تباہی کی طرف بڑھتے قدم

ابو عفاف عبدالوحيد   

امن و شانتی کے بغیر ملک و معاشرے کی ترقی ناممکن ہے۔ الفت و محبت اور باہمی بھائی چارہ کی بنیاد پر ہی معاشرہ مثبت انداز میں ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن رہ سکتاہے۔ افراد کے درمیان باہمی میل جول اور تعاون کا جذبہ جس قدروسیع ہوگا ہماری اجتماعی زندگی اتنی ہی پر سکون اور پائدار ہوگی۔ تاریخ وتجربے اس بات پر گواہ ہیں کہ قومیں بام عروج کے مدارج تب تک طے کرتی رہتی ہیں جب تک وہ باہمی کشمکش، خلفشار، بغاوت، ظلم و زیادتی کے چنگل سے محفوظ رہتی ہیں اور جوں جوں ظلم وستم کا پلڑا عدل و انصاف پر بھاری پڑنے لگتا ہے قوموں کی جڑیں کمزور ہونے لگتی ہیں۔ جبر و تشدد اور لاقانونیت ان کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلاکردیتی ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں میں تہذیب وتمدن کے مدارج طے کرنے والی قومیں لمحوں کی خطاؤں کے نتیجے نیست ونابود ہوجاتی ہیں، خود سروں کے اناکی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، اور کم ظرفوں ومفادپرستوں کے قبضے میں دم توڑ دیتی ہیں۔ آج پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ عموماً قتل و غارتگری حکومتوں کے شہہ پر انجام پارہے ہیں۔ مظلوموں کی آہ فغاں کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں، خونِ مسلم کی ارزانی اتنی کہ کشتوں کے پشتے لگ جائیں پر حکومتیں ان کی لاشوں پر اپنی سیاست کی چھری کو صیقل کرتی ہیں۔ حقوقِ انسانی کی کمیٹیاں تو بس خاص رنگ و نسل کے لوگوں کے لئے حرکت میں آتی ہیں اور فطرت سے بغاوت کرنے والے ہم جنس پرستوں کے مزعومہ حقوق کے لئے پوری دنیا میں واویلا مچاتی ہیں۔

ہم جس ملک میں سانس لے رہے ہیں وہ دن بدن نفرتوں کی کھائی میں گرتا جارہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے نفرتوں کی تخم ریزی ایسے منظم انداز میں کی گئی ہے کہ آج اس کے برگ وبار ہر سونمایا ہیں۔ تشدد کی آگ کو سیاسی ایندھن فراہم کی جارہی ہے اور مبینہ قتل وغارت گری کو عوامی نمائندوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ Mobocracy(بھیڑ کی حکومت؍بھیڑ کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا)اپنے شباب پر ہے۔ Fake News(جھوٹی خبریں؍افواہیں)کی مارکیٹنگ منظم I.T. Cellsکی نگرانی میں سوشل میڈیا پر اپنی دھاگ قائم کے ہوئے ہے، جھوٹے بیانات اور غلط خبروں کے ذریعہ کسی کی کردارکشی اور پرائیویسی پر حملہ عام سی بات ہوچکی ہے۔ میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے دامن سمیٹتے ہوئے ایک خاص رنگ وفکر کی ترویج میں مشغول ہے، اپنی مصداقیت کھوچکا ہے، T.R.Pکے چکر میں اخلاقیات کے حدود کو فلانگ کر کچھ خاص لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن چکا ہے۔ قانون کے رکھوالے بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایکشن لے رہے ہیں، مظلوموں کے درد کا مداوا نہیں، اختلافِ رائے کی اجازت نہیں، ایک خاص فکر کو پورے معاشرے پر تھوپنے کی منظم پلاننگ اپنے عروج پر ہے۔ اب تو انسانی جان ومال کی وقعت جانوروں سے بھی گئی گزری ہے۔ Mob Lynching(عوامی ہجوم کا کسی بے گناہ کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنا) تو آج ہندوستانی معاشرے کا (Trend)فیشن بنتا جارہا ہے۔ آئے دن یہ خبریں میڈیا و اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں شخص کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا اور اگر مجرمین پولیس کے ہاتھوں لگے بھی تو چند دنوں بعد آزادی کا پروانہ لئے دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں بلکہ کچھ قدآور شخصیات پھول اور مالوں کے ساتھ انکا استقبال بھی کرتی ہیں۔

