خدا کرے کہ جوانی رہے تری بے داغ

نوجوان مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے خطاب

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ایک گاڑی کا تصور کیجیے جو سڑک پر تیزی سے دوڑ رہی ہے۔ وہ انتہائی بیش قیمت اور جدید ترین ماڈلس میں سے ہے۔ بہت خوب صورت ہے۔ خوب آرام دہ ہے۔ بس ایک نقص یہ ہے کہ اس میں بریک نہیں ہے۔ ایسی گاڑی کا حشر سب کو معلوم ہے۔ اس کا ڈرائیور وقتِ ضرورت اسے سنبھال نہیں سکتا۔ وہ کسی دوسری گاڑی سے ٹکرا دے گا، یا اسے گہری کھائی میں گرا دے گا۔

دوسری گاڑی بہت زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ ماڈل بھی پرانا ہے۔ زیادہ خوب صورت نہیں ہے، لیکن اس کے بریک درست ہیں۔ اس کا ڈرائیور بہت اطمینان و سکون کے ساتھ اسے چلائے گا۔ جہاں اسے رفتار تیز کرنی ہوگی، تیز کرلے گا۔ جہاں دھیرے چلانے کی ضرورت ہوگی، دھیرے چلائے گا۔ راستے میں چاہے جتنی بھیڑ ہو، یا وہ کتنا ہی پُر پیچ ہو، اسے دوسری گاڑیوں سے ٹکرانے یا کھڈ میں گرنے کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ گاڑی کا مضبوط بریک ایسے ہر موقع پر اس کے کام آئے گا۔

جو حیثیت گاڑی میں بریک کی ہے، سماجی زندگی میں وہی حیثیت حیا کی ہے۔ حیا وہ بریک ہے جو کسی نوجوان یا دوشیزہ کے قدم پھسلنے نہیں دیتا اور اسے کسی غلط راہ پر جانے نہیں دیتا۔ حیا اسے معصیت، عریانیت اور آوارگی کی گندگیوں سے بچائے رکھتی ہے اور گناہوں کے دلدل میں پھنسنے نہیں دیتی۔

حیا وہ اخلاقی وصف ہے جو انسان کواس کی فطرت کی آواز پر غلط باتوں اور کاموں سے روکتا ہے۔ اس کا اظہار زندگی کے مختلف معاملات میں ہوتا ہے۔ با حیا شخص اپنی زبان پر کوئی گندی، ناشائستہ اور فحش بات نہیں لاتا۔ اس کا لباس اس کی شخصیت کی متانت اور سنجیدگی کی گواہی دیتا ہے۔ وہ عریانیت سے شدید متنفر رہتا ہے۔ اس کی چال ڈھال بھی اس کی شرافت کا پتہ دیتی ہے۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شخص حیا سے محروم ہو تو اسے متانت، سنجیدگی اور شرفت پر قائم رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ شیطان کا بندۂ بے دام بن جاتا ہے۔ فحش باتیں اور گالم گلوچ اس کی زبان پر رہتی ہیں۔ وہ عریانیت کا خوگر بن جاتا ہے۔ گناہ کے کاموں میں اسے لذّت ملنے لگتی ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب وہ کون سی معصیت کا ارتکاب کر بیٹھے اور اس سے کون سا غلط کام سرزد ہوجائے؟ حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے معرفتِ نبویؐ پرمبنی ایک جملے کا حوالہ دیا :

اذا لم تستحی فاصنع ما شئت (بخاری : 3484)

’’اگر تم میں حیا نہیں تو جو چاہے کرو۔ ‘‘

قرآن مجید میں حیاکے مختلف مظاہر کا بیان ہوا ہے۔ جنت میں حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا کو رکھا گیا۔ انھیں آزمائش کے طور پر ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا۔ لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر انھوں نے وہ پھل کھا لیا۔ چنانچہ ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے۔ فوراً وہ جنت کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے۔ (الاعراف: 19_ 22، طٰہٰ: 117_ 121) یہ حیا کا جذبہ ہی تھا جس نے انھیں اپنے قابلِ ستر اعضا کو پتوں سے ڈھانکنے پرمائل کیا تھا۔

