چناؤ قریب ہے، ذرا سنبھل کر

محمد صابرحسین ندوی

بعض درختوں کا ظاہری حسن اور شاخ و ٹہنیاں ایسی ہوتی ہیں ؛ کہ لوگ ان سے دھوکا کھانے لگتے ہیں، لیکن ماہرین ہی جانتے ہیں کہ اس کی جڑیں کتنی مضبوط اور پھیلی ہوئی ہیں، اگر اس کی جڑوں میں کیڑے لگ گئے ہوں، تو اس کا تمام تر حسن دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ بہت سی عظیم الشان عمارتیں اپنی اعلی فنکاری اور تذکرہ وحشمت میں نایاب اور قابل رشک ہوتی ہیں ؛ لیکن ان کی بنیادیں اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہوتی ہیں، کہ ایک معمولی ہوا بھی اسے زمین بوس کردے، اور اس کا سارا گھمنڈ زیر زمین ہوجائے، تقریبا یہی مثال موجودہ سیاست میں موجود رواں جماعت پر فٹ ہوتی ہے، اس کے ظاہری جملوں اور بیان بازیوں میں عوام یوں الجھی کہ سلجھ ہی نہ سکی، مقناطیسی نعروں اور وعدوں میں اس کا خیال ایسا مدغم ہوا ؛کہ پھر وہ بے خیالی ہی میں رہ گئے، لوگوں نے امیدوں اور آرزوؤں میں صبح و شام کی، بلیٹ ٹرین، اسمارٹ سٹیز، نوکریوں اور میک انڈیا کے بینروں تلے خوب تالیاں بجائیں، ملک کی ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھتے رہے، اور دیکھتے ہی رہ گئے،!لوگوں کی آنکھیں تھک گئیں، بعضوں کی امیدوں نے دم توڑ دیا، یا پھر دم میں دم لگا کر امیدوں میں دم بھرتے رہے، اور خود کو الفاظوں کے کھلونوں سے بہلاتے رہے؛لیکن مردہ کیوں کر جاگے، کاغذ کے پھول سے خوشبو کیسے آئے، اور کیسے کوئی تصویر سے شیر کا کام لے؟ اس عجیب کیفیت میں و ہ کہہ سکتے ہیں:

کبھی ٹوٹ کر نہ برسا میری آرزوؤں کا ساون  جب گھر کے آئے بادل تو اڑا دیئےہوا نے۔ رواں حکومت کے زخموں کی فہرست گنوائی جائے تو خود طبیب حیران ہوجائے گا اور کہ اٹھے گا کہ درد ہی مرہم اور مرہم ہی درد ہوچکا ہے، معصوم عوام کا سارا جسم چھلنی چھلنی ہے، درد بھی حیراں ہے کہ وہ نکلے تو کہاں سے نکلے، اس کے دل کی دھڑکن تو اسی دن بند ہوگئی تھی جب ’’نوٹ بندی‘‘ کا قہر اور رعشہ نازل ہوا تھا، دہشت گردوں کی کاروائیاں ہوا کے دوش پر جاری تھیں، اور کشمیر پالیسی پر بیلیٹ گن نے تو اس زخم کو دو آتشہ کردیا تھا، عورتوں کی خش فہمیاں عصمت کے سر بازار لٹ جانے اڑاہی دی تھی کہ بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ا س سے زیادہ ان مجرمین کے ساتھ حسن سلوک نے ان کی نیندیں حرام کردیں اور وہ بھی جان گئیں کہ سراب کو حقیقت سمجھنا بیوقوفی ہوتی ہے، اور نقش برآب کو محل مان لینا نادانی کے سوا کچھ نہیں، لیکن ان سب کے باوجود عصبیت اور تشدد کے مریض عجب کیفیت میں مبتلا ہیں، وہ نفرتوں کا تسلسل بھی چاہتے ہیں اور محبت کی دیوی کو براجمان کرنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں، وہ دل کا درد ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے اور ڈاکٹر کا پتہ بھی مانگتے ہیں، شاعر نے کیا خوب نمائندگی کی ہے:

