آج کے نام اور آج کے بچوں کے نام

آبیناز جان علی

موجودہ سماج میں آنکھ کھولنے والے بچے نہایت خوش قسمت مانے جاتے ہیں۔  عصرِ حاضر کا یہ انقلابی دوران کے قدموں میں نظر آتاہے۔  جدید ٹیکنالوجی کی کرم فرمائی نے پوری دنیا کو سمیٹ کر رکھا ہے اور جو چیزیں اور سہولتیں عصرِ دیرینہ میں بعید از قیاس تھیں آج انہیں کی فراوانی ہے۔ پڑھنے کے لئے لاتعداد کتابیں نیٹ پر دستیاب ہیں۔  تفریح کے لئے آن لائن فلمیں اور سیرئلزکے ساتھ ساتھ کھیل بھی ہیں۔  معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے یوٹیوب، ویکی پیڈیا اور گوگل جیسے اوزار ہیں۔

آج کے دور میں موریشس کے سماج نے ترقی کے کئی مراحل طے کئے ہیں۔ یہاں مفت تعلیم نے غلاموں اور مزدوروں کی نسل کو کامیابی کا زینہ چڑھنے میں مدد کی اور آج اہلِ موریشس ان عہدوں پر فائز ہیں اور ایسے آرام وآسائش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا تصور گوروں کی چابک اوران کے ظلم واستحصال برداشت کرنے والے مزدور نے خواب میں بھی تصور نہیں کیاہوگا۔ نیز موریشس کی معیشت نے حیرت انگیز ترقی کی جس کی بدولت آج کے والدین اپنے بچوں کی پرورش عیش و نشاط سے کرتے ہیں۔

۲۰۱۱ء میں قیامِ لندن کے دوران میں وہاں کے بچوں کا اجنبیوں کے ساتھ غیر تکلف رویہ دیکھ کر حیرت و استعجاب میں پڑگئی۔ وہ ننھے فرشتے کسی بھی اجنبی کو ہاتھ ہلا کر یا مسکراہٹ سے سلام کرتے۔ وہ کسی ہچکچاہٹ یا پس و پیش کے شکار نہیں تھے۔ ان دنوں موریشس میں بچے اجنبیوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے یا اگر ان کو ہاتھ لگایا جائے تو وہ خوف کے مارے رو دیتے تھے۔ اس متضاد صورتِ حال پر غور و خوص کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ انجان ملک میں اور اجنبی ہاتھوں کے گراں بار ستم برداشت کرتے ہوئے جو خوف ہمارے آبائواجدادنے محسوس کئے تھے وہ نسل در نسل منتقل ہوتے گئے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے اثرات کم ہوتے ہوئے آج نہیں کے برابر ہوگئے ہیں۔  آج کے نوجوان آزاد معاشرے میں خود اعتمادی سے سانس لیتے ہیں۔  گلوبل ویلیج کے دور نے ان کی شخصیت کی تشکیل کی۔ نیز معاشی اور سماجی زندگی میں رونما ترقیات نے تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا۔ آج کی نئی نسل بحسن و خوبی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

اس کے برخلاف نئی نسل اس دور کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ملازمت میں مصروف والدین کی غیر موجودگی اور مشترکہ خاندانی نظام نے ان کے اندر خلا بھی پیدا کی ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کی سعی میں اکثر و بیشتر وہ غلط صحبت سے متاثر ہوکرمنشیات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔  سماج میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔  آج کے نوجوان جلد ہی رشتوں میں الجھ جاتے ہیں۔  اپنی اندرونی خلا کی تلافی وہ ازدواجی زندگی کی ذمے داریوں سے پر کرنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔  لیکن اکثر و بیشتر ان میں و ہ ذہنی و جذباتی پختگی نہیں جو ان کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوسکے۔

جب بارش برستی ہے تو اس کی بوندیں اتنی پاک اور شفاف ہوتی ہیں کہ اگر ماحول کی آلودگی نہ ہوتو پانی کے ان قطروں سے اپنی تشنگی بجھائی جا سکتی ہے۔ لیکن وہی پانی اگر کیچڑ میں چلا جائے تو کوئی اس کے پاس جانا پسند نہیں کرے گا۔ اگر وہی پانی گرم کڑھائی میں گر جائے تو بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو کر اپنا وجود کھو دیتا ہے۔پانی کے وہی قطرے اگر چمن کے پھولوں میں گر جائے تو اس چمن کو نئی تازگی ملتی ہے اور ان قطروں کو نئی آب و تاب ملتی ہیں۔ پانی کے وہی قطرے اگر ایک سیپ استقبال کر لے تو وہ قطرہ ایک موتی یا گوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ والدین، اسکول اورسماج کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کوسازگار ماحول مہیا کرسکیں جس سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو اور وہ موتی کی طرح چمک اٹھیں۔ میں نئی نسل کے لئے دعا کرتی ہوں کہ خدا انہیں خود کو سمجھنے کی توفیق دے اور انہیں بدلتے حالات سے لڑنے کے موزوں و مناسب اوزار فراہم کرے جس سے وہ دنیا کو بد ل کر اپنی چھاپ چھوڑ سکیں۔

تبصرے بند ہیں۔