تجارت: سیرت نبوی ؐ کی روشنی میں
عائشہ صدیقی
"حضورِاکرم ﷺ سے پوچھا گیا:سب سے عمدہ کمائی کون سی ہے؟فرمایا آدمی اپنے ہاتھ سے کما کر کھانا کھائے اور ہر خرید و فروخت جس میں دروغ گوئی (جھوٹ)وغیرہ سے پرہیز کی گئی ہو”
عموما ًلوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ تجارت کے لئے سرمایہ کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔اس کے بغیر تجارت ناممکن ہے۔حالانکہ بغیر سرمایہ کے تجارت بھی کی جاسکتی ہے مگر کیسے۔۔۔۔؟؟؟
آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
صحاح ستہ کی مشہور کتاب ابودائود شریف میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک انصاری بارگاہ نبوت میں سوال کرنے کے لئے حاضر ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا "کیا تیرے گھر میں کوئی چیز نہیں ہے”؟
عرض کیا: "حضورﷺ !دوچیزیں ہیں ایک تو کمبل ہے جس کا کچھ حصہ ہم بچھا لیتے ہیں اور کچھ اوپر ڈال لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پی لیتے ہیں”۔
فرمایا: "دونوں میرے پاس لے آئو!
وہ لے آئے تو رسول اللہﷺ نے دونوں چیزیں ہاتھ میں لے کر فرمایا کون خریدتا ہے؟
ایک شخص نے کہا: "حضورﷺ!میں یہ دونوں کو ایک درہم میں لیتا ہوں”۔
پھر آپﷺ نے دو تین مرتبہ فرمایا کون اس سے بڑھا کر دیتا ہے؟
ایک شخص نے کہا: "حضورﷺ!میں دو درہم میں لیتا ہوں”۔
آپﷺ نے دو درہم میں اسکو دے دیے اس کے بعد وہ دو درہم انصاری کودے دیئے اور فرمایا:
"ایک درہم میں کھانے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دو اور دوسرے سے ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آئو”.
چنانچہ وہ لے کے آگئے ۔
رسول اللہ ﷺنے اپنے ہاتھ مبارک سے اس میں ایک دستہ ڈال دیا۔ پھر فرمایا "جائو! لکڑیاں کاٹ کر بیچتے رہو اور پندرہ دن تک میں تمہیں ناں دیکھوں”.
وہ چلے گئے۔ لکڑیاں کاٹ کاٹ کر بیچتے رہے۔ انہوں نے دس درہم کما لیے تو واپس آئے۔ کچھ رقم سے اشیا ء خوردنی کچھ کپڑے لئے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں برا نشان ہو۔۔”
کسی قسم کے قرضی لین دین یا جمع کرنے میں وقت صرف کرنے کے بجائے ایسی اضافی چیزیں جو آپکی ملکیت میں ہوں اور آپ کو یہ اندازہ ہو کہ اگر ان اشیا ء کو مناسب دام میں بیچا جائے اس کی آمدن سے کام شروع کیا جاسکتاہے ۔ تو بسم اللہ کیجئے، آپ جتنی محنت اور لگن سے کام کریں گے کامیابی اتنا قدم بوسی کرے گی۔
مسلمان کی کمائی چار اقسام پر مشتمل ہے۔
مسلمان احکام خداوندی کو مدنظر رکھتے ہوئے اھل وعیال کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جو جائز و حلال طریقے سے کمائے یہ اس پر فرض ہے۔
اس کا نظریہ یہ ہو کہ جو کما رہا ہوں۔ اس میں غربا ء فقرا اور مساکین کے ساتھ جتنا ہوسکا مالی امداد کر کے ان کی ضروتوں کو پورا کروں گا ۔ان کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کروں گا۔ یہ مستحب ہے۔
اپنے آرام و سکون کے لئے ، گھر والوں کی زیب و زینت کے لئے اور خصوصا ًگھر کی آرائش و زیبائش کے لئے کمانا بشرطیکہ اس کے دل میں نمود ونمائش کی ذرہ برابر بھی جگہ نا ہو۔ یہ جائز ہے۔
چار پیسہ ہاتھ میں آجائے تو گردن فخر سے اکڑا لینا۔ بڑائی بیان کرنا۔ لمبی لمبی ڈینگیں مارنا۔ اور اپنے سے چھوٹے کو نیچ یا گھٹیا سمجھنا۔ یہ مرض جب پایا جائے تو وہ کمائی ناجائزوحرام ہے۔
اچھا تاجر کون ہے؟
سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا۔ "بہترین کمائی اس تاجر کی ہے جس میں یہ باتیں ہوں ۔جب بولے تو جھوٹ نا بولے۔۔۔۔۔۔۔۔جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت نا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی نا کرے۔۔۔۔. جب (دوسرے سے)سامان خریدے تو اس کی مذمت اور کمی نا (بلاحقیقت کے)بیان کرے۔۔۔۔۔۔ اور جب (اپنا مال)فروخت کرے تو تعریف میں مبالغہ نا کرے۔۔۔۔۔ اور جب اس سے مطالبہ نکلے تو دینے میں ٹال مٹول نا کرے۔۔۔۔۔اس کا حق دوسرے پر نکلے تو سختی نا کرے(کنز الاعمال)
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے خود بھی تجارت فرمائی ، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا ۔ حضرت علیؓ چونکہ حضورﷺ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں اس کا موقع کم ملا تاہم گاہے بگاہے انہوں نے بھی تجارت فرمائی ۔
امام الفقاء امام ابوحنیفہؒ بڑے تاجروں میں تھے ۔ راس المحدیثیں امام بخاریؒ بھی تجارت کیا کرتے تھے ۔ اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ اس لئے بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو حکومت کے اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔اسلام سے پہلے عرب میں لوگ تاجروں کے لئے سمسار کا لفظ استعمال کرتے تھے ، جس کے معنی دلال کے ہیں ، یہ ایک ناگوار تعبیر سمجھی جاتی تھی ۔ آپﷺ نے ان کے لئے ایک مہذب لفظ’’ تاجر ‘‘کا اختیار فرمایا اور فرمایا کہ : اے جماعت تجار!خرید و فروخت میں لغو بات بھی آجاتی ہے اور قسم کھانے کی نوبت بھی آتی ہے لہذا صدقہ کے ذریعہ اس کی تلافی کیا کرو ۔ (ابو دائود)
سب سے پاکیزہ کمائی ؟
رافع بن خدیج ؓسے مروی ہے کہ آپﷺسے دریافت کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟
آپ ﷺنے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت (مسند احمد)
تجارت میں امانت درای کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے جو اس سیڑھی کو نا پاسکتا وہ کبھی بھی کامیابی نا پاسکا۔۔۔۔۔۔اور جس نے امانت داری کو اپنا شیوہ بنایا اس کے لئے آقا مدنیﷺ کا فرمان عالی ہے۔۔۔
"التاجر الصدوق الامین مع النبین والصدیقین والشہداء۔”
"جو تاجر تجارت میں اپنے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرلے قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔”(جامع الترمذی شریف)
ایک دوسری حدیث مبارکہ جو اس کے متضاد ہے فرمایا
ان ِالتجار یحشرون یوم القِیامۃِ فجارا ،ا ِلا منِ اتقیٰ وبر وصدق
"قیامت کے دن تاجروں کا حشر (فاجروں)گنہگاروں کے ساتھ ہوگا سوائے اس تاجر کے جو ڈر گیا ، اور نیکی کی اور سچ بولا۔ "
اسی طرح تجارت دین بھی ہے اور دنیا بھی۔۔۔۔۔جنت میں لے کر جانے کا سبب بھی ہے اور جہنم میں پہنچانے کا سامان بھی۔۔۔۔۔یہ تاجر پر موقوف ہے کہ وہ اپنی تجارت دنیا تک محدود رکھتا ہے یا اس کی آخرت کے لئے ذخیرہ اندوزی بھی کرتا ہے۔۔۔۔۔ کامیاب تجارت کے دو اصول ہیں۔۔۔۔ دیانت داری اور چیز کا عیب بتانا۔۔۔۔۔ کوشش کریں کہ آپ کی تجارت سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔ تجارت میں ہمیشہ معیاری اشیا ء کی خرید و فروخت کی جائے۔ گھٹیا اور غیر معیاری مال کے لین دین سے حتی الامکان خود کو بچایا جائے۔ کبھی کسی اشیاء میں کوئی نقص وغیرہ نکل آئے تو اس کو گاہک پر واضح کردیں۔۔۔۔۔ اپنی تجارت کو سچائی کے ساتھ مزین کریں۔۔۔۔ اللہ پاک ہم سب کو اسلامی احکامات کے مطابق تجارت کرنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین)
تبصرے بند ہیں۔