی دوسری پارٹی کے خیمہ میں چلا جائے گا انتہا یہ ہیکہ یہ آنا جانا اس وقت بھی ہوتا ہے جب ٹکٹ تقسیم ہورہے ہوتے ہیں۔

اس وقت یہ سوچنا کہ جتنے آدمیوں نے کئی کئی کلومیٹر تک جلوس کا ساتھ دیا ہے وہ سب کانگریس کے ہوگئے اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ سوچنا کہ ان میں سے آدھے بھی کانگریس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لئے کہ آج یہ اچھا لگا کہ پرینکا گاندھی زندہ باد کہہ لیں۔ اگر ان کی عزت نہیں کی گئی تو کل پرینکا واپس جائو کا نعرہ لگانے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔

ہم تو یہ سوچ سوچ کر کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا دُبلے ہوئے جارہے ہیں؟ گورکھ پور اور پھول پور کے ضمنی الیکشن کے بعد جب اکھلیش یادو مس مایاوتی کے گھر گئے اور بوا کہہ کر لپٹ گئے اور ان کا دل کھول کر شکریہ ادا کیا تو اس وقت انہوں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ اب لوک سبھا کا الیکشن ہم اور بوا مل کر لڑیں گے اور اس اتحاد کے لئے مجھے اگر دو قدم پیچھے ہٹنا پڑا تو میں ہر قربانی دوں گا۔ اس کے بعد کیرانہ اور نور پور کے معرکہ میں اجیت سنگھ بھی شریک ہوگئے تو بی جے پی اور کانگریس کے بندھے ہوئے ووٹوں کے علاوہ تمام بکھرے ہوئے ووٹ ایک لڑی میں آگئے۔ اس وقت تک کانگریس کی یہ حیثیت نہیں تھی کہ وہ کسی پر دبائو ڈال سکے۔

جس وقت مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے الیکشن کا اعلان ہوا تو مایاوتی نے یہ چاہا کہ تینوں صوبوں میں کانگریس ان کو ساتھ لے کر اور سیٹیں تقسیم کرکے لڑلے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ ان صوبوں میں جو حیثیت کانگریس کی تھی اور جتنی محنت اس نے کی تھی ہماری اطلاع کی حد تک مایاوتی نے چوتھائی بھی نہیں کی تھی۔ مگر کون تھا جو ان سے یہ بات کہتا کہ لوک سبھا میں آپ کا ایک ممبر بھی نہیں ہے اسمبلی میں صرف 19  ممبر ہیں اور دماغ میں یہ ہے کہ ہر صوبہ میں ان کی سیٹیں ہوں اور وہ وزیراعظم کی کرسی کی دعویدار بن جائیں؟ انہوں نے کانگریس سے جتنی سیٹیں مانگیں اور انہوں نے جتنے امیدوار تینوں ریاستوں میں کھڑے کئے اور ان کا جو حشر ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ اب ان سب باتوں کا انتقام انہوں نے اترپردیش میں لینے کا فیصلہ کیا اور 38  سیٹیں لے کر دروازے بند کردیئے۔

راہل گاندھی کرناٹک اور تین ریاستوں میں بی جے پی کو ہراکر یہ سمجھنے لگے کہ اگر گرم لوہے پر پرینکا کا ہتھوڑا مار دیا جائے تو اسے مرضی کے مطابق موڑا جاسکتا ہے۔ راہل کے مشیر بھی سمجھ رہے ہیں کہ مودی جی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس وقت جتنے کمزور ہیں اگر ان کو پانچ برس اور مل گئے تو وہ اپنے کو سدھارکر پھر مضبوط ہوجائیں گے۔ اور اگر اس وقت وہ سب سے زیادہ سیٹیں لے آئیں تو غیربی جے پی محاذ ان کی قیادت میں حکومت بنوا دے گا۔ اگر وہ اترپردیش میں سوال بنے تو انہیں کچھ نہ ملے گا اور جو بھیڑ روڈشو میں آئی تھی وہ 80  سیٹوں کی وجہ سے آئی تھی اور اس بھیڑ نے راہل کی سوچ کو باندھ لیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اگر اترپردیش سے دس سیٹیں بھی جیت لیں تو بہت ہیں لیکن اب 80  سیٹوں پر لڑنا ان کی مجبوری ہے۔

اور اسی فیصلہ نے پرینکا کے استقبال کو اگر بے مثال بنا دیا ہے تو یہی مسلمانوں کی توقعات کے جنازے کا ماتمی جلوس ثابت ہوگا۔ ہم جیسے لکھنے اور بولنے والے ہر مسلمان سے کہہ رہے ہیں کہ یوپی میں دو پارٹیوں کے محاذ کو اور اس طرح جہاں بھی محاذ بنے وہاں اس کو ووٹ دیا جائے ورنہ جو پارٹی بی جے پی کو ہراسکے اس کی مدد کی جائے۔ اب کانگریس کے اتنی دھوم سے آمد کے بعد ہر اس سیٹ پر مسلمان پاگل ہوجائے گا جہاں ایک محاذ کا ایک کانگریس کا اور ایک اویسی کا مسلمان لڑ رہا ہوگا۔ وہ آخر کیسے فیصلہ کرے گا کہ کسے ووٹ دیں؟

بی جے پی کو دوسری پارٹیاں اس لئے ہرانا چاہتی ہیں کہ اس سے انہیں حکومت لینا ہے اور مسلمان اس لئے ہرانا چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن پارٹی ہے دوسری پارٹیاں اسے اس لئے ہٹانا چاہتی ہیں کہ وہ ملک کو اپنی پالیسی سے چلائیں گی اور مسلمان اس لئے ہٹانا چاہتے ہیں کہ دوبارہ اسے موقع مل گیا تو مسلمانوں کی روزی روٹی کے جو راستے باقی بچے ہیں انہیں بھی نہ بند کردیا جائے۔ ہم مسلمانوں کے اور راہل، اکھلیش اور مایاوتی کے مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ حکومت کے اور اقتدار کے لئے لڑرہے ہیں اور مسلمان اپنی روزی روٹی کی جنگ لڑرہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعیۃ علماء اور تمام مسلم دانشور ایک بار پھر ڈاکٹر محمود جیسی مجلس مشاورت بناکر اعلان کریں کہ مسلمان کہاں کس کو ووٹ دیں اس کا فیصلہ ہم کریں گے اور پہلے ان لیڈروں سے بات کریں پھر اعلان کردیں۔ اس مسئلہ پر ہم بھی لکھیں گے اور دوستوں سے درخواست کریں گے کہ وہ بھی قلم اٹھائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