شمبھو لال ریگر ’جہادی‘ کیسے بنا؟

ڈاکٹر قمر تبریز

اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے تھوڑی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ جہاد، شہید اور خلافت۔۔۔ یہ تین ایسے الفاظ ہیں، جن سے اردو زبان بولنے سمجھنے والے تو بخوبی واقف ہیں، لیکن غیر اردو داں حضرات ان تینوں الفاظ کے استعمال میں اکثر ’جہالت‘ کی حد کو بھی پار کر جاتے ہیں۔ لفظ ’جہاد‘ کو مسلم دشمن عناصر نے ’دہشت گردی‘ کا ہم معنی سمجھا اور اسی معنی کے تحت اسے پوری دنیا میں پھیلایا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے اپنے طریقے سے ’اسلامی جہاد‘ کے معنی و مطالب سمجھائے اور اب ہندوستان میں بھی ہندو بھائیوں کی طرف سے اس کا استعمال اسی معنی میں ایک لمبے عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک لفظ ’شہید‘ کا تعلق ہے، تو اس میں دنیا و آخرت اور پھر جنت کا تصور بھی شامل ہے۔ قرآن اور اسلام کی تعلیمات میں ’شہید‘ اور ’شہادت‘ کے صحیح معنی اور اس کے پورے منظر و پس منظر کو تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے۔ باوجود اس کے ’شہید‘ لفظ کا استعمال اسلام کو نہ ماننے والے بھی کرتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ اور آخری لفظ ’خلافت‘ غیر اردو داں طبقہ عام طور سے ہندوستان میں ’مخالفت‘ کی جگہ پر استعمال کرنے لگا ہے۔ گویا کہ ان تینوں الفاظ کا استعمال اس کے صحیح معنی و مطالب اور پس منظر کو جانے بغیر کرنا، میری نظر میں ایک طرح سے ’جہالت‘ ہی ہے۔

اب آتے ہیں، شمبھو لال ریگر کے ’جہادی‘ بننے کی کہانی پر۔ یہاں میں نے ’جہادی‘ لفظ قصداً اس لیے استعمال کیا، کیوں کہ وہ راجستھان کے راج سمند میں مغربی بنگال کے 50 سالہ ٹھیکہ دار محمد افرازالحق کا جب قتل کر رہا تھا اور اس کا لائیو ویڈو بنوا رہا تھا، تو اس کا طریقہ بھی وہی تھا، جسے ہمارے ملک کے اکثر ہندو ’جہاد‘ سمجھتے اور پھر اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یعنی ان کی زبان میں اگر شمبھو لال کے اس جرم کو ’ہندو جہاد‘ کہا جائے، تو یہ غلط اس لیے نہیں ہوگا، کیوں کہ ہندوستان کے سخت گیر ہندوؤں کی نظر میں اس کی تعریف ’جہاد‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ اب اگر اُن کی طرف سے کوئی یہ دلیل دے کہ ہندو مذہب عدم تشدد میں یقین رکھتا ہے، تو اسے اس لیے نہیں مانا جا سکتا، کیوں کہ مذہب اسلام بھی اس قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سرپھرا مسلمان دہشت گرد بن جائے اور معصوم انسانوں کا قتل کرنے لگے، تو اس میں ’اسلام‘ کہاں سے آگیا اور ’اسلامی جہاد‘ کیا چیز ہے؟

