انسان قران کے آئینہ میں (قسط چہارم)
ندرت کار
دسویں صفت : وسوسے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُل أَعوذُ بِرَبِّ النّاسِ ١ مَلِكِ النّاسِ ٢ إِلـٰهِ النّاسِ ٣ مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاسِ ٤ الَّذى يُوَسوِسُ فى صُدورِ النّاسِ ٥ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ ٦﴾… سورة الناس
"آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں ، لوگوں کے مالک کی، لوگوں کے معبود کی (پناہ میں ) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کی برائی سے جو لوگوں کے سینوں (دلوں ) میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جو جنوں میں سے ہے اور انسانوں میں سے”
اور اس کا ارشاد ہے:
﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ وَنَعلَمُ ما تُوَسوِسُ بِهِ نَفسُهُ ۖ وَنَحنُ أَقرَبُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَريدِ ١٦ ﴾… سورة ق "اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو
وسوسہ تک اس کے دل میں گزرتا ہے ہم اسے بھی خوب جانتے ہیں اور ہم اس سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں "
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إن الشيطان جاثم علی قلب ابن ادم فإذا ذکر الله تعالیٰ خنس وإذا غفل وسوس»
"شیطان ابن آدم کے دل پر بیٹھا رہتا ہے۔ جب وہ اللہ کاذکر کرتا ہے تو وہ (شیطان) پیچھے ہٹ جاتاہے اور جب (یادِالٰہی سے) غافل ہوجاتاہے تو وہ وسوسے ڈالتا ہے”
شیطانِ لعین چھپ کر اور پوشیدہ طور پر وسوسہ ڈالتا ہے اوریہ معرکہ انسان اور شیطان کے درمیان برابر جاری ہے اوریہ معرکہ آدم اور ابلیس کے درمیان، پہلے اس وقت ہوا جب اس نے ان کے اور ان کی بیوی کے دل میں وسوسہ پیدا کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطـٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَبُّكُما عَن هـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخـٰلِدينَ ٢٠ ﴾… سورة الاعراف
"اور شیطان نے دونوں کو وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی پوشیدہ شرمگاہیں ان کے لئے ظاہر کردے اور کہا کہ تمہیں تمہارے ربّ نے اس درخت سے اس لئے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہوجاؤ یا (جنت میں ) ہمیشہ کے نہ ہوجاؤ”
یہ وسوسہ جس طر ح شیاطین و جنات کی طرف سے ہوتا ہے ایسے ہی ان انسانوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے جو برے اور شریر ساتھی ہوتے ہیں اور یہ شیطان کے وسوسے سے سخت ہوتا ہے۔ ان میں چغل خور، عیب جو، شرپسند، فساد پرور، بدعات اور نفسانیت کے پرستار شامل ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کو خوشنما اور پرفریب باتوں کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ معرکہ شیاطین اور صالحین و موٴمنین کے درمیان برابر جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنَّ الشَّيـٰطينَ لَيوحونَ إِلىٰ أَولِيائِهِم لِيُجـٰدِلوكُم ۖ وَإِن أَطَعتُموهُم إِنَّكُم لَمُشرِكونَ ١٢١ ﴾… سورة الانعام
"بے شک شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم مشرک ہوگے”
شیطان انسان کو دھوکہ دینے کے لئے ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ثُمَّ لَءاتِيَنَّهُم مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم وَعَن أَيمـٰنِهِم وَعَن شَمائِلِهِم ۖ وَلا تَجِدُ أَكثَرَهُم شـٰكِرينَ ١٧ ﴾… سورة الاعراف
"پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے زیادہ تر کو شکرگزار نہیں پائے گا”
لیکن ان کا غلبہ اور اقتدار انہی پر ہوتا ہے جو اس کی اطاعت کرتے اور اسے دوست بناتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّهُ لَيسَ لَهُ سُلطـٰنٌ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ ٩٩ إِنَّما سُلطـٰنُهُ عَلَى الَّذينَ يَتَوَلَّونَهُ وَالَّذينَ هُم بِهِ مُشرِكونَ ١٠٠ ﴾… سورة النحل
"بے شک ان لوگوں پر اس (شیطان) کا کوئی قابو نہیں جو ایمان لائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اس کا قابو تو انہی پر ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور جو اس (اللہ) کے ساتھ شرک کرتے ہیں "
