بشر کو ڈبوتی یہ بشربازیاں
نزہت قاسمی
غفلت کی چلی ایسی آندھیاں بھٹک گئے ہم
خصائلِ حمیدہ وہ اپنے نمایاں بھول گئے ہم
اب رہی نہ عہد و حیا کی کوئی قیمت
جفا و بقائے وفا کی چلتی ہیں قلابازیاں
ہر کوئی چاہے رہے اجارہ میرا بس میرا
لےجائیں گی کہاں یہ اندھی سودےبازیاں
ارزاں ہورہا وقارِ بشر اس قدر جہاں میں
نہیں ہے انساں کو ابھی اپنا احساسِ زیاں
رشتوں میں الفت کے حسیں پیوند لگاتی وہ
عنقّا کیوں ہورہیں ہم میں رائج مہربانیاں
کب آئے گئی حکمت سے بھری نئی اپنی سحر
کوشاں گرجذبہ ملیں قدرت کی عطا آسانیاں
سرابی چمک تیز ایسی ہے کچھ آئے نہ نظر
کہاں ہیں بصیرت کی وہ اپنی چھپی گھٹریاں
ہوئی مدھم لو جو ہوتی تھی شرر آباد مگن
کیوں مقدر بن رہیں ہیں سزا و پشیما نیاں
کرتی تھیں جو ممتاز جہاں میں چہار سو
شاندار وہ کھو گئیں کہاں اپنی سلطانیاں
تعاقب ہی تعاقب ہے حاصل کہاں ملے گا
جلائیے اپنے اپنے حصے کی تگ و تازیاں
اب رہی درمیاں وہ کہاں زیستِ قدر
کھو گئی وہ سچی حرمت کی تابانیاں
حق سے لبریز تھیں اب کمیاب ہیں بہت
امیدولگن مشقت کی چھلکتی ایمانداریاں
بلند ہوگی پھر سےہمت وحوصلہ کی رضا
زندہ تھیں جوبینا دل میں مچلتی جولانیاں
چمکے گی وہ سنہری کرن پھرسے تقدیر میں
دیکھے گا پھر ایک بار زمانہ اپنی سرشاریاں
دنیا میں در آئیں یہ کیسی حشر سامانیاں
بشر کو ہی ڈوبو تیں یہ بشر کی بازیاں
تبصرے بند ہیں۔