انسان کے ہاتھوں برپا ہونے والا ارتقأ
ادریس آزاد
اس بات میں اب شک کی کچھ بھی گنجائش نہیں رہی کہ انسان نے ارتقأ کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ابھی سیلیکٹو بریڈنگ کی حیرانیاں کم نہ ہوئی تھیں کہ ٹرانس جینک ریسرچ نے حیاتیات کی دنیا میں ہنگامہ برپا کردیا۔ ٹرانس جینک ریسرچ نہایت سستی، آسان اور تیزی سے نتائج دینے والی ریسرچ ہے۔
اس لیے یہ گمان کیا جارہاہے کہ آنے والے دوتین عشروں میں ٹرانس جینک ریسرچ کے میدان میں انسان اتنی زیادہ ترقی کرجائے گا کہ شاید ہی سائنس کی کوئی اور شاخ اس ترقی کا مقابلہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک ، مذاہب، اقوام اور عوام نے ٹرانس ہیومنزسوسائٹیز بنا کرابھی سے آنے والے تبدیل شدہ انسان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ دراصل جب سے ڈی این اے کی کوڈنگ کو پڑھا جاسکنا ممکن ہوا ہے، حیاتیات کی دنیا میں سب کچھ بدل گیا ہے۔
اب بجا طور پر کہا جاسکتاہے کہ ارتقأ کا وہ عمل جو ہزاروں سال قدرت کے ہاتھوں میں تھا اب انسانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ٹرانس جینک ریسرچ کیا ہے؟ یا ٹرانس ہیومنزم کیا ہے ؟ ان موضوعات پر میں پہلے ہی نہایت تفصیلی مضامین لکھ چکاہوں۔ مندرجہ ذیل سطور میں ، میں ٹرانس جینک ریسرچ کی فقط دوتین مثالیں پیش کرنا چاہتاہوں۔
سبزی جیسی غذائیت کا حامل گوشت
’’پاپائے سُور‘‘ (Popeye Pig) ایک اور ٹرانس جینک جانور ہے۔یہ ایسا عجیب و غریب ٹرانس جینک تجربہ ہے جس کی توقع ناممکن کے قریب تھی۔ یعنی ایک پودے اور ایک جانور کو آپس میں ملاکرایک تیسرا جاندار پیدا کرنا۔ ہم جانتے ہیں کہ جانداروں کی اکائی ایک سیل (خلیہ) ہے۔
زندگی اپنی گہری بنیادوں میں سیل کی صورت مکمل طور پر ’’وحدہُ لاشریک‘‘ ہے۔پودوں کا سیل ہو یا جانوروں کا دونوں ہی بنیادی طور پر فقط جینٹک کوڈنگز ہیں۔پاپائے سور ایک ایسا جاندار ہے جو ویسے تو ایک سور(پورک) ہے لیکن اسے پالک کے پودے کے ساتھ ملاپ کے بعد پیدا کیا گیا ہے۔
سُور کے انڈے میں پالک کے جینز داخل کرکے پیدا کیا گیا یہ جانور ایک مکمل طور پر صحت مند جاندار ہے جسے کسی قسم کی کوئی جسمانی بیماری یا مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
یہ دنیا کا پہلا جینٹکلی انجنئرڈ ممالیہ جانور ہے جس میں ایک پودے کے ڈی این اے کی پیوند کاری کی گئی ہے۔یہ سُور بنیادی طور پر کم سے کم چکنائی(Fats) والے گوشت کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ’’پاپائے سُور‘‘ کو بیک وقت،سبزی خوروں کو گوشت اور گوشت خوروں کو سبزی کی غذائیت فراہم کرنے کے لیے کامیابی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔
جن جاپانی سائنسدانوں نے پاپائے سُور کو پیدا کیا ہے ان کا کہناہے کہ، ’’وہ لوگ جو چربی کی وجہ سے گوشت نہیں کھاتے تھے اب فکرمند ہونا چھوڑ دیں‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ جلد ہی دوسرے جانوروں کو بھی اِس طریقہ پر پیدا کیا جانا شروع کردیا جائے گا۔
طریقہ فقط یہ ہے کہ پالک کے جینز لے کرمادہ سوُر کے جفتی خلیے(یعنی انڈے) میں داخل کردیے جاتے ہیں اور پھر وہ خلیہ ایک مادہ (surrogate)کے رحم میں رکھ کر بارآور کروالیا جاتاہے۔