بہرحال، تشویش کی بات یہ ہے کہ اب ہندوؤں میں بھی ’جہادی‘ پیدا ہونے لگے ہیں۔ اور میرے خیال سے اس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے، جس نے ہندوؤں کے ہاتھ میں ایک نیا لفظ ’لوجہاد‘ کی شکل میں پکڑا دیا۔ حالانکہ، میں خود ذاتی طور پر سنگھ کی قدر اس لیے کرتا ہوں، کیوں کہ اس کے اندر جس اعلیٰ سطح کی انتظامی صلاحیتیں ہیں، وہ ہندوستان کی کسی اور تنظیم میں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ہاں، ان کے نظریہ سے میں سخت اختلاف رکھتا ہوں۔ آر ایس ایس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹ، فریب، دغا۔۔۔ ہر ایک چیز کا سہارا لیتے ہیں۔ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اور اب تو اپنے غلط کارناموں کو صحیح ٹھہرانے کے لیے ’دیش بھکتی‘ تک کا سہارا لینے لگے ہیں۔ ’دیش بھکتی‘ یا اپنے وطن سے محبت بہت اچھی چیز ہے، لیکن ’دیش‘ کے ساتھ ساتھ اس میں رہنے والے لوگ بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ پھر ایک ہی ’دیش‘ کے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر آپس میں بانٹنا بھلا ’دیش بھکتی‘ کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اب ملک کی شاندار تاریخ کو بھی ’غلامی‘ کی نشانی بتایا جانے لگا ہے۔ اور اس میں اب ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ یہ ٹھیک بات ہے کہ وہ بھی کسی زمانے میں آر ایس ایس کا رکن ہوا کرتے تھے، لیکن اب تو ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر وہ اپنی تقریروں میں ’سوا سو کروڑ‘ ہندوستانیوں کی بات کرتے ہیں، تو پھر ’مغل‘ لفظ سے انھیں نفرت کیوں ہے؟ اور مغلیہ دور کو بھی وہ ہندوستان کی غلامی کے دور میں کیوں شامل کرتے ہیں ؟

شمبھو لال کے ’لائیو مرڈر‘ کا ویڈیو میں نے بار بار دیکھا، اس لیے کہ آنے والے دنوں میں ملک پر اس کا بہت گہرا اثر پڑنے والا ہے۔ آر ایس ایس کو اگر واقعی اس ملک سے پیار ہے، تو اسے اپنی سوچ اور کام کرنے کے طریقہ کو بدلنا ہوگا، ورنہ شمبھولال جیسے نہ جانے کتنے ’جہادی‘ ہندوستان میں پیدا ہوجائیں گے یا ہو سکتا ہے کہ پیدا ہو بھی چکے ہوں۔ شمبھولال کا یہ ویڈیو بتا رہا ہے کہ اسے اس ’جہاد‘ کی زبردست ٹریننگ ملی ہوئی ہے۔ وہ ایک تربیت یافتہ ’دہشت گرد‘ ہے اور جو لوگ اسے ’پاگل‘ یا ’ڈرگ ایڈکٹ‘ بتا رہے ہیں، وہ دراصل ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں، تاکہ قانونی کارروائی سے اس کی جان بچائی جا سکے، جس میں اسے پھانسی تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ شمبھو لال جیسے ’جہادیوں ‘ کی ٹریننگ کس کیمپ میں ہو رہی ہے۔ ملک کی سیکورٹی کے لیے ایسا کرنا نہایت ضروری ہے۔ شمبھو لال جب پولس کی گرفت میں اپنے چہرے پہ پڑے پردے کے پیچھے سے میڈیا والوں کو یہ بتا رہا تھا کہ محمد افراز الحق سے اس کی جان کو خطرہ تھا، وہ سراسر جھوٹ اس لیے لگتا ہے، کیوں کہ قتل کی واردات کو انجام دیتے وقت اس کے باڈی لینگویج سے کہیں بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ ایسی کوئی بات ہے۔

