مندر آندولن کی واپسی ایک خوش کن ’مجبوری‘

سید منصورآغا

پریاگ میں ’پوترگنگا جی ‘کے کنارے کمبھ کے ’مقدس میلے ‘کے دوران وی ایچ پی نے اپنے ہم نوہندوابھگوادھاریوں کا ایک سبھا کی جس کو مذہبی تقدس دینے کے لیے نام ’دھرم سنسد‘دیا گیا۔ ہندو بھگوادھاریوں کوعرف عام میں ’سادھو‘ یا ’سَنْت‘ کہاجاتا ہے۔ سَنْت کا اطلاق ان خداترس ہستیوں پر ہوتا جن کی زندگیاں چھل، کپٹ، دنیا داری، دنیاوی الائشوں اور آسائشوں سے پاک ہوں اورجو یاداللہ اوراس کی مخلوق کی بھلائی پر متوجہ ہوں۔ جن کا قول وفعل تیاگ اورسچائی پرقائم ہو۔ کسی کو تکلیف پہنچاناان کا شیوہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر اٹکے بھٹکے، دِین دکھی کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصورنہیں کیا جاسکتا کہ کسی کو تکلیف پہنچانے یا حق مارنے کا خیال بھی ذہن میں لائیں گے۔ اسی بے نفسی اور صداقت کی بدولت وہ عوام میں محترم ہوتے ہیں۔ ایسی پاک نفس خداترس ہستیاں ہی صوفی اورسنت کہلانے کی حقدار ہیں جودنیاکو فلاح کی راہ دکھاتی ہیں۔ لیکن وی ایچ پی نے اپنے جھنڈے تلے کچھ ایسے بھگوادھاریوں کو جوڑ رکھا ہے جن کی دلچسپیوں میں سیاست شامل ہے اور جن کے تیور خدا کی پناہ۔

اس تین روزہ پنچایت میں، جس کو ’دھرم سنسد ‘کانام دیا گیا آرایس ایس پرمکھ موہن بھاگوت، جنرل سیکریٹری بھیا جی جوشی اوراسسٹنٹ جنرل سیکریٹری دتاریہ ہوشابولے صاحبان شریک ہوئے۔ تین دن تک اس میں اجودھیا میں جلد از جلد رام مندر تعمیر کے حق میں پرجوش تقریریں ہوتی رہیں۔ لیکن بھاگوت جی کچھ اورمنصوبہ لے کرآئے تھے۔ انہوں نے کہا، ’مندرچار چھ مہینے میں ہوگیا تو اچھی بات ہے، اس کے بعد وہ ضرور ہو، یہ ہم لوگ دیکھیں گے۔ ‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا، ’’مندر بنانے کے ساتھ ساتھ لوگ ضرور کہیں گے کہ مندربنانے والوں کو چننا ہے۔ ۔ ۔ ان کو ہمارے اس اندولن سے کٹھنائی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے ہی ہم کوچلنا ہوگا‘‘

ان کا دودیگرعہدیداروں کے ساتھ خودآنا اور یہ کہنے کا مطلب صاف ہے۔ وی ایچ پی نے، جو سنگھ پریوار کا حصہ ہے، چناؤ سرپر آتے ہی گزشتہ چار پانچ سے اجودھیا کے موضوع کو گرم کرنے کی جو تدبیریں کی تھیں اور جو ناکامی سے ہم کنار ہوئیں، ان سے بھاجپا کو ہی کٹھنائی ہورہی تھی۔ سوال پانچ سال کچھ نہ کرنے کا ہونے لگا۔ عوام اس تحریک سے نالاں نظرآئے۔ اس لیے اس کو ٹالنے میں ہی عافیت جانی۔ لیکن بھاگوت جی جس وقت یہ سب کہہ رہے تھے، وی ایچ پی کے پرجوش کارکن جو کسی اورارادے سے آئے تھے، مندر تعمیر کی تاریخ کا اعلان کرنے کے پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ وہ جب اپیلوں کے باوجود رکے نہیں تو والنٹیرس نے ان کو پنڈال سے باہر کا راستہ دکھایا۔

سرستوی جی کا اعلان:

اس موقع پر شنکرآچاریہ سوروپانند سرسوتی جی نے بھی ’پرم دھرم سنسد‘ کے نام سے ایک پنچایت وی ایچ پی سے پہلے جوڑی جس میں 4 فروری کو اعلان کیا گیا کہ مندرکی تعمیر 21فروری کو ہرحال میں شروع کردی جائے گی۔ اس کے لیے پریاگ سے اجودھیا تک مارچ کیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ ’پرم دھرم ‘ کے نام سے موسوم یہ پنچایت وی ایچ پی کی کو زچ دینا چاہتی تھی، چنانچہ اعلان کیا گیا کہ اگراجودھیامارچ اور 21فروری کوتعمیر شروع کرنے سے روکا گیا توہم گولیاں کھانے کے لیے تیار ہیں۔ ’اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد‘ نے اس منصوبہ کی تائید کی۔