قرآن میں اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ (النور : 30۔ 31) اور عورتوں سے مزید کہا گیا ہے کہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔ (النور :31)یہ ان کے اندر حیا کا مادہ پروان چڑھانے کی تدبیر ہے۔

قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑکا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ جب مصر سے بھاگ کر مدین پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور دو لڑکیاں تھوڑے فاصلے پر اپنے جانوروں کو روکے ہوئے کھڑی تھیں۔ انھوں نے لڑکیوں سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ جب سب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا چکیں گے تب ہم کنویں کے پاس جائیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے آگے بڑھ کر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ لڑکیاں جب گھر واپس گئیں اور انھوں نے اپنے باپ کو ماجرا سنایا تو انھوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا بھیجا۔ قرآن اس وقت کی منظر نگاری یوں کرتا ہے کہ ان میں سے ایک لڑکی شر م و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئی۔ (القصص : 25) یہ حیا کا مادہ ہی تھا جس نے لڑکی کی چال کو شائستہ بنا دیا تھا۔

اللہ کے رسول ﷺ کے متعدد ارشادات میں حیا کو ایک عظیم اخلاقی وصف قرار دیا گیا ہے اور اسے خیر کا سرچشمہ بتایا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا : ’’حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ‘‘( بخاری : 9، مسلم : 35 )

’’حیا سراسر خیر ہے۔ ‘‘(مسلم: 37)

’’حیا سے صرف خیر حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘(بخاری:6117، مسلم: 37 )

” ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ:4181)

خود رسول اللہ ﷺ کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ پردہ نشیں کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیا والے تھے۔ آپ جب کسی چیز کو ناپسند کرتے تھے تو آپ کے چہرۂ مبارک سے اس کا اندازہ ہوجاتا تھا۔ صحابۂ کرام میں سے حضرت عثمان بن عفانؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بہت زیادہ حیا والے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی حیا کی ستائش کی تھی۔ (مسلم : 2401 )

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے بھائی کو نصیحت کر رہا تھا کہ تم بہت زیادہ حیا دار ہو۔ اتنی حیا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آپؐ نے فرمایا : ’’اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ حیا ایمان میں سے ہے۔‘‘ (بخاری : 24، مسلم: 36)

عہد نبویؐ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ حضرت ام خلّاد نامی صحابیہ کا بیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اس وقت ان کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ کسی نے کہا :” تم اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے آئی ہو اور چہرہ ڈھکے ہوئے ہو۔ “ اُس وقت انھوں نے بڑا تاریخی جملہ فرمایا تھا۔ انھوں نے جواب دیا تھا : ’’ میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے، اپنی حیا نہیں کھوئی ہے۔ ‘‘ (ابو داؤد : 2488)

موجودہ دور بہت پُر آشوب اور اخلاق سوز ہے۔ مغربی تہذیب کی عریانیت اور آوارگی ہمارے ملک میں بھی عام ہوگئی ہے۔ شیطان کے چیلے سرگرم ہیں۔ وہ برہنگی کو تہذیب، عریانیت کو کلچر اور مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو ترقی کا نام دے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حجاب، عدم اختلاط اور شائستہ لباس پہننے کو دقیانوسیت کہتے ہیں۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے کھلے ماحول نے فساد میں اضافہ کیا ہے اور سوشل میڈیا کی چمک دمک نے بے حیائی کو مرغوب اور لذت بخش بنا دیا ہے۔

اس صورتِ حال میں وہ نوجوان لڑکے قابلِ مبارک باد ہیں جو دینی اقدار سے چمٹے ہوئے ہیں، جن کے اخلاق و کردار پاکیزہ ہیں اور جو سماج میں خیر کے کاموں کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ نوجوان لڑکیاں بھی قابلِ مبارک باد ہیں جن کی حیا اور شرافت ان کی پہچان ہے، جنھوں نے حجاب کا انتخاب اپنی آزاد مرضی سے کیا ہے اور جو برہنگی اور آوارگی کے شہر میں عفّت و عصمت کی ترجمان ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی نوجوانوں اور دو شیزاؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا :

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی رہے تری بے داغ

تبصرے بند ہیں۔