نہ سکت ہے ضبط غم کی، نہ مجال اشک باری

یہ عجیب کیفیت ہے نہ سکوں، نہ بیقراری

آپ غور کیجئے! اب پھر وعدوں کا دور چلے گا، ۲۰۲۲ کو ٹارگیٹ بنایا جائے گا، مقاصد کا رخ موڑ دیا جائے گا، قدیم قلب کو جدید قالب میں ڈھالا جائے گا، عورتوں کو تحفظ دینے کی بات کی جائے گی، ریزرویشن کے جھانسے میں الجھا کر توجہ بٹورنے کا کام کیا جائے گا، ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی دہائی دی جائے گی، اگر آپ اس سے نہ مانے تو ڈرایا اور دھمکایا جائے گا، ہجومی دہشت گردی کی جائے گی، ہندو مسلم اور ڈکٹیٹر کارڈ کھیلا جائے گا، فسادات کی بھی گنجائش ہے، وہ اپنوں کو اپنوں سے اور غیروں کو غیروں سے بھی ٹکرا دینے کے موڈ میں ہونگے، منصوبات تیار ہیں، ریزولیوشن بنا لئے گئے ہیں، ریلیوں کا ہجوم اور شور شرابا ہونے اور پوری فضا صوتی آلودگی سے بھر دینے کو بھی قرار ہیں، بھیڑ اکٹھی کی جائے گی، زور اور زبردستی بھی کی جائے گی، اگر یہ بھی کام نہ کرے تو ممکن ہے کہ سونے کی چمک دکھلائی جائے، ملک کے مذہبی ٹھیکیدار وں کو جذبات کا سودا کرنے پر مجبور کیا جائے، ان کی گردنوں میں سونے کا قلادۃ یا پیروں سلاسل ڈالنے یا پھر اعلی عہدے و مناصب کی للک دی جائے گی ؛تاکہ وہ اپنے معتقدین کی قیمت لے کر مذہب و امن کو رسوا کردیں۔

   حقیقت یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات کا زمانہ قریب ہے، صوبائی الیکشن کے نتائج صاف ہوچکے ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کی انسانیت کش منصوبوں کا پردہ چاک ہوچکا ہے، شاید اسی لئے اپنے وعدوں اور ارادوں میں ناکام ہو کر زہر افشانی کرنے اور بھائی چارے کو زمین دوز کردینے کے درپے ہے، ہر محاذ پر ناکامی و نامرادی ہی ہاتھ آئی ہے، عورتیں، بچے اور بوڑھے تو کیا نوجوان بھی محفوظ نہیں ہیں، حکومت فرضی انکائنٹر کے ساتھ بے روزگاری، گئو کشی اور ہجومی دہشت گردی جیسے مسائل پر گھری ہوئی ہے، اس کا پسندیدہ موضوع (مندر و مسجد) بھی ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے، یا شاید اس کے اندر ٹھاکرے خاندان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طاقت سرایت کرتی جارہی ہے، لوگوں کا انتظار اب انتشار میں بدلتا جارہا ہے، خود انہی کے دیار سے مخالفت کی ہوا؛ بلکہ آندھی چل پڑی ہے، پروین توگڑیا، رنویر شورے جیسی فعال شخصیات اس کی تازہ مثال ہیں، سادھو، سنتوں نے دو ٹوک فیصلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور انہوں نے عدالت عظمی یا مصلحت کے نام پر تسلی کی دوا لینے سے انکار کر دیا ہے۔

کسانوں کا بھی برا حال سب کے سامنے ہے، انہوں نے بھی حکومت کا دائرہ کم کرنے اور ان کے فریب و دام کو سامنے لا کر پورے ملک میں بیداری پیدا کرنے کی ٹھان لی ہے، اب حکومت کے پاس چور دروازوں کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، وہ پھر سے اپنی اصل طاقت یعنی آپسی تفرقہ بازی، خلفشار اور جملہ بازی کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، اسی وجہ سے حکومت ہندو پاک کے مدعی کو ہوا دے رہی ہے، گڑے مردوں کو اکھاڑ کر اس میں نفرت کی سانس بھر رہی ہے، مہنگائی کی ڈائن کو خموش کرنے کیلئے اس پر میک اپ لگا کر حسین و جمیل خاتون بنانے کی کوشش کی جاری ہے، پڑوسی ملکوں سے بگڑتے رشتوں کو سازش بتلا کر عوام کو بھڑکا رہی ہے، جھوٹ بول کر اور نعرہ بازی کر کے ہر معاملہ کو دبا دینا چاہتی ہے، غرباء و فقراء کے خون کو چوس کر انہیں بس دلنشین خواب دینا چاہتی ہے، ان کے پاس اسباب و وسائل کی کمی نہیں، افراد و درباریوں کی کوئی قلت نہیں، وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں، جو نہ صرف سلگتے مسائل پر گنگا جل کا کام کرتی ہے؛ بلکہ وہ تقدس و پاکی کی صورت اختیار کر کے آزمائش میں مبتلا کر دیتی ہے۔

