کانگریس کو لینا ہوگا دانشمندی سے کام 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

تین ریاستوں میں حکومت بننے کے بعد ایک طرف کانگریس کا حوصلہ بلند ہے، تو دوسری طرف کانگریس بھاجپا کے نشانہ پر آگئی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم نریندرمودی کی طویل تقریر اس کا اشاریہ ہے۔ انہوں نے پچپن سال بنام پچپن ماہ کی خدمت کے جذبہ والی اپنی حکومت کے بہانے کانگریس پر تیکھے حملے کئے اور اپوزیشن اتحاد کو مہا ملاوٹی گٹھ بندھن بتا کر اس پر نشانہ سادھا۔ عام طور پر پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی حکومت کی کارکردگی کا خوب بکھان کیا۔ انہوں نے "چوکیدار چور ہے” کے جواب میں ‘الٹا چور چوکیدار کو ڈانٹے’ کا نعرہ دیا۔ بد عنوانی کرنے والوں کو مودی چھوڑے گا نہیں کہتے ہوئے انہوں نے سابق وزیراعظم دیوی گوڈا کی طرف اشارہ کرکے کرناٹک حکومت پر الزام تراشی کی، لیکن اپوزیشن کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ ایک دو مرتبہ کھڈگے جی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، جنہیں نظر انداز کردیا گیا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی خاموشی کے پیچھے کوئی حکمت تھی یا مجبوری یہ بات سمجھ سے پرے ہے۔

حسب سابق مودی جی کی پارلیمانی تقریر نے ان کی انتخابی جملہ بازی کی یاد تازہ کر دی۔ انہوں نے ای پی ایف میں نئے رجسٹریشن، پینشن اسکیم میں شامل افراد اور نئی موٹر گاڑیوں کی فروخت کے اعداد وشمار کے ذریعہ نئے روزگار پیدا ہونے اور بے روزگاری کم ہونے کا دعویٰ کیا۔ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں نے نریندرمودی کے دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دس سال پرانی گاڑیوں پر پابندی کی وجہ سے نئی گاڑیاں خریدی گئیں۔ اس سے روزگار میں اضافہ کی بات غلط ہے۔ ای پی ایف میں رجسٹریشن اور پینشن سے جڑنے والوں کے بارے میں سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے سی ای او مہیش ویاس نے بتایا کہ 19 لوگوں تک پی ایف لاگو نہیں ہوتا۔ جیسے ہی ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے وہ پی ایف کے دائرہ میں آ جاتے ہیں۔ اس لئے پی ایف میں رجسٹریشن سے روزگار کے بڑھنے کا نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے تازہ مضمون میں دسمبر 2018 میں بے روزگاری کی شرح 7.4 اور 10 فروری کو 8.64 ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آفس کے سروے سے بے روزگاری کی شرح 17-2018 کے دوران 45 سال میں سب سے زیادہ 6.1 فصد ہونے کی بات پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔ بے روزگاری کے اعداد وشمار عام کرنے میں دیر کرنے کی وجہ سے نیشنل اسٹیٹسٹکس کمیشن کے دو ممبران نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں لاکھوں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ عارضی اور لیکچر کی بنیاد پر اساتذہ سے کام لیا جا رہا ہے۔ صرف ریلوے میں 2013 سے 2018 کے بیچ دو لاکھ نوکریاں کم ہوئی ہیں۔ ہیلتھ کا بجٹ کم ہونے سے اس شعبہ میں بھی بہت سی آسامیاں خالی ہیں۔

 نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے اور حالات کو خراب کیا ہے۔ نئے روزگار پیدا کرنے کا جو وعدہ نوجوانوں سے کیا گیا تھا اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ رہا سوال کسانوں کا تو اس حکومت میں ان پر بات خوب ہوئی لیکن سوامی ناتھن رپورٹ کو لاگو کرنے کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ فصل بیمہ، سستے بیج، کھاد اور اب چھ ہزار روپے سالانہ چھوٹے اور مجھولے کسانوں کے کھاتہ میں بھیجنے سے اگر ان کی تکلیفیں دور ہوتیں تو کسانوں کو بار بار سڑکوں پر آنا نہیں پڑتا۔ مودی جی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ملک کی معیشت مضبوط ہوئی ہے اور وہ بڑی معیشت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہوا۔ کیا امیر غریب کے بیچ کا فاصلہ کچھ کم ہوا۔ سچائی یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کو ٹیکہ دینے پر زور ہے لیکن عام صحت کا حال خراب ہے۔ مہنگائی کی بات کریں تو اب بھی مہنگائی ڈبل ڈیجٹ میں ہے۔ کسان کا نیج، کھاد، دوائیوں پر ٹیکس نہیں لگتا تھا اب وہ بھی جی ایس ٹی کے دائرے میں ہے۔ ٹرانسپورٹ مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے کوئی بھی چیز سستی نہیں ہے۔

