حالات تبدیل ہو رہے ہیں!

سمیع اللّٰہ خان

 اللّٰہ درجات بلند فرمائے، نشانِ عزیمت امام ابن تیمیہ ؒ کے، کیا خوب فرماگئے کہ:

"الحکومة تدوم مع العدل والكفر وتزول مع الظلم والاسلام”

ابن تیمیہ ؒ فرماتےہیں کہ، حکومت گرچہ اہل ایمان کی نہ ہو لیکن اگر وہ عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے تو باقی رہے گی، البتہ حکومت مؤمنین کی ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ظالمانہ روش پر ہے تو اس کا زوال یقینی ہے۔

یہ ضابطہ تاریخ انسانی کے صفحات پر زندہ ہے، آج بھی عالمی حالات درحقیقت اسی کی تصویر ہیں، اندلس سے لیکر آرمینیا اور چیچنیا میں اور پھر اسی طرح، پوری دنیا پر نظر دوڑاتے جائیں، ہر ہر، زوال، ظُلمی اسباب کا شکار نظر آئے گا اور اسی ضابطے کی رو سے دیکھا جائے تو یہ اسوقت دنیا بھر میں گردش کررہاہے، یقینًا ہم جیسے ظاہر بینوں کے لیے اس تکوینی و روحانی نظام پر یقین مشکل ہوگا کیونکہ آج کا دور پوری طرح مادیت اور موشگافیوں میں جکڑ چکاہے، جہاں صرف اور صرف ظاہر ہی کو سب کچھ مان لیا گیا ہے، مجھ جیسا شخص اگر اسباب و مادیت سے ہٹ کر خامہ فرسائی کرے تو، وہ صحافتی اور معاصر سیکولر برادری میں ناقابل اعتنا ٹھہرایا جاتاہے، کیونکہ اسوقت دنیا کا پیمانہ مذہب بیزاری پر قائم ہے، اس طبقے کو آگے بڑھا کر تاجدار بنانے والے بھی چونکہ ہم ہی ہيں، سیکولر مزاجی کی حد سے بڑھی ہوڑ نے ہم سے، اپنا اسلامی نظریہ اور نکتۂ نظر چھین لیا ہے، کیونکہ ہم نے اس کو بیان کرنا چھوڑدیا، تو پھر اب اس بے اعتنائی کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، البتہ ہم اپنی تمام سرگرمیوں کو اسلامی نظریے سمیت بیان کرینگے، جیسے کرتے آئے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ دہریت کا تو ڈنکے کی چوٹ اعلان ہو رہا ہے، اور ہم اسلامیت سے دور بھاگتے رہيں، یہ نہایت کمزور ایمان کی علامت ہےکہ قرآنی قوانین تو چھپائے جائیں اور دشمنانِ قرآن سے دوستی بھی رچائی جائے، یہ بدترین قسم کی مرعوبیت ہے، جس طرح کسی ملحد کو ہم ملحدانہ افکار سمیت متحدہ محاذ پر جمع کرتےہیں، اسی طرح ہمیں بلا خوف وتردد اپنے قرآنی نظریات اور ایمانی شناخت سمیت موجودہ دنیا کے محاذ میں یکجا ہونا چاہیے، ورنہ ہم ایمان کی روحانی قدروں کی برکات کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

اس تکوینی نظام کو ہم یوں بھی سمجھ سکتےہیں کہ، لعنت آنے سے قبل اسباب لعنت میں مبتلا کیا جاتاہے، اور اسوقت عالمی منظرنامے پر مغربی مادیت زدہ کلچر جو اب ہماری معاشرت میں بھی سرایت کرتا جارہاہے، ہمیں کوئی بھی بات کہنی ہو کوئی کام کرنا ہو تو مغرب کی قائم کردہ انسانی بنیادوں کے دائرے میں داخل ہونا پڑرہا ہے اسلامی حوالوں اور بنیادوں پر بات کرنا دقیانوسیت سمجھا جانے لگا ہے اس کا حقیقی منظر یہی ہیکہ یہ ابتلاء ہے، اور آغاز ہے زوال پذیری کی سمت، گرچہ بظاہر کتنی ہی حسین و دلفریب ترقیات نظر آئیں سفر بجانبِ زوال ہے۔

ہمارے ملک میں، اس ضابطے کی رو سے دیکھا جائے تو بھی حالات تبدیل ہورہےہیں، حکومتیں انسانوں کے اُن فطری امور میں مداخلت کررہی ہیں، جن میں مداخلت کی ان میں درحقیقت اہلیت ہی نہیں ہے، جن امور پر فیصلے کررہی ہیں وہ درحقیقت فطری طور پر اس کی مجاز ہی نہیں ہیں، جس طبقاتی نظام میں معاشرے کو جکڑنا چاہتی ہیں وہ پورے طور پر فطرت انسانی سے ہی متصادم ہے، اس لیے اس کی بقا اور ارتقاء حقیقی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا، ایسے میں، وہ اقوام جن کی حیثیت ہزاروں سالوں سے کوئلے سے بھی بدتر تھی اب اُن میں آگ لگ رہی ہے، اور یہی وہ نکته ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہاہے، حالات تبدیل ہورہےہیں، ملک کا سربراہ دنیا بھر میں ملکی وقار کو شرمسار کروا رہا ہے، ہزار ہا سال سے ظلم و جبر کی چکیوں میں جنہیں کوئلہ بنایاگیا ان کی للکار بھی کہہ رہی ہیں، حالات تبدیل ہورہے ہیں، فطرت انسانی کے نظام قرآنی پر یلغار جو بھی کرے گا اس پورے ” حزب ” کو بہرحال پاش پاش ہونا ہے، قرآن میں صریح قانون فطرت بیان کیا گیا ہے:

*الا إن حزب الشيطان هم الخاسرون*

خوب یاد رکھنا چاہیے کہ، شیطانی لشکر خسارے میں ہوگا۔

اب یہاں یہ بھی گرہ باندھ لینی چاہیے کہ، اسباب لعنت میں صرف مجرم اور طاغوتی ہی نہیں مبتلا ہوتا بلکہ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر *انا ھٰھُنا قاعدون* کے نعرے لگانے والی متعلقہ اقوام بھی اس میں مبتلا ہوتی ہیں،کیونکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ، قومی سطح کا زوال اجتماعی صورت میں آتاہے، اور اجتماعیت اس میں مبتلا ہوتی ہے، گرچہ احساس نہیں ہوتا اور فضولیات میں پڑے رہتےہیں، اور ایسی اقوام اس بیڑے کو اٹھاتی ہیں جن میں فطری نظام کو پانے کی لچک ہوتی ہے، جو جدوجہد کرتےہیں وہی پاتے ہیں، معاصر ضروریات اور آلات سے نیز شعبہ ہائے جات میں مستقل مزاجی سے محنت کرتےہیں وہی لوگ شاد کام ہوتےہیں، ان اصولوں کے پیش نظر، ہمیں من حیث القوم اپنا احتساب کرنا چاہیے، خودی کے خول میں گم ہوجانا راہ یابی سے بغاوت ہے، ایسے حالات میں قانون فطرت ان الفاظ میں منظر پر ہوتاہے:

*و ان تتولو یستبدل قوماً غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم*

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