کِنکی یونیورسٹی (Kinki University) جاپان میں جینٹک انجنئرنگ کے پروفیسرڈاکٹراَکیرا اِریٹنی(Dr. Akira Iritani) کے بقول،
’’کسی ممالیہ جانور اور پودے کے ملاپ کا ، یہ دنیا کا پہلاکامیاب تجربہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاپائے سُور مکمل طور پر ایک صحت مند جانور ہے‘‘
ڈاکٹر اَکیرا نے مزید کہا کہ،
’’اِن سُوروں سے حاصل ہونے والا گوشت عام سُوروں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ صحت بخش ہے۔ اگرچہ ایسا کہنا تو قبل ازوقت ہوگا کہ ان کا گوشت دراصل پالک جتنی ہی غذائیت کا حامل ہے۔یہ وہی پالک ہے جو پاپائے کارٹون کھاتا تھا اور اُس میں اچانک بے پناہ طاقت آجاتی تھی‘‘
اس پیداوار کے خلاف کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ڈاکنٹر ’’وکی رابن سن‘‘ جو رائل سوسائٹی فار دہ پری وینشن آف کُرولٹی ٹُو اینملز‘‘ کے ایک سائنسدان ہیں، نے کہا کہ،
’’اگر لوگ اپنی غذاؤں میں سبزیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتےہیں تو انہیں فقط سبزیاں کھانی چاہییں۔اس ریسرچ کی رپورٹ سے ہم لوگ بے پناہ پریشان ہوگئے ہیں۔یہ مکمل طو ر پر شرمناک عمل ہےاورہم اِن تجربات کے وجود پر سوال اُٹھاتے ہیں‘‘
تیز رفتار اور خودکارعلاج کا قوی امکان
جہاں ٹرانس جینک ریسرچ سے بعض خوفناک ایجادات متوقع ہیں وہیں کچھ نہایت خوشکن کام بھی ہونے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک چھوٹی سی پانی کی چھپکلی ہےجسے عام لوگوں کی زبان میں ’’میکسیکن سیلمنڈر‘‘(Mexican Salamander) کہاجاتاہے۔
لوگ اِسے گھریلو ایکویریم میں عام مچھلیوں کی طرح پالتےہیں۔ بیالوجی کے ماہرین اِس چھپکلی کو ’’کنگ آف دہ ری جنریشن‘‘ کالقب دیتےہیں۔ یعنی کرۂ ارض پر پائے جانے والے تمام جانداروں میں یہ واحد ایسا جاندار ہے جو بہت ہی مختصر وقت میں اپنی مرمت آپ کرلیتاہے۔ ان چھپکلیوں کو قدرت نے اپنا علاج کرنے کی بے پناہ صلاحیت عطاکی ہے۔ اگر ایک میکسیکن سیلمنڈر کسی حادثے میں آدھی کٹ جائے تو مہینے کے اندر اندر اپنا وجود دوبارہ پیدا کرلیتی ہے
۔اس کی ریڑھ کی ہڈی اور کٹی ہوئی ٹانگیں تک ایک مہینے کے اندر اندر دوبارہ اُگ آتی ہیں۔اور تو اور اگر ان کے دماغ کا کچھ حصہ کسی حادثے میں ضائع ہوجائے تو حیرت انگیز طور پر دماغ بھی چند دنوں میں دوبارہ پیدا ہوجاتاہے۔سائنسدان دن رات اِس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح میکسیکن سیلمنڈر سے ایسی ٹرانس جینک ادویات دریافت کرلی جائیں جو انسانوں میں داخل کی جائیں تو وہ بھی اپنے آپ کو اِسی رفتار کے ساتھ خود ہی مرمت کرلیا کریں۔
اِسی طرح ’’شفابخش اونٹنیوں‘‘ کی پیداوار کا کام ہے۔سائنسدان ٹرانس جینک تجربات کے بعد ایسی اونٹنیاں پیدا کرنے والے ہیں جن کا دُودھ انسانوں کے لیے دوائی کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔ان اُونٹنیوں کو کیوریٹوکیملز کا نام دیا گیاہے۔یہ اونٹنیاں فارماسیوٹیکل پروٹینز والا دودھ دیں گی جس کا استعمال باقاعدہ دوائی کے طور پر کیا جاسکے گا۔ان ادویات میں انسولین اور اینٹی کلاٹنگ ایجنٹس(Anti-Clotting Agents) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔یہ دودھ سستا ہونے کی وجہ سے مہنگی ادویات کے دور کا مکمل طور پر خاتمہ کردیگا۔
روشنی خارج کرنے والے جانوروں کی پیداوار
’’بائیولُومِی نَے سینس‘‘ (Bioluminescence) قدرت کا نہایت حیرت انگیز کرشمہ ہے۔’’بائیولُومی نَے سینس‘‘ کا اردو ترجمہ غالباً ’’حیاتیاتی نُورانیت‘‘ بنتاہےجو ایک عجیب و غریب اصطلاح ہوگی چنانچہ ہم ’’حیاتیاتی نُورانیت‘‘ کی بجائے’’بائیولُومی نَے سینس‘‘ کا لفظ ہی استعمال کرینگے۔
ہم بعض جانداروں کو روشنی خارج کرتاہوا دیکھتے ہیں۔مثلاً ہم جانتے ہیں کہ جیلی فِش سے روشنی پھوٹتی ہے۔ جگنو رات کی تاریکی میں جگمگاتا ہے۔کئی قسم کی کھمبیاں روشنی خارج کرتی ہیں۔ سمندر میں بے شمار ایسے چھوٹے چھوٹے جاندارا پائے جاتے ہیں جو نُور خارج کرتے یا نُور کا ہالہ بناتے ہیں۔ایسے تمام جانداروں کو ’’بائیولُومی نَے سینٹ‘‘ کہا جاتاہے۔
چنانچہ ’’بائیولُومی نَے سینس‘‘ وہ عمل ہے، جس کی بنا پر جاندار روشنی خارج کرتے ہیں۔یہ جاندار نیلی یا سبز روشنی کی شعاعیں خارج کرتے جو کسی ہالے کی شکل میں پھوٹتی اور بکھرتی ہیں۔ یہ عمل اس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے کہ ایسے جاندار پہلے یکلخت کیلشیم کی کچھ مقدار خارج کرتے ہیں جو فوری طور پر ایک خاص قسم کی پروٹین ’’اِیکورِن‘‘ (Aequorin) سے کیمیائی تعامل کرتی ہے۔
اس عمل کے نتیجے میں نیلی روشنی پیدا ہوتی ہے۔یہ نیلے روشنی بعد میں سبز روشنی میں بدل جاتی ہے۔ تب اِسے ’’گرین فلوراسینٹ پروٹین‘‘(GFP) کہا جاتاہے۔1961 میں نوبل پرائز ہولڈر، جاپانی سائنسدان ’’اوسامُو شِمومُورا‘‘(Osamu Shimomura) اور اُن کے ساتھیوں نے جیلی فش اور جیلی فش جیسی دیگر انواع سے ’’گرین فلوراسینٹ پروٹین‘‘ الگ کرکے بیالوجی کی دنیا میں ایک روشن باب کا اضافہ کیا۔
جلد ہی ’’اوسامُو‘‘ اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی جان لیا کہ دوسرے جانداروں میں بھی مصنوعی طریقے سے، یعنی ڈی این اے میں تبدیلی کرکے ’’گرین فلوراسینٹ پروٹین‘‘ پیدا کی جاسکتی ہے اور دوسرے جانداروں کو بھی روشنی خارج کرنے والا بنایا جاسکتاہے۔
بعدازاں ایڈز (Aids) کا علاج دریافت کرنے میں مشغول سائنسدانوں نے بعض خاص مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے ’’گرین فلوراسینٹ پروٹین‘‘ کا استعمال شروع کیا۔اور یوں کسی سیل یا اس کے کسی انفرادی جینز کا مشاہدہ کرنےکے لیے گرین فلوراسینٹ پروٹین کا استعمال عام ہوگیا۔شروع شروع میں ’’بائیولُومی نَے سینس‘‘ ٹیگز (Tags) کااستعمال یک خلوی جانداروں میں شروع کیا گیا۔ یہ گویا سیل کے اندر مختلف اجزأ کو نشان زدہ کرنے کے لیے روشنی کا استعمال کیا جارہا تھا۔
ایک طرح سے سیل جیسی باریک شئے کے اندر کی تاریکیوں کو ختم کرنے کے لیے جاندار ٹارچوں سے مدد لی گئی جو سیل کے اندر موجود باریک سے باریک اجزأ کو بھی اب روشن کرکے دکھارہی تھیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ’’بائیولُومی نَے سینس‘‘ کا استعمال بھی ترقی کرتا چلا گیا اور فی زمانہ سائنسدانوں نے ایسی بلّیاں پیدا کرلی ہیں جو رات کی تاریکی میں روشن ہوجاتی ہیں۔
اوراب سائنسدانوں نے نہ صرف روشن ہونے والی بلّیاں بلکہ گرین فلوراسینٹ پروٹین کے ذریعے روشنی خارج کرنے والے کُتے، چوہے اور سُور بھی پیدا کرلیے ہیں۔
تبصرے بند ہیں۔