ایک نئے جنگی محاذ کی سمت امریکہ کی پیش قدمی
عمیر کوٹی ندوی
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان 1940ء سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والی سرد جنگ نے عسکری امور، نظریات، نفسیات، صنعت، تکنیکی ترقی،خلائی دوڑ، دفاع، روایتی وجوہری ہتھیاروں میں مسابقت سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات کو اپنے زیر اثر لے لیا تھا۔ حالانکہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف متحد تھے لیکن نظریات وعزائم کے اختلاف کی وجہ سے دونوں بالواسطہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست جنگ نہ تھی لیکن یہ نصف صدی پر محیط ایک ایسی جنگ تھی جس نے دنیا کے ایک بڑے خطے کو اپنے گرداب میں لے لیا تھا۔اس نےبرلن ناکہ بندی،جنگِ کوریا،جنگِ ویتنام،کیوبا میزائل بحران،اور سوویت افغان جنگ جیسے بہت سے تحفے دنیا کو دئے ہیں۔ اس نےدنیا پر بدترین اثرات چھوڑے ہیں اور وہ کاری ضرب لگائی ہے جس کی ٹیس آج بھی رہ رہ کر اقوام عالم محسوس کرتی ہیں۔ اس جنگ کے اپنی انتہا تک پہنچنے سے پہلےہی اسی کے بطن سے ایک نئےمحاذ کو جنم دے دیا گیا تھا۔ وہ محاذ تھا عالم اسلام کو تہہ تیغ کرنے کا جسے عرف عام میں جنگ خلیج کے نام سے جانا جاتا ہے۔1990ء میں اس کا باضابطہ آغاز ہوا۔ اسی کے بطن سے ایک دوسرے محاذ نے جنم لیا جسے اسلامی دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ اس کا دائرہ خلیج تک محدود نہ تھا بلکہ پورے عالم اسلام کو خواہ مسلمان حکومت میں ہوں یا اقلیت میں، ہرخطہ کو اس کی لپیٹ میں لے لیا گیا۔
اس کی بنیاد پر عالم گیر سطح پر اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی گئی لیکن اب ایک نئے محاذ کو دستک دے دی گئی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس محاذ کو بھی عرب بہاریہ اور اسلامی دہشت گردی کے بطن سے ہی جنم دینے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ شمالی شام میں ترکی کی سرحدوں کے قریب 30 ہزار نفری پر مشتمل امریکہ کی خصوصی فورس کے قیام کی تجویز کے تار اسی سے جڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ترکی کے شدید ردعمل اور اقوام متحدہ کی ناپسندیدگی کے اظہار کے علاوہ روس نےبھی اس اقدام کے خلاف امریکہ کو متنبہ کیاہے۔ اسی کے بعد امریکہ کی زباں پر نئے محاذ کے آغاز کی بات آگئی۔ اس کے لئے اس نے جو جواز پیش کیا ہے وہ یہ کہ امریکہ کی جمہوریت کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
امریکہ نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ اس کی قومی دفاعی حکمت عملی کی توجہ دہشت گردی کی بجائے "طاقت کے عظیم مقابلے” کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے امریکہ کی نئی”قومی دفاعی حکمت عملی” کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ ” یہ پالیسی عسکری حوالوں سے آنے والے سالوں میں امریکہ کے خدوخال مرتب کرنے میں مدد دیتی ہے…… امریکی محکمہ دفاع اپنی توجہ دہشت گردی سے ہٹا رہا ہے جو 17 برسوں سے امریکی منصوبہ سازوں کو مصروف رکھے ہوئے تھی……ہم دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپنی مہم جاری رکھیں گے لیکن اب امریکی قومی سلامتی کی بنیادی توجہ طاقت کے عظیم مقابلے پر ہوگی نہ کہ دہشت گردی پر”۔
اس نئے محاذ میں اس کے نشانے پر کون ہوگا اس کا بھی اس نے صاف لفظوں میں ذکر کردیا ہے۔ امریکہ نے چین اور روس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "امریکہ کے لیے ‘چین اور روس جیسے ممالک سے خطرات بڑھ رہے ہیں ……یہ دونوں دنیا کو’طاقت کے محور کے مطابق’ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ……روس نے اپنی قریبی ریاستوں کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی اور اپنے ہمسایوں کی اقتصادی، سفارتی اور سلامتی کے امور پر اقوام متحدہ میں اپنے ویٹّو کی طاقت کا سہارا لیا……چین اقتصادیات کو استعمال کرتے ہوئے اسٹریٹیجک مسابقت کے ذریعے اپنے ہمسایوں کے لئے خطرہ ہے جب کہ بحیرہ جنوبی چین میں عسکری موجودگی کو بڑھا رہا ہے”۔ اس موقع پر امریکہ کی زباں پر دو اور نام ایران اور شمالی کوریا بھی تھے۔
امریکی وزیر دفاع نے امریکی دفاعی حکمت عملی میں ایران اور شمالی کوریا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "پیانگ یانگ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکی میزائل دفاع نظاموں کی ضرورت ہے……ایران مسلسل تشدد کے بیج بوتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لئے بدستور ایک بڑا خطرہ ہے”۔امریکہ نے اپنےنئے محاذ کے حریفوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ”اگر آپ نے ہمیں چیلنج کیا تو یہ آپ کے لیے برا ترین دن ہو گا”۔ امریکہ کے نائب اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاعی حکمتِ عملی ایلبریج کولبی نے کہا ہے کہ” نئی حکمت میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ‘چین اور روس بالخصوص گزشتہ کئی برسوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی دفاعی صلاحتیوں کو بڑھا رہے ہیں تاکہ امریکہ کی دفاعی صلاحیت کو چیلنج کیا جا سکے……یہ حکمت عملی ہمارے لیے بنیادی تبدیلی ہے کہ ہم دوبارہ ممکنہ جنگ کی بنیادی چیزوں پر غور کریں، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم جنگ کی تیاری پر ترجیح دیں، خاص کر بڑی طاقتوں کے ساتھ جنگ پر”۔
اس پر روس اور چین نے فی الفور اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ روس نے اسے ‘تصادم کی پالیسی’ قرار دیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہےکہ "ہمیں افسوس ہے بین الاقوامی قانون کو استعمال میں لاتے ہوئے مذاکرات کے بجائے امریکہ اپنی قیادت کو تصادم کی حکمت عملی سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے”۔ اسی طرح چین نے بھی امریکہ کی دفاعی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ پر سرد جنگ کی ذہنیت رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کے یہ عزائم اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس نے ایک محاذ کے بطن سے دوسرے محاذ کو جنم دینے کا جو سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری رکھا ہوا ہے اور اب اسی راہ پر چلتے ہوئے اس نےنئے محاذ کی سمت جو قدم بڑھادیا ہے اس کا انجام کیا ہوگا اور کیا دنیا نئے زخم کھانے کے لئے تیار ہے؟۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