بیٹی ۔ اللہ کی رحمت

محمد ہاشم القاسمی

اسلام کے زریں اصولوں کے پیرائے میں تربیت یافتہ بیٹیاں خاندان، ملک، اور قوم کا بہترین سرمایہ ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے اولاد میں دو درجے رکھے ہیں، ان میں سے ایک نعمت اور دوسرا رحمت ہے، بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، نعمت سے نوازتا ہے، اور جسے چا ہتا ہے رحمت سے نوازتا ہے، اور جسے چاہتا یہ دونوں عطا فرما دیتا ہے، اور کسی کو ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں دیتا، محروم رکھتا ہے اور یہ بھی اس پاک ذات کی حکمت سے خالی نہیں ہے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق) زینت ہیں، اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں، وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں” (سورۃ الكهف)

 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے (باقیات الصالحات کو) ثواب اور امید کے اعتبار سے مال اور بیٹوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ امام عبید بن عمر اور علامہ قرطبی رحمہم اللہ کے نزدیک اس سے مراد” نیک بیٹیاں” ہیں۔ (تفسیر القرطبی)

 نیک صالح اولاد اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے، رحمت و برکت ہے، والدین کے لئے حصول جنت کا ذریعہ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نیک وصالح اولاد کی دعا مانگی تھی ” میرے پروردگار ! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو، چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ (الصافات) معلوم ہوا کہ نیک صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا سنت انبیاء ہے۔

 اولاد میں بھی بیٹی بیش بہا عطیہ خدا وندی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے يَهِبُ لَمَن يّشاءُ اِناثاًوَّ يَهِبُ لِمَن يَّشاءُ الذَكُوراً (الشوریٰ ) وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔

بعض مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ بچوں پر بچیوں کا مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بچیوں کی قدر و منزلت زیادہ ہے، اسی طرح اسی آیت کے اشارے سے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے۔ (معارف القرآن)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا” جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فرشتوں کو بھیجتا ہے، جو آکر کہتے ہیں” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْت یعنی اے گھر والو ! تم پر سلامتی ہو” پھر فرشتے اس بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ یہ ایک کمزور جان ہے، جو ایک کمزور سے پیدا ہوئی ہے، جو شخص اس کمزور جان کی پرورِش کی ذمہ داری لے گا، قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد اُس کے ساتھ شاملِ حال رہے گی۔ (مجمع الزوائد)

 اُم المومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ "میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی، میں نے اُسے تین کھجوریں دیں۔ اُس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹیوں کو دی اور ایک خود لے لی پھر اپنی کھجور بھی دو ٹکڑے کر کے اپنی دونوں بیٹیوں کو کھلا دی۔ مجھے اس واقعے سے بہت تعجب ہوا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اس خاتون کے ایثار کا واقعہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” اللہ پاک نے اِس ایثار کی وجہ سے اُس عورت کے لئے جنت واجِب کردی ہے۔ (مسلم شریف)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا” جس کسی کے تین لڑکیاں ہوں اور وہ شخص ان کی تکلیف اور معاشی پریشانیوں پر صبر کرے، تو ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔ اس پر کسی صحابی نے پوچھا” یا رسول اللہ اگر کسی کے دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو؟ فرمایا” دو لڑکیاں ہوں تو بھی( اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا )پھر کسی صحابی نے پوچھا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !اگر ایک ہی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا” گرچہ ایک ہی ہو( تو بھی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا)۔ (مسند احمد)

 ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ (ڈھال) بنیں گی“۔ (ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی بچی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (سنن ابی داؤد) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں اخلاقی و معاشرتی ادب سکھلایا، ان کی اچھی جگہ شادی کی اور بعد میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ (سنن ابی داؤد) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں پھر ان کا اچھے دیندار گھرانے میں نکاح کردیا تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔ (صحیح مسلم) جو شخص بچیوں کے ذریعے آزمایا گیا یعنی اس کے گھر صرف بچیاں ھی پیدا کی گئیں اور اس نے ان کو خوش دلی سے پال پوس کر جوان کر دیا تو وہ بچیاں قیامت کے دن اس کے اور آگ کے درمیان پردہ بن جائیں گی. ( بخاری، مسلم)

 آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بیٹیاں باپ پر بوجھ ہیں جب کہ یہ ان کی کج فہمی اور خرافاتی ذہنیت ہے کیوں کہ جس گھر میں بیٹیاں ہوتی ہیں ،وہاں اللہ کی رحمت برستی رہتی ہے اور بیٹی جب خاندان میں ہوتی ہے تو دلوں پر راج کرتی ہے۔ بہن بھائی کے لیے سچی اور مخلص دوست بن کر رہتی ہے ، ماں کا بازو بن کر رہتی ہے، بیوی بن کر ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ہوتی ہے اور جب ماں بنتی ہے تو اس کا رتبہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو لاکر اس کے قدموں ڈال دیتا ہے.

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو صنفوں میں پیدا فرمایا ہے، ایک مرد اور ایک عورت۔ یہ تقسیم بھی خالصۃً اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ مرد عورتوں کے محتاج ہیں اور عورتیں مردوں کی محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے دنیا میں ایک ایسا نظام قائم فرمایا ہے جس میں دونوں کی ضرورت ہے، اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

جاہلیت کے زمانہ میں لوگ عورتوں پر طرح طرح ظلم کرتے تھے، لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے تھے اور بیٹی پیدا ہونے پر منہ بسورتے تھے، اسے زندہ درگور کردیتے تھے، اس لیے اسلام نے اس کا انتہائی سختی سے رد کیا اور جا بجا بیٹیوں کے فضائل سنائے، اور ان کو عزت بخشی۔

اس لیے اسے سلف رحمت سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں کہ بیٹی کی اچھی پرورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر بے شمار فضائل وارد ہیں، ورنہ فی نفسہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی نعمت ہیں، اور دونوں ہی باعث رحمت بن سکتے ہیں۔

اولاد اللہ پاک کی خاص عنایت ہے چاہے وہ نعمت ہو یا رحمت، ہمیں ہر حال میں اللہ کا شُکر ادا کرنا چاہیے۔ ***

تبصرے بند ہیں۔