نومبر تا فروری :

وی ایچ پی نے اس موضوع کوگرمانے کا باضابطہ آغاز 2و3 نومبر کو دہلی میں ’اکھل بھارتیہ سنت سمیتی‘ کے بینر تلے بھگوا دھاریوں کا ایک دوروزہ سمیلن سے کیا تھاجس میں سینکڑوں بھگوادھاریوں نے شرکت کی اور اجلاس کے آخرمیں ایک ’دھرم آدیش‘ جاری کیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوراً قانون لاکر اُس آراضی سمیت جس پر 465سال سے بابری مسجد کھڑی تھی اوراس کی متصل وقف آراضیوں کو ایکوائر کرکے مندرکی تعمیر کے لیے دیدیا جائے۔ یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ ’ہم مندرسے کم کسی چیز کو نہیں مانیں گے۔ ‘ اور یہ کہ ’ اب مندرکی تعمیر سے ہمیں کوئی چیز نہیں روک سکتی‘۔

دھرم سبھائیں:

اسی کے ساتھ ملک بھرمیں دھرم سبھائیں کی گئیں اوراعلان کیا گیا کہ 25نومبرکو اجودھیا میں ایک بڑی دھرم سبھا ہوگی جس میں ملک بھرسے پانچ لاکھ لو گ جمع ہونگیں اور یہ ہجوم اس سے بھی بڑا ہوگا جس نے 6دسمبر1992 کو ایک تاریخی عمارت (بابری مسجد)کو زمین بوس کردیا تھا۔ لیکن منتظمین کواس وقت سخت مایوسی ہوئی جب اس میں صرف چندہزار ہی آئے۔ اسی شام ناگپورمیں ’جن ہنکار ریلی‘ ہوئی جس میں بغیر کسی پیشگی پروگرام بھاگوت جی نے خطاب کیا اور دہلی میں منظور’دھرم آدیش‘ کی توثیق کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’ فوراً قانون لاؤ۔ ‘ انہوں نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ اس کیس کو عوام کے جذبات کے مطابق ٹاپ پرائرٹی نہیں دے رہا ہے، تو یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ فوراً قانون لائے۔ ‘

شورمچانے والے چپ کیوں ہوگئے:

ہمیں یہ غورکرنا چاہئے کہ 25 نومبر اور 5فروری کے دوران ایساکیاہوا کہ جو قانون لانے کے لیے اس قدربیچین تھے اب کہتے ہیں کہ چناؤ تک خاموش رہیں گے؟ گزشتہ کئی دہائیوں سے جو موضوع انتخابات میں چھایارہا، اس کو اچانک یہ تین طلاق کیسی؟ ابھی تک تو بھاجپا صدر امت شاہ کے اس اعلان کی گونج بھی ختم نہیں ہوئی جوانہوں نے علی گڑھ میں دیا۔ انہوں نے کہا، ’سارے سنت پوچھ رہے ہیں رام جنم بھومی مندر کاکیاہوگا۔ ۔ ۔ بی جے پی چاہتی وہی استھان پر جلد سے جلد بھویہ رام مندرکا نرمان ہو۔ ۔ ۔ آج علی گڑھ کے منچ سے کانگریس، ایس پی، بی ایس پی سے پوچھنا چاہتا ہوں اپنااپنا اسٹینڈ صاف کریں۔ ‘

اس سے قبل وزیرقانون روی شنکرپرساد کہہ چکے تھے کہ سترسال سے عدالتوں میں زیرسماعت کیس کو سپریم کورٹ میں جلد سنا جاناچاہیے کیونکہ عوام بہت بے صبری سے ایودھیا میں رام مندرکی تعمیرکے منتظر ہیں۔ یوپی کے بھگوادھاری وزیر اعلیٰ نے تو اوربھی آگے کی بات کہہ دی۔ ’’اگرعدالت طے نہیں کر سکتی ہم اس کو 24گھنٹے میں حل کردیں گے۔ ‘ لیکن بقول غالبؔ

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

دلچسپ بہانا:یہ بات دنیا جانتی ہے کہ مندرمسجد کا موضوع ہندوووٹ کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن عوام سمجھ گئے ہیں کہ ان کو بیوقوف بنایاجاتا ہے۔ جس مہم کاآغاز خود بھاگوت جی نے وجے دشمی پر کیا تھا، اس میں یوٹرن لیتے ہوئے ان دھرم اورکلچر کے نام لیواؤں نے ایک پرفریب بہانہ تراشا۔ 7فروری کوپریاگ میں منظور اعلانیہ میں کہا گیا ہے، ’الیکشن جمہوریت کا قومی جشن ہے۔ ۔ ۔ ۔ سنت سماج نہیں چاہتا کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کوموقع مل جائے اس مقدس اوراہم تحریک کو سیاست میں گھسیٹیں۔ ‘

