کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرع؟

حفیظ نعمانی

ہماری طرف سے بھی سب کو عید مبارک ہو۔ ہمارے خاندان کو لکھنؤ آئے 71 سال ہوگئے ان برسوں میں عید کی نماز ایک بار عیدگاہ میں اس وقت پڑھی جب کچہری روڈ پر تبلیغی جماعت کا مرکز بن کر تیار ہوا تھا اور مرکز کے پرجوش مبلغوں کی خواہش تھی کہ اب عید کی نماز ہم مرکز میں پڑھیں اور والد ماجد مولانا محمد منظوری نعمانی جو ان برسوں میں مرکز کے برابر بنے ہوئے مکان میں رہتے تھے وہ پڑھائیں۔ عید کی صبح کو اچانک والد صاحب نے فرمایا کہ بیٹے۔ ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر سید عبدالعلی برادر معظم مولانا علی میاں) کے پاس چلے جائو اور دریافت کرو کہ نماز کہاں پڑھیں گے؟ ہم بھاگے بھاگے ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے اور والد کی طرف سے معلوم کیا کہ وہ دریافت کررہے ہیں کہ عید کی نماز آپ کہاں پڑھیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے سپاٹ لہجہ میں جواب دیا کہ عیدگاہ میں پڑھیں گے اور کہاں پڑھیں گے۔

جب یہ جواب دیا والد کو دیا تو فرمایا کہ ایک تانگہ لے آئو۔ اور اس تانگہ پر ہمیں ساتھ بٹھاکر عیدگاہ لے گئے یہ وہ زمانہ تھا کہ رکاب گنج کے گھوڑا آگے جنگل تھا اور راستے کے دونوں طرف تیر کھڑے تھے جن کے پتوں سے ہاتھ کٹنے کا خطرہ ہوتا تھا۔ عیدگاہ میں شاید تین صفیں تھیں (اب ٹھیک سے یاد نہیں) پہلی صف میں مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوری، مولانا محمد قاسم، مولانا عبدالحلیم ملیح آباد، مولانا سعید الحسن لاہر پوری ، مولانا منظور نعمانی ، ڈاکٹر مولانا عبدالعلی اور ہاں، مولانا عبدالماجد دریابادی اور ان کے علاوہ بھی چند اور عالم۔ ایک نوجوان امامت کے لئے کھڑے ہوئے تو سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر انہوں نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد جب وہ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو کاپی کے ایک ورق پر خطبہ لکھا تھا وہ ہاتھ میں اس طرح کانپ رہا تھا کہ امام صاحب کی نظر ٹھہر نہیں رہی تھی۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کھڑے ہوئے اور ان کے ہاتھ سے خطبہ لے کر مولانا عبدالحلیم ملیح آبