اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے

افتخار راغبؔ

اُس نے پوچھا تھا کبھی کیا حال ہے

پوچھ مت اے زندگی کیا حال ہے

ایک گتّھی بھی نہ سلجھی عشق کی

کیا ہوا اے آگہی کیا حال ہے

کیا ستم ڈھائے گا دل کا ٹوٹنا

مسکرا کر پوچھ بھی کیا حال ہے

چمچماتے لب پہ تنہائی میں بھی

کیوں چمکتی ہے ہنسی کیا حال ہے

میں نہ کہتا تھا کہ بچ اُس شوخ سے

اے مری سنجیدگی کیا حال ہے

عشق میں کیا حال ہوتا ہے بھلا

مجھ سے مت پوچھے کوئی کیا حال ہے

برق سی لپکی ہے دل میں اک جھلک

کیسے ہو راغبؔ ابھی کیا حال ہے

تبصرے بند ہیں۔