بادل سا تیری یاد ٹپکتی ہے بوند بوند
شازیب شہاب
بادل سا تیری یاد ٹپکتی ہے بوند بوند
چشمِ وفا میں آس چمکتی ہے بوند بوند
…
کیسے بتاؤں کیا ہے ترے اشک کی لڑی
سینے میں دل کی طرح ڈھرکتی ہے بوند بوند
…
آتا ہے لفظ لفظ وہ ایسے خیال میں
شبنم کلی پہ جیسے ٹپکتی ہے بوند بوند
…
الزام کیا دوں دشت کو ذروں کی پیاس کا
دریا میں بھی عطش سے سسکتی ہے بوند بوند
…
یہ کون ضو فشاں ہے مری چشمِ شوق میں
یہ کس کی روشنی سے چمکتی ہے بوند بوند
…
آغوشِ آبشار میں مدہوش و مست حال
بادِ صبا کی دھن پہ تھرکتی ہے بوند بوند
…
بے رنگ و بو گھٹا کو یہ شاید پتا نہیں
مٹی کی خوشبوؤں سے مہکتی ہے بوند بوند
…
دن کی دھنک ہنسی کا یہ اعجاز ہی تو ہے
قوس قزح سے دھوپ کو تکتی ہے بوند بوند
…
اس کی چمک دمک کا بھروسا بھی کیا شہابؔ
وہ موم ہے پگھل بھی تو سکتی ہے بوند بوند
تبصرے بند ہیں۔