اللہ تعالیٰ انسان کے نفس کے وسوسے کو بھی جانتا ہے اور اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ وہ پوشیدہ و ظاہر کو یکساں جانتا ہے۔ لہٰذا انسان کو شیاطین کے وسوسے سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ اس کے جال اور پھندے ہیں جس سے وہ اس کو شکار کر لیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ موٴمن کو چاہئے کہ اس کے وسوسے اور اس کی انگیخت سے پناہ مانگتا رہے کیونکہ شیطان کمزور اور چور ہے اور وہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ان کے پاس سے فرار ہوجاتا ہے۔ وہ ان سے دوررہتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ
"شیطان حضرت عمر بن خطاب کے نزدیک نہیں جاتا اور اگر وہ کسی وادی میں چل رہے ہوتے ہیں تو شیطان دوسری وادی کی راہ اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل رہتا ہے، شیطان اس کے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ رہتا ہے” … اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَن يَعشُ عَن ذِكرِ الرَّحمـٰنِ نُقَيِّض لَهُ شَيطـٰنًا فَهُوَ لَهُ قَرينٌ ٣٦ وَإِنَّهُم لَيَصُدّونَهُم عَنِ السَّبيلِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ ٣٧ ﴾… سورة الزخرف
"اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوجائے، ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور وہ اسے (سیدھے) راستے سے روکتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں "
گیارہویں صفت: غروروتکبر
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الكَريمِ ٦ الَّذى خَلَقَكَ فَسَوّىٰكَ فَعَدَلَكَ ٧ ﴾… سورة الانفطار
"اے انسان! تیرے شفیق ربّ سے کس چیز نے تجھے فریب میں رکھا ہے، جس نے تجھے پیدا کیااور درست اور مناسب بنایا۔ جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی اور ڈھالا”
اور اس کا ارشاد ہے :
﴿ذٰلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذتُم ءايـٰتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتكُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا…٣٥ ﴾… سورة الجاثية
"یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کو مذاق بنالیا اور تمہیں حیاتِ دنیا نے مبتلائے فریب کردیا”
نیز اس نے فرمایا ہے:
﴿وَلـٰكِنَّكُم فَتَنتُم أَنفُسَكُم وَتَرَبَّصتُم وَارتَبتُم وَغَرَّتكُمُ الأَمانِىُّ حَتّىٰ جاءَ أَمرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الغَرورُ ١٤ ﴾… سورة الحديد
"لیکن تم نے خود کو فتنے میں ڈال دیا اور انتظار کیا اور تمہیں جھوٹی آرزوؤں نے فریب خوردہ بنا دیا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور شیطان نے تمہیں اللہ کے بارے میں فریب میں ڈال دیا”
اور اس کا ارشاد ہے :
﴿إِنِ الكـٰفِرونَ إِلّا فى غُرورٍ ٢٠ ﴾… سورة الملك "بے شک کافر صرف فریب میں ہیں "
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غرور کی صفت انسان میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اللہ کے راستے سے دور ہوجاتا ہے اور اپنے رب سے باغی ہوجاتا ہے پھر اس کے واجبات میں کوتاہی کرتا اور اس کی نواہی کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ اسی نے اسے گونا گوں نعمتوں سے نوازا ہے۔
انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اسی سے غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ فریب میں مبتلا ہوکر سوچتا ہے کہ وہ امن و اطمینان میں ہے۔ وہ ہلاکت کے کام کرنے لگتا ہے اوراللہ کے غیظ و غضب کے لئے خود کو پیش کردیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے اور وہ اپنی شفاعت کے لئے کوئی نیک عمل اور ایمان و تقویٰ پیش نہیں کرتا۔ لہٰذا انسان کی خود فریبی کی صفت صرف تقویٰ، درست عقیدے اور اللہ سبحانہ کے ڈر سے ہی دور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُرورِ ٢٠ ﴾… سورة الحديد
"دنیا کی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے” … اور فرمایا:
﴿فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا وَلا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الغَرورُ ٣٣ ﴾… سورة لقمان
"تمہیں حیاتِ دنیا فریب میں نہ ڈال دے اور تمہیں شیطان اللہ سے دھوکہ نہ دے دے”
بارہویں صفت: کاوِش و محنت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا الإِنسـٰنُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلىٰ رَبِّكَ كَدحًا فَمُلـٰقيهِ ٦ ﴾… سورة الانشقاق
"اے انسان! بے شک تو مشقت اٹھائے اپنے ربّ کی طرف جارہا ہے اور اس سے جاملے گا”
نیز اس کا ارشاد ہے:
﴿لَقَد خَلَقنَا الإِنسـٰنَ فى كَبَدٍ ٤ ﴾… سورة البلد "ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا "
انسان اس دنیا میں مشقتیں برداشت کرتے ہوئے اور روزی کی طلب میں کوشش کرتے ہوئے سفر حیات طے کرتا ہے۔ وہ اپنے ربّ تک رسائی کے لئے اپنا رستہ بناتا ہے کیونکہ اسے محنت و کاوش اور تکان کے بعد اسی کی طرف لوٹنا اور اسی کے پاس ٹھکانہ بنانا ہے
اس دنیا میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے انسان اپنے بدن یا ذہن یا دونوں کو تھکا دیتا ہے۔ اگر اسے مال مل گیا تو اس کی تکان اور بڑھ جاتی ہے اور اگر جاہ و منصب مل گیا تو اس کی فکر اور غم اور بڑھ جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے *
کلما ازداد الفتیٰ علما بها
کلما يدخل في عيش أمر
"جیسے جیسے کسی نوجوان کو اس کا زیادہ علم ہوتا ہے، زیادہ کڑوی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے”
یہ مشقت و تکان کی زندگی ہے جس میں آرام و سکون نہیں ، یہ مشقت و تکلیف اور حسرت و آزردگی کی زندگی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
وما السعادة في الدنيا سویٰ أمل
يرجی، فإن صار حقا مله البشر
"دنیا کی سعادت آس و امید کے سوا کچھ نہیں اور اگر پوری ہوجائے تو خوشی اسے آزردہ کردیتی ہے”
لہٰذا انسان طلب ِدنیا میں جو مشقت اٹھاتا ہے اگر وہ اپنے ربّ کی عبادت میں اُٹھاتا رہے تو اللہ اس کے بدلے میں اسے قلبی سعادت اور آخرت کا اجر دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ دنیا کی مشقت اٹھائے تو اس کی فکر اور غم و بدبختی اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَمَن أَعرَضَ عَن ذِكرى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُهُ يَومَ القِيـٰمَةِ أَعمىٰ ١٢٤ قالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنى أَعمىٰ وَقَد كُنتُ بَصيرًا ١٢٥قالَ كَذٰلِكَ أَتَتكَ ءايـٰتُنا فَنَسيتَها ۖ وَكَذٰلِكَ اليَومَ تُنسىٰ ١٢٦ ﴾… سورة طه
” اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑ لیا اس کے لئے تنگ زندگی ہے اورہم اسے قیامت کے روز اندھا بنا کر اٹھائیں گے، وہ کہے گا کہ "میرے ربّ! مجھے اندھا کیوں اٹھایا جبکہ میں بینا تھا” تو اللہ فرمائے گا کہ : "ایسے ہی تمہارے پاس میری آیتیں آئیں تو تم نے انہیں فراموش کردیا اسی طرح تم آج اس دن فراموش کردیئے جاؤ گے”
لوگ محنت و مشقت کے معاملے میں بھی مختلف سوچ رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ علم کی جستجو میں محنت کرتے ہیں اور بعض دنیا سمیٹنے میں محنت کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی ساری کوشش دوسروں کو اللہ کے راستہ سے روکنے کے لئے صرف ہوتی ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ بعض ایسے ہیں جوجنت کی طلب اور ربّ کی رضا کے لئے محنت کرتے ہیں ۔ بعض ایسے ہیں جو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نوع بہ نوع معاصی کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا اے انسان! تو راہِ جنت کواختیار کر نہ کہ دوزخ کو۔ باقی محنت و مشقت، رنج و غم تو اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کے لئے، دنیا و آخرت دونوں میں لکھ دیا ہے۔
جبکہ طالبین جنت کو سکون و قرار اور راحت و اطمینان دنیا و آخرت دونوں جگہ ملتا رہے گا کیونکہ جب اسے ثواب و بہترین اجر کا علم ہوا تو اس نے اپنے ربّ کو خوش کرنے کے لئے نوع بہ نوع محنت و مشقت کرنا شروع کردی۔ اس محنت و ریاضت میں بھی اسے وہ سکون اور اطمینان ملتا ہے جو دنیا کی ہر آسائش پالینے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔
(جاری ہے)
تبصرے بند ہیں۔