اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے
افتخار راغبؔ
اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے
پوچھ مت اے زندگی کیا حال ہے
…
ایک گتّھی بھی نہ سلجھی عشق کی
کیا ہوا اے آگہی کیا حال ہے
…
کیا ستم ڈھائے گا دل کا ٹوٹنا
مسکرا کر پوچھ بھی کیا حال ہے
…
چمچماتے لب پہ تنہائی میں بھی
کیوں چمکتی ہے ہنسی کیا حال ہے
…
میں نہ کہتا تھا کہ بچ اُس شوخ سے
اے مری سنجیدگی کیا حال ہے
…
عشق میں کیا حال ہوتا ہے بھلا
مجھ سے مت پوچھے کوئی کیا حال ہے
…
برق سی لپکی ہے دل میں اک جھلک
کیسے ہو راغبؔ ابھی کیا حال ہے
تبصرے بند ہیں۔