سنگ دل کو بھی بے قرار کروں

افتخار راغبؔ

سنگ دل کو بھی بے قرار کروں

کیسے لفظوں کو اشک بار کروں

چاہتا ہوں اتار پھینکوں سب

خلعتِ عشق اختیار کروں

پیکرِ اجتناب، عکسِ گریز

کس طرح تجھ کو ہم کنار کروں

دل کو کچھ اور آرہا ہے نظر

کیسے آنکھوں پہ اعتبار کروں

ٹوٹنے سے ہی پھوٹتا ہے نور

کیوں نہ مائل بہ انتشار کروں

کون کرتا ہے بے طلب بھی عطا

اور کس پر میں انحصار کروں

خود کو پاتا ہوں اب کہاں راغبؔ

اپنے ملنے کا انتظار کروں

تبصرے بند ہیں۔