اس سے قبل وی ایچ پی کے انٹرنیشنل کارگزارصدر آلوک کمار کہہ چکے تھے کہ اگرچہ کانگریس نے ہمارے لئے اپنے دروازے بند کررکھے ہیں لیکن اگروہ رام مندرکواپنے انتخابی منشور میں شامل کرلے تو ہم لوک سبھا چناؤ میں اس کی تائید کرسکتے ہیں۔ ‘ لیکن بظاہر آرایس ایس چیف کے دباؤ میں جب تحریک کو واپس لیا گیا توانہوں نے ایک قومی اخبارسے کہا، ’یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ہرشخص محسوس کررہا ہے کہ الیکشن کے ٹائم پر اس طرح کی تحریک محض سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ ‘

مسٹرآلوک کا یہ اعتراف حقیقت کے قریب ہے۔ اب ان لوگوں کو احساس ہوگیا ہے ایک بے جان گھوڑے کو چابک مارنے سے 2019میں جیت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے اس تحریک کی بدولت مودی جی کے دیگر ناکامیوں کے ساتھ مندر کا سوال بھی پوچھاجانے لگا تھا۔ 1992میں مندر کے معاملہ میں جو جوش تھا وہ اب نہیں رہا۔ یہ اس اعتبار سے ایک خوش آئند بات ہے کہ یہ معاملہ جب بھی اٹھا، فرقہ ورانہ تقسیم اورمنافرت کا سبب بنا۔

دوسری اہم وجہ:

باخبرذرائع کے مطابق آرایس ایس نے اپنے طور سے حاصل معلومات کی بنیاد پر تخمینہ لگایا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ’مودی۔ شاہ‘ کی قیادت میں بھاجپا کو دوسوسیٹیں بھی نہیں ملیں گی۔ ایسی صورت میں اقتدارکو ہاتھ سے نہ جانے دینے کے لیے ان پارٹیوں کو ٹٹولا گیا جو سابق میں بھاجپا کے ساتھ رہ چکی ہیں۔ وہ مودی کی قیادت میں نئی سرکار میں شامل ہونے کوتیار نہیں۔ ان کو مندرموضوع پر بھی اس لیے تکلف ہے کچھ ووٹ ان کے کٹ سکتے ہیں۔ اس لیے سنگھ نے بالواسطہ طورسے نتن گڈکری کا نام اگلے وزیراعظم کے لیے اچھالا ہے اورمندر موضوع کو دبادیا ہے کیونکہ غرض مندر سے نہیں، رام کے نام پرووٹ بٹورنے سے ہے۔ آرایس ایس نہیں چاہے گی کہ گزشتہ 5سال میں اقتدار اپنے لوگوں کے ہاتھ میں رہنے سے جو فائدے ہوئے ہیں، ان میں دیمک لگ جائے۔

آخری بات:

بہر حال ان محترم بھگوادھاریوں کو بھی اپنے رویہ پر غورکرلینا چاہئے جو سادھو سنت کہلاتے اور ساتھ دیتے ہیں اس تحریک کا جو امن بھائی چارے اورقانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑاتی ہے۔ جن کوانسانی زندگیوں کی پرواہ نہیں اور جو قومی سنسد کے مقابلے ’دھر م سنسد‘ بناتی ہے، قوم کے ’ادھرم ‘ پراکساتی ہے اوریہ پیغام دیتی ہے کہ ہندستان میں حکمرانی آئین کے تحت قائم سنسد اور قانون کی نہیں ان خواہشات کے تابع ہوگی جن کی مذہبی، تاریخی یااخلاقی بنیاد نہیں بلکہ جس کی بنیاد جبراورظلم پر ہے اوروہ بھی بقول علامہ اقبال’امام الہند ‘رام چندرجی کے نام پر جن کی سب سے قابل قدرصفت تیاگ ہے۔ ہندوعقیدہ ہے کہ جابر، ظالم اورغاصب کو مکتی اورنروان حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ بدتریونیوں میں جنم لیتا رہے گا۔

بہرحال، وجوہات کچھ بھی کیوں نہ ہو، ہم اس تحریک کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دئے جانے پر اطمینان محسوس کرتے ہیں اوراپنی قوم سے اپیل کرتے ہیں یہ جو موقع ملا ہے اسے ہم فرقہ ورانہ ہم اہنگی کو فروغ دینے اورنئے پل بنانے میں استعمال کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