ایسے میں اقلیتی سماج کو خدشات لاحق ہیں، دلت اور پچھڑے طبقوں میں گہما گہمی ہے، نت نئے سیاسی ڈرامے سامنے آر ہے ہیں، بالخصوص مسلمانوں کیلئے مذہبی امور کے ساتھ ساتھ ملکی مفاد سے بھی محروم کر دئے جانے کا ڈر پنجے گاڑ رہا ہے؛ لیکن اس سلسلہ کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بیدار مغزی اور شعور و دانشمندی کا عنصر پروان پا رہا ہے، ان کے اندر ٹھہراو اور صبر و استقامت کے ساتھ حالات حاضرہ سے آگاہی کا مادہ کروٹیں لے رہا ہے، وہ شعلہ انگیز بیانوں پر مشتعل نہیں ہوتے، ہزاروں کی تعداد بھی اپنی چیخ و پکار سے انہیں وقتی جوش میں ہوش کھو دینے سے ندارد ہے، حقیقت یہی ہے کہ فی الوقت ساحل پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے کا دور ہے، جو کبھی ہندو ازم کے نام پر متحد تھے ان میں خود گٹ بازیاں ہو چکی ہیں، وہ ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں، دلت گروہ سے لے کر برہمن پنڈتوں کے ایک بڑے طبقے نے بغاوت کر رکھی ہے، اس کے باوجود کبھی کبھی اٹھنے والی دو چند اجتماعات کا حال اتفاقی واقعہ سے کم نہیں ؛بلکہ یہ خود ان کی اندرونی بے اطمینانی کا ثبوت ہے، چنانچہ ضبط و شعور زندہ رکھئے! شور و شغب کے بجائے لائحہ عمل بنائے اور اپنے قائدین کے ساتھ ساتھ قدم ملا کر کھڑے رہئے!۔

یاد رکھئے!یہ سب سیاست کا ایک حصہ ہے، اس سے کوئی بھی پارٹی اور جماعت مستثنی نہیں ہے، بس یہ کہ کسی کا تناسب کم تو کسی کا زیادہ ہے، ایسے میں صرف اور صرف عوام کی بیدارمغزی اور ملک کے تئیں حساسیت کا کردار ہی کار آمد ہے، سیاسی سوجھ بوجھ اور مستقبل کیلئے بہتر لیڈر چننے کی فکر کرنا اور اس رخ پر پورے غور و خوض کے ساتھ متحدہ پلیٹ فارم کے ذریعہ کوئی ایک اسٹینڈ لینا ہی اصل کامیابی ہے، سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے؛ کہ اگر عوام کو سو فیصد نمازی بلکہ تہجد گزار بھی بنا دیا جائے، لیکن ان کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ نہ ہو، تو ان کا مستقبل خطرے میں ہے،۔ چنانچہ جذبات کو پرے کیا جائے، آپسی اختلافات کو دبا دیا جائے اور سب مل کر ایک ایسا محاذ تیار کریں، جس کے ذریعہ صحیح رہنمائی پا کر ملک کے حق میں مناسب فیصلہ لے سکیں، یہ نہ صرف ملک کیلئے بلکہ خود مسلمانوں کی بقا و تحفظ کیلئے ازحد لازم ہے، اس کی آٹھ سو سالہ تاریخ کی حفاظت کا سوال ہے، کلمہ لا الہ کے غلغلہ کا تقاضہ ہے۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو!

 تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