 آئنی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کے جو نمونے اس حکومت میں سامنے آئے وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔ فلم انسٹی ٹیوٹ، الیکشن کمیشن، سی بی آئی کو اشارہ پر نچانے، یونیورسٹیز میں اٹھا پٹک اور سپریم کورٹ کو ٹرم ڈکٹیٹ کرنے واقعات تشویشناک رہے۔ بیٹیوں کو خود مختار بنانے کے دعوے چناوی جملے بن کر رہ گئے۔ مسلم خواتین کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا جواز تو ضرور تلاش کیا گیا لیکن خواتین کے ریزرویشن بل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ عورتوں کو عزت دینا تو دور ان کی عصمت سے کھلواڑ کرنے والوں کی خود بی جے پی حفاظت کرتی دکھائی دی۔ دفعہ 356 کے بے جا استعمال کی شروعات جنتا پارٹی کے دور حکومت میں ہوئی۔ مرارجی دیسائی نے کانگریس کی منتخب حکومتوں کو خارج کردیا تھا۔ واضح رہے کہ جنتا پارٹی میں جن سنگھ جو جنتا پارٹی ٹوٹنے کے بعد بی جے پی بنی شامل تھی۔ موجودہ حکومت بھی اس سے اچھوتی نہیں رہی۔ اتراکھنڈ کی ہریش راوت سرکار کا گرایا جانا شاید ابھی لوگوں کو یاد ہوگا۔ بھاجپا کی سربراہی والی حکومت میں نہ صرف عدم رواداری بڑھی بلکہ ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت میں اضافہ ہوا۔ سماج اور نوکر شاہی کی تقسیم اب نظر آنے لگی ہے۔

 پچپن سال اور پچپن ماہ کے حساب کتاب میں ان سے کچھ چھوٹا، تو وہ تھا رابرٹ واڈرا کا معاملہ۔ پارلیمنٹ کے باہر ٹیلی ویژن پر ان کے نمائندے وہی باتیں عام کئے جا رہے ہیں، جو ای ڈی کی چاردیواری میں قید ہیں۔ کیسے ہو رہا ہے یہ سب؟ نمائندے بول رہے ہیں "معلومات ہمیں میڈیا سے مل رہی ہے”۔ گھڑی کی سوئی الٹی گھوم رہی ہے۔ پہلے میڈیا والے بولتے تھے "قابل اعتماد ذریعہ سے ملی معلومات” اب حکومت کے نمائندے بولتے ہیں ‘میڈیا سے ملی جانکاری’۔ کسی اور کی خریدی ہوئی پراپرٹی پر عین انتخابات کے وقت واڈرا کو کیوں چپکایا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ معاملہ 2005-2010 کے بیچ کا ہے۔ سوال جانچ ایجنسیوں پر بھی ہے کہ 2014 سے مودی سرکار اقتدار میں ہے، تو ای ڈی کے افسران کو منی لانڈرنگ کا پتا کیوں نہیں چلا۔

 دراصل اس کے ذریعہ بھاجپا یوپی میں پرینکا کارڈ کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اس کا اندازہ شاید کانگریس صدر کو  ہے تبھی انہوں نے کہا کہ واڈرا، چدمبرم جانچ کرائیے، پر رفال پر جواب دیجئے۔ پرینکا گاندھی خود اپنے شوہر کو ای ڈی کے دفتر چھوڑنے اور لینے جا رہی ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ کانگریس اپنی کمزوری کو اس بار ہتھیار بنا چکی ہے۔ اب سوال واڈرا پر اٹھا ہے تو بحث میں اٹل بہاری واجپئی کے داماد رنجن کشور بھٹاچاریہ اور امت شاہ کے صاحب زادے جے شاہ کا نام آئے گا ہی۔ رنجن کشور کا اربوں روپے کی پراپرٹی کا مالک بننا اور جے شاہ کی پچاس ہزار روپے سے ایک ہی سال میں اسی کروڑ روپے کی کمپنی بننے کا معاملہ کیا انکم ٹیکس و دیگر ایجنسیوں کے لئے تحقیق کا موضوع نہیں ہے۔

راہل گاندھی رفائل پر سرکار کو گھیر رہے ہیں۔ عام انتخابات میں یہ مدیٰ کتنے ووٹ دلا پائے گا۔ یہ تو وقت بتائے گا البتہ مودی جی نے پچپن ماہ کا جو حساب دیا ہے۔ اپوزیشن انہیں موضوعات کو کراس چیک کر کے عوام کے درمیان لے کر کیوں نہیں جاتے۔ بے روزگاری، نوٹ بندی میں لٹ پٹ گئے لوگ، جی ایس ٹی سے برباد ہوئے کاروباری، سب کے لئے صحت، بے گھروں کو گھر، ڈبل ڈیجٹ مہنگائی اور کسانوں کی بدحالی کیا کور ایشو نہیں ہیں ؟ کانگریس کو چاہئے کہ عام آدمی سے تعلق رکھنے والے مدوں کو اٹھائے۔ ساتھ ہی بحیثیت صدر راہل گاندھی کو اپنے بڑ بولے لیڈران کو بھی کنٹرول میں رکھنا ہوگا کیونکہ 2014 میں چائے والا کہہ کر مودی کو عام آدمی سے جڑنے کا موقع دیا تھا۔ گجرات الیکشن کے وقت نیچ کہنا کانگریس کو بھاری پڑا۔ ای وی ایم ہیکنگ پر ہو رہی کانفرنس میں کسی کانگریسی کے شامل ہونے سے یہ مدیٰ کمزور ہو گیا۔ کانگریس کو دانشمندی سے کام لینا ہوگا تاکہ اس کا بنا بنایا کھیل بگڑنے نہ پائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