جیسا کہ بتایا جا رہا ہے، محمد افرازالحق نے کسی سے ’لوجہاد‘ کر لیا تھا، اس وجہ سے شمبھو لال اس کا جانی دشمن بن گیا۔ نہیں۔ ۔۔ اگر ایسا ہوتا، تو افرازل اس کے ساتھ اس کے کھیت تک نہیں جاتا۔ نہایت پیشہ ورانہ انداز میں شمبھو نے ایک دوستانہ ماحول میں افرازالحق سے اپنے کھیت پر چلنے کے لیے کہا، پھر ایک جگہ دونوں نے اپنی اپنی گاڑی کھڑی کی۔ وہاں پر افرازالحق اپنی موٹر سائیکل سے گیا، جب کہ شمبھولال اپنی اسکوٹی سے۔ پھر موٹرسائیکل سے اترنے کے بعد افرازالحق کھیت کی طرف آگے آگے چلنے لگتا ہے، اس بات سے بالکل بے خبر کہ اس کے قتل کا پلان پہلے ہی تیار ہو چکا ہے۔ پھر اس کے پیچھے چل رہے شمبھولال نے آرام سے ایک بورے کے اندر سے کلہاڑی نکالی اور افرازلحق پر پیچھے سے وار کر دیا۔ پہلا وار خالی گیا، پھر تابڑ توڑ کئی وار۔ افراز الحق اپنی جان کی بھیک مانگتا رہا، لیکن شمبھو لال ایک پیشہ ورانہ قاتل کے طور پر اس پر کلہاڑی سے وار کرتا رہا۔ پھر جب وہ وہاں ڈھیر ہو گیا، تو شمبھو واپس بوریے کے پاس آیا اور اس میں سے ایک بڑی گینتی نکالی اور اس سے افرازالحق کی گردن پر دو وار کیے۔ پھر اپنی اسکوٹی کے پاس آیا، اس میں سے پٹرول نکالا، افرازا لحق کے نیم مردہ پڑے جسم پر چھڑکا اور پھر اس میں آگ لگا دی۔ ویڈیو میں یہ ساری حرکتیں اب تک ایک پیشہ ور قاتل کی تھیں۔

لیکن، اس پوری واردات کو انجام دینے کے بعد جیسے ہی وہ واپس اس پورے واقعہ کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے کے پاس آیا اور بولا کہ ’’جہادیوں تمہارا یہی انجام ہوگا، پورے دیش میں لوجہاد کرنے والوں کو ایسے ہی مار دیا جائے گا‘‘، تب تک وہ خود ایک ’جہادی‘ بن چکا تھا، اسلامی جہادی نہیں ’ہندو جہادی‘۔ جس نے سب سے پہلے اس ملک میں ’لوجہاد‘ کی جھوٹی اصطلاح دریافت کی، اس کے معنی و مطالب اور منظر و پس منظر بتائے، اسی نے شمبھو لال کو آج ایک ’جہادی‘ بنا دیا، ایک ’ہندو جہادی‘۔ نہ جانے پورے ملک میں شمبھو لال جیسے کتنے ’جہادی‘ موجود ہیں، جو کل کو ایسے کتنے معصوموں کا قتل کریں گے، سچ اور جھوٹ کی بنیاد پر، پروپیگنڈے کی بنیاد پر۔ آر ایس ایس اور اس کی ہم نوا تنظیمیں جس ’لو جہاد‘ کا ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہیں، آج تک ملک کی کوئی بھی تفتیشی ایجنسی اسے ثابت نہیں کر سکی ہے۔ پیار۔ محبت، شادی بیاہ ان چیزوں سے پرے ہے۔ پتہ نہیں، آر ایس ایس کے من میں یہ اصطلاح کہاں سے آئی۔ میں نے سنا ہے کہ آر ایس ایس میں اگر کسی کو کوئی عہدہ حاصل کرنا ہے، تو اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ وہ شخص شادی شدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سنگھ کے اسی اصول نے ’لو جہاد‘ کو جنم دیا ہے؟ پتہ نہیں۔ ’لو جہاد‘ نہ تو مغلوں کے دور میں کبھی ہوا، نہ ان سے پہلے خلجیوں، لودھیوں، تغلقوں کے دور میں، پھر آج کیسے ہو گیا؟

بین مذاہب شادی کا رواج خاص کر ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس میں ہر مذہب کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ آر ایس ایس خوامخواہ اسے طول دے کر جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور ملک کو توڑنے کا کام کر رہا ہے۔ اس لیے کہ جتنی ہندو لڑکیاں مسلمانوں سے شادی کر رہی ہیں، اس سے کہیں زیادہ مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں سے شادی کر رہی ہیں۔ تو کیا، مسلمانوں کو بھی شمبھولال کی طرح ہی ’جہادی‘ بن جانا چاہیے؟ نہیں بھائی۔ ۔۔ ملک ٹوٹ جائے گا، کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