اے اہلِ نظر، ذوقِ نظر خوب ہے لیکن…!
ڈاکٹر شکیل احمد خان
پدمنی ستو سوامی جنوبی ہند کی ایک سرگرم سماجی خاتون ہے۔ ایک محفل میں اپنے تجربات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے ایک ایسے حقیقی واقعہ کا ذکر کیا کہ سامعین دم بخود رہ گئے۔ بدمنی سوامی کے مطابق انہوں نے کسی جھونپڑی میں ایک لنگڑا معذور بچہ دیکھا۔ انہوں نے اس بچے میں بھرپور دلچسپی لی۔ انکی خواہش تھی کہ وہ بچہ بھی اپنے ہم عمر بچوں کی طرح چل پھر کرسرگرم زندگی گزارے۔ انہوں دیلوا کے مشہور ہڈیوں کے ڈاکٹروں سے ربط کیا۔ جنہوں نے بچے کا معائنہ کرنے کے بعد کئی آپریشن کئے۔ طویل اور صبر آزمادنوں کے بعد بچہ رفتہ رفتہ چلنے لگا۔ اتنا کہہ کر پدمنی سوامی روک گئیں۔ اور کہاکہ اب یہ بچہ ایک بالغ شخص بن چکا ہے۔
آپ لوگ اندازہ کر کے بتائے کہ اس وقت وہ کیا کر رہا ہوگا اور کہاں ہوگا؟ سامعین میں سے کئی جواب آئے۔ جیسے ڈاکٹر ہوگا، صنعتکار ہوگا، پجاری ہوگا،سماجی کارکن ہوگاوغیرہ وغیرہ۔ پدمنی سوامی نے کہاکہ نہیں نہیں۔ آپ سب غلطی پر ہو۔ وہ بچہ آج سینٹرل جیل میں ہے۔ اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ پھر ایک گہری سانس چھوڑتے ہوئے نہایت گمبھیر اور اداس لہجے میں کہا کہ ہم نے پورا وقت اور انرجی اسے ـ "کیسے چلنا ہے” سکھانے میں صرف کردی۔ لیکن ــ "کس راستے پر چلناہے” یہ سکھانا بھول گئے۔ کیا یہ واقعہ ہماری مجموعی تعلیمی صورت حال پر غور کرنے پر ہمیں مجبور نہیں کرتا۔
آج ہماری پوری توجہ بھی اپنے بچوں کو کیسے چلنا ہے، کیسے پڑھنا ہے، کیسے آپریشن کرنا ہے، کیسے مشین بنانا ہے، یہ سکھانے پر مرکوز ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ کس راستے پر چلنا ہے، کیا پڑھنا چاہیے، آپریشن کس کا اور کب کرنا چاہیے، مقدمہ کس کا لڑنا چاہیے، ان باتوں کی تربیت پر ہماری توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے نوجوان چلنا تو سیکھ گئے۔ مگر عبادت گاہ اور کالجوں کی طرف جانے کے بجائے انکے قدم ہوٹلوں اور تھیٹروں کی طرف اٹھتے ہیں۔ وہ لکھنا پڑھنا تو سیکھ گئے مگر تعلیمی، سائنسی،سماجی و ادبی مضامین پڑھنے لکھنے کے بجائے ساراوقت موبائل اور وہاٹس ایپ پر لا یعنی لغوایس ایم ایس لکھنے اور پڑھنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
ہمارے قابل نوجوان ڈاکٹر بن کر آپریشن کرنا تو سیکھ گئے مگر نارمل عورت کا بھی سیزر کرنے لگے۔ ہمارے نوجون وکیل مظلو موں کو انصاف دلانے کے بجائے غلط طریقے سے مجرموں کی مدد کرنے لگے۔ سماج میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ رشوت، ماردھاڑ، استحصال، خودکشی!یہ سب کس چیز کا نتیجہ ہے؟اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ سرپرستوں اور تعلیمی اداروں نے تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا ہے، نتیجتاً ہمارے بچے اور نوجوان تکنیکی اور پروفیشنل طور پر تو ماہر بنتے جا رہے ہیں لیکن ان میں سماجی سمجھ بوجھ، سیاسی نظر،زندگی جینے کا سلیقہ، ادب و فنون میں دلچسپی اور زندگی کا مقصد و حقیقت سمجھنے کا رجحان ہوناعنقا ہوتا ہے۔ ایسی تعلیم یک رخی اور خطرناک ہے۔
ذوالنون رحمتہ اللہ نے درست فرمایا ہے کہ ’ پہلے اہلِ علم میں علم کی وجہ سے بغضِ دنیا اور ترکِ دنیا کا جذبہ بڑھتا تھااور آج علم کی وجہ سے دنیا کی محبت اورطلب بڑھتی ہے۔ پہلے آدمی اپنا مال علم پر خرچ کرتا تھااور آج علم کے ذریعہ کماتا ہے‘۔ تعلیم اور علم کو قوم کی نجات کے اہم ذریعہ کے طور پر ہر عام و خاص تسلیم کرتا ہے، لیکن صحیح تعلیم و علم سے کیا مراد ہے یہ سمجھنے اور سوچنے پر شائد ہماری توجہ کم ہے اسی لیے گوہرِمقصود حاصل نہیں ہو پا رہا ہے۔ جوزف ڈوا ایلن Joseph Dowa Allen نے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ ’ہمارا مقصد اپنے طلبہ کی جسمانی و ڈہنی ترقی اور کردار سازی ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ تیسری خوبی (کردار) کے بغیرپہلی دونوں خوبیاں نہایت خطرناک ہوتی ہیں، اس لئے (تعلیم میں ) کردار سب سے اہم ہے‘۔ رزقِ حلال حاصل کرنے کے قابل بننا اوراپنا کریئر بنانا یقینا اہم ہے۔ لیکن صرف اور صرف کریئراورپیسے کو پیش نظر رکھنے کے باعث ہم ایسے بے حس روبوٹس تیار کر رہے ہیں جو نہ تو والدین اورسماج کی توقعات پر پورا اتر پا تے ہیں اور نہ ہی خود زندگی کی سچّی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہیں۔
نوجوانوں اور بڑی حد تک سرپرستوں میں بھی صرف پیسہ کمانے کی صلاحیت پیش نظررہنے لگی ہے۔ لہٰذا تعلیمی اِدارے بھی صرف Earning Animals پیدا کر رہے ہیں جبکہ William Ralph Inge کے الفاظ میں ’تعلیم کا مقصد حقائق کا نہیں بلکہ اقدار کا علم حاصل کرنا ہے‘۔ اِسی طرح Aiden Wilson Tozer کے مطابق ’تعلیم کا مقصد خیالات کا ذخیرہ کرنا نہیں بلکہ خیالات کے فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کرناہوتا ہے‘۔ حسن بصری ؒ کا قول ہے کہ ’افضل علم وہی ہے جس میں ورع اور تقویٰ ہو اور۔ ۔ ۔ سوچ بچار کرنا ہو‘۔ اُن ہی کی نصیحت ہے کہ ’ جب تو علم حاصل کرے تو تیرے اوپر اُسکا اثر اور اُسکی علامات بھی نظر آنی چاہیے۔ طبیعت کے اندرسکینہ محسوس ہو، وقار محسوس ہو، حلم محسوس ہو۔ ۔ ‘ آئیے ہم ایسے علم ِ نافع کی تدریس و تحصیل کی جدوجہد کا آغاز کریں جہاں کریئر اور کردار ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتے ہوں۔ ورنہ ہماری موجودہ تعلیم کے تعلق سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ۔
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جوشئے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
لیکن صرف اور صرف اسی پر توجہ دینے کے باعث ہم ایسے ماہر و ّّ مکمل لیکن بے حس، بے رحم اور دے دین روبوٹس تیار کر رہے ہیں جو نہ تو والدین، سماج اور ملک کی توقعات پر پورا اتر پا رہے ہیں اور نہ ہی خود زندگی کی سچی خوشیوں سے لطف انداز ہونے کے قابل ہیں۔ نوجوانوں اور بڑی حد تک سرپرستوں میں بھی صرف پیسہ کمانے کی صلاحیت پیشِ نظر ہے۔ لہزا تعلیمی ادارے بھی صرف Earning Animals پیدا کر رہے ہیں۔ آیئے ہم ایسے علمِ نافع کی تدریس و تحصیل کی جدوجہد کے مشن کا آغاز کریں۔
تبصرے بند ہیں۔