آج ملک کی ترقی، معیشت، نوجوانوں کی بیروزگاری، نوکریاں، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری اور امن وامان کی بحالی کی باتیں پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ ان موضوعات پر بولنا اہل حل و عقد کو چیلنج کرنا جیسا ہے، جمہوریت میں مسندِ اقتدار پر فائز اہلِ مناصب سے سوال کرنا اب گناہ سا ہوگیاہے، بسا اوقات نوکری سے ہاتھ دھونا اور میڈیا سے برطرف کیا جانا بدیہی امر جیسا ہوچکا ہے۔ اب تو پارلیمنٹ کے ایوانوں میں شوروغوغا، تُوتُو، مَیں مَیں اور کردارکشی کا عام ماحول ہوگیا ہے۔ جہاں عوامی فلاح وبہبود کے موضوعات پر صحت مند بحث و مباحثہ ہونا چاہئے تھا وہاں ایک دوسرے پر تہمت تراشی، مناظرے بازی اور مہمل امور میں قوم کا قیمتی وقت ضائع کیا جاتا ہے، جہاں ملک وملت کی ترقی کے منصوبوں پر غور وخوض کرنے اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت تھی وہاں ملک کا قیمتی وقت وسرمایہ شوروغل، رسہ کشی، اناکی تسکین، خودستائی، اور دوسروں کی عیب جوئی کا اکھاڑا بن چکا ہے۔ ملک کی عوام یہ چاہتی ہے کہ معاشرہ امن و امان کے ساتھ آگے بڑھے، مذہبی اقداروشعائر اور دینی جذبات کا احترام ہو، اتحاد واتفاق کو فروغ ملے، معیاری تعلیمی ادارے، ہاسپٹل اور بنیادی سہولتیں ہر فرد کو دستیاب ہوں، معاشی بے اعتدالی پر لگام لگے، اس ملک کے ریسورسیز(Resources)پر سب کی حصے داری ہو، رنگ، نسل، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کوئی تمییز نہ کی جائے اور پائیدار بنیادوں پر ملک آگے بڑھتا جائے، مگر افسوس صدافسوس قدرتی ذخائر، علمی وسائنسی صلاحیتوں اور افرادی قوت سے مالامال اس وطن کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ آج یہاں محبت کے دبستانوں میں نفرت کے پودے اگائے جارہے ہیں۔ الفت کی راہوں میں عداوت کے کانٹے بچھائے جارہے ہیں۔

انسانیت کی بقاء وتحفظ اور احترام کے بجائے مارپیٹ اور خوف وہراس کا زہر ماحول میں گھولاجارہا ہے۔ ہندوومسلم کے درمیان نفرت کی خلیج کھودی جارہی ہے۔ اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ظالموں کوسزا دینے کے بجائے ان پر پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ قانون کی بالادستی قائم ہو۔ سماج دشمن عناصر کو سخت سزائیں ملیں، حکومتِ وقت ہر فرد کی حفاظت اور سالمیت کو یقینی بنائے، جمہوریت کے تانے بانے کو بکھرنے سے بچائے اور اپنے اقوال کو عملی جامہ پہنائے۔ وہیں سماج کے باشعور لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں بیداری مہم چلائیں، شرپسندوں کی خفیہ پلاننگ کا انکشاف کریں اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ان کے مذموم اغراض ومقاصد کو ناکام بنانے کے لئے تمام جائز وسائل کا استعمال کریں۔ ملک کی سالمیت اور بقاء باہم کے لئے آگے بڑھیں، حکومتِ وقت بھی اس مکدر فضا کی سخت نوٹس لے، یہ تمام دشمن عناصر کسی کا بھی بھلا نہیں کرسکتے، کسی کو کچھ وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے مگرلمبی مدت تک یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتے، یہ دشمنانِ انسانیت سماج کے لئے ناسور ہیں اگر ان کو یونہی کھلی چھوٹ ملتی رہی تو کل یہ پورے ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بن جائیں گے اور تب ان پر لگام لگانا محال ہوجائے گا اور پورے ملک کا تانامانا بکھر جائے گا۔ حکومتِ وقت اور سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کو تباہی سے بچانے کے لئے آگے بڑھیں۔

ہم نے اس ملک کے لئے قربانیاں دیں، اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا، اس کے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کے طول وعرض میں پھیلے جغرافیائی نقشے کی حفاظت کی، اس کو بکھرنے سے بچایا اور آزادی کے بعد سے اب تک اسے بقاء باہمی، برداشت، محبت کا درس پڑھایا جو آج بھی الحمدللہ بڑی حد تک باقی ہے۔ اس لئے اگر تباہی کے ان منڈلانے والے بادلوں کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو تباہی سب کو آدبوچے گی۔

اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائے اور کثرت میں وحدت کے سلسلے کو برقرار رکھے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