تعلیمی سال کا آغاذ : معلم انسانیت اور امت مسلمہ

راحت علی صدیقی قاسمی

تعلیم انسانیت کا امتیاز ہے ،فرشتوں پر برتری کا باعث ہے ،عقل و شعور کو پختگی بخشنے کا ذریعہ ہے، قوموں کے عروج کا باعث ہے ،جو قومیں آعلی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام رہیں ،وہ دنیا کے نقشہ سے مٹ گئیں ،ان کا نام لینے والے بھی موجود نہیں رہے ،اور جن قوموں نے علم میں بلند مقام حاصل کیا ،ان کے نقش پا ترقی کے ضامن قرار پائے ،تاریخ نے انہیں اپنے سینے پر فخر کے ساتھ جگہ دی ،اور وہ زندہ پائندہ اور تابندہ ہوگئیں ،قیامت تک ان  علوم وفنون کی روشنی سے دنیا چمکتی رہے گی ،معلم انسانیت نے اسی لئے دنیا کو تعلیم سے وابستہ کیا ،علم کے چراغ روشن کئے ،اور جہل کی تاریکی کے چھکے چھڑا دئے ،اسے شکشت سے دوچار کردیا ۔

اسلامی تعلیمات پر غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے ،اسلام نے تعلیم کو جتنا بلد تر اور اہم گردانا ہے ، تاریخ انسانیت میں کوئ مذہب کوئ مفکر کسی خیال کا حامل فرد علم کو اس سے زیادہ بلد مقام عطا نہیں کرسکا ہے ،ابراہیم علیہ السلام نے محمد عربی صلی اللہ کی آمد کی دعا کی ،تو آپ کو بحیثت معلم خدا سے مانگا ،قرآن نے اس دعا کا نقشہ اس انداز میں کھینچا ہے ،ربنا وابعث فیھیم رسولا منھم یتلو علیھم  آیتک ویعلمھم الکتاب و الحکمت وبزیکھم ،انک انت العزیز الحکیم ) آپ تشریف لائے تو آپ نے معلم ہونے کا اعلان کیا ، بعثني معلما ميسيرا )اللہ تبارک و تعالی نے آپ کے اوصاف بیان کئے تو آپ کو کتاب و حکمت کا معلم بتایا ،آپ کو انسانیت کا ہادی و رہنما بتایا ،انکے قلوب کو پاکیزہ کرنے والا بتایا ،انہیں حکمت و دانائ سے پُر کرنے والا بتایا ،قرآن گویا ہے ،ھوا الذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلو علیھم آیتہ ویعلھم الکتاب والحکمت وان كانو من قبل لفي ضلال مبين )

آپ معلم انسانیت ہیں ،آپ نے کائنات کو علم کی روشنی سے معمور کیا ، جہل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھٹ گئے اور علم کا بول بالا ہوگیا ،آپ نے صحابہ کو علم کی بلندیوں پر پہونچایا ،ہر وقت تعلیم دی سفر میں تعلیم دی حضر میں تعلیم دی ، اسرار کائنات اور احکامات خداوندی سے آشنا کرایا ،رات کے حصوں کو بھی تعلیمی مشغلہ سے خالی نہیں رکھا ،مدینہ میں تعلیم دی مکہ میں بھی تعلیم دی منی تعلیم دی ،بوڑھوں بچوں عورتوں جوانوں تمام ہی کو اس دولت عظمی سے بہرمند کیا ،جو آپ کے دامن سے منسلک ہوئے ، وہ علمی دنیا میں محترم ہو گئے ،کسی کو علم کا دروازہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ،تو کسی نے نظام جہاں بانی و حکمرانی کی عملی تصویر پیش کی ،کوئ فقہ و تفسیر کا امام قرار پایا ،کوئ حکمت و دانائ کا بادشاہ ہے ،کوئ شجاعت و بہادری کا پہاڑ ہے ،علم سے انکے قلوب روشن ہوئے ،اور آپ کے تمام صحابہ کائنات کے لئے ستاروں کے مانند قرار پائے ،جس کے قدم ان اصحابِ نبی کے نقش پا کی اتباع کرنے میں کامیاب ہوئے ، وہ بھی راہ یاب ہوگیا

آپ نے آنے والی نسلوں کو بھی علم اور علم سے وابستہ افراد کی عزت و توقیر کرنے کی تلقین کی ،جس طرح آپ نے زندگی کے قیمتی اوقات کو تعلیم و تعلم پر صرف کیا ،اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا ،ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرتے رہو ،اور امت مسلمہ کو ہمیشہ علم حاصل کرنے کی تلقین کی ،حصول علم کے لئے وقت عمر رنگ و نسل حسب و نسب کی پابندیاں نہیں رکھی گئیں ،بلکہ ہر شخص حصول علم کا اہل قرار پایا ،کالا گورا دلت ، چھوت ، اچھوت کی دیواریں قائم نہیں کی گئیں  ،اس عظیم دولت کو عام کیا گیا ،عزت و سربلندی کو حصول علم کا انعام قرار دیا گیا ،اور رفعت و عظمت کو علم پر موقوف کیا گیا ، قرآن نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے ،یرفع اللہ الذین آمنو منکم والذین اوتو العلم درجات ،بلند مرتبہ اہل علم کا نصیبہ ہوتا ہے ، اہل علم ہی سربلند ہوتے ہیں ،کائنات کی بادشاہت انکی جوتیوں میں ہوتی ہے ،آپ کی تعلیمات نے ان حقائق کو عالم آشکارہ کردیا ،کائنات کا ہر باشندہ علم کو اپنے قلب میں پیوست کرسکتا ہے، اسکے لئے ذات برادری کا کھیل نہیں ہے ،ہر شخص حصول علم کا اہل ہے ،اور اس کے ذریعہ اپنے مقدر کا ستارہ روشن کر سکتا ہے ،آپ نے اخلاقیات کی تعلیم دی معاملات کی تعلیم دی ،ایمان سکھایا ،سماج و معاشرہ میں رہنے کے آداب سکھائے ،پڑوسیوں رشتہ داروں عزیزوں کی عزت کرنا سکھایا ،اصول زندگی پیش کئے ،اور 23سال کی مدت میں کائنات کو علم کا گہوارہ بنا دیا ، اور وہ انقلاب برپا کیا جو صدیوں تک ممکن نہیں تھا ،لیکن آپ کا خلوص آپ کی محنت جد وجہد اس عظیم کارنامے کو سر کر گئ ،اور دیکھتے ہی دیکھتے جہل کی تاریکی علم کی روشنی کا روپ دھار  گئ ،اور آج بھی کائنات اس روشنی میں اپنا سفر طے کررہی ہے۔

چودہ صدیاں بیت چکیں ،مگران تعلیمات کی روشنی ماند نہیں پڑی ،آج جب ہم ان تعلیمات پر غور کرتے ہیں، تو قلب پر یہ تصور ثبت ہوتا ہے ،جس مذہب میں علم کا مقام اتنا بلند ہے ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے لئے بے پناہ محنت کی ، جانی دشمنوں تک کو علم کے عوض آزادی کا پروانہ عطا کیا،اس مذہب کے ماننے والے علم میں بلند مقام رکھتے ہونگے ،تحقیقات کی دنیا ان کے قدموں میں جھکتی ہوگی ،اس مذہب سے وابستہ کسی فرد نے جہالت کی بو کو بھی نہیں سونگھا ہونگا ،علم سے محبت کرتے ہونگے ،ہر فرد علم حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتا ہوگا ،بھوکا رہنا منظور کرتے ہونگے مگر جاہل ہونا گنوارا نہیں کرتے ہونگے ،ہر شرط پر علم کا حصول ان کے لئے مقدم ہوتا ہوگا، مگر جب حقائق دیکھتے ہیں ،تو تصورات کی دنیا ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے ،اور حقائق دل کو بیچین کردیتے ہیں، آنکھوں کو نمناک اور ذہن کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ،کیا یہ اس نبی کی امت ہے ،جس نے حصول علم کو ہر لمحہ مقدم رکھا ہے ،اور براہ راست صفہ چبوترے پر معلم بن کر ظاہر ہوئے ،اس نبی کی امت کا حال یہ ہے ۔

آج سرزمین ہند پر اس نبی کے امتی جہالت کے گہرے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں ،2011 مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کے 83 فی صد بچے ایسے ہیں ،جنہوں نے مدارس و مکاتب کا منھ نہیں دیکھا ،قرآن وحدیث سے انہیں کوئ سروکار نہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے بہرہ،علوم قرآنی سے دور ،تکالیف سے لڑتے ہوئے ،مسائل کے بے شمار حل تلاش کرچکے ،مگر ہر مقام پر ناکام ہیں ،اور علم سے کوسوں دور ہیں ،حصول علم کی طرف راغب نہیں ہوتے ،قرآن اور احادیث سے بے خبر ہیں ،ان حالات میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،جہل کی تاریکی کو کیسے ختم کیا جائے،علم کی دولت سے مسلمانوں کو کیسے مالامال کیا جائے ،ان سوالات کے ہمیں جواب تلاش کرنے ہونگے اور جہالت کی اس دلدل سے نکلنا ہونگا ،امت کو مدارس سے وابستہ کرنا ہوگا ،قرآن و حدیث سے وابستہ ہونا ہوگا ،تبھی مسائل کا حل نکلیگا ، اور ساتھ ہی اہل مدارس کو بھی سنجیدگی سے غور فکر کرنا ہوگا ،اور طلبہ کو اخلاقیات کی تعلیم دینی ہوگی ،معاملات کی تعلیم دینی ہوگی ،تجارت اور اصول تجارت کی تعلیم دینی ہوگی ،اخلاق اور معاملات میں مسلمان بہت پیچھے ہیں۔

اسی طرح معاشی اعتبار سے بھی مسلمان بہت پیچھے ہیں ،اہل مدارس جن مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، انہوں نے بہت سے قدموں کو تعلیمی میدان کی طرف قدم بڑھانے سے روک دیا ہے ،سال کے آغاذ کا موقع ہمیں ان تمام امور پر غور وفکر کی دعوت دے رہا ہے ،اور سنگین نتائج سے خوف زدہ کررہا ہے ،اور تعلیم کا گرتے معیار بھی قابل تشویش ہے ،جب تک ہم معلمین کی ضروریات پر نظر نہیں کرینگے ،اسے بلند کرنا نا ممکن ہے ،ہمارے لئے ضروری ہے ،جب طلبہ فارغ ہوکر نکلیں ،ہم ان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ،ان کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ان راہ دکھائیں کہاں ان کی صلاحیتیں کارگر ہوسکتی ہیں ،کس میدان میں وہ سکندر ثابت ہوسکتے ہیں ،ان کے لئے تدریس بہتر ہے ،امامت بہتر ہے ،یا وہ عظیم قلم کار بن سکتے ہیں ،تجارت کے میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں ، کس فن مین ان کی صلاحیتیں پروان چڑھ سکتی ہمیں پرکھنا ہوگا ،اور ان کی رہنمائ کرنی ہوگی۔

اگر ایسا نہیں ہوا ،اور ایک بھیڑ آئ اور چلی تو اس طرح معاشی میدان بھی تنگ اور حصول علم کا رجحان بھی کم ہو جائیگا ،اور پروفیشنل کورسیز کی طرف توجہ کریں گے ،یا مزدوری کو پیٹ بھرنے کے لئے بہتر خیال کرینگے ،حالات کروٹ نہ بدلیں اس کے لئے ہمیں محنت کرنی ہوگی ،اور باضبطہ طلبہ کی صلاحیتوں کا خیال رکھنا ہوگا ،انہیں نکھارنا اور سنوارنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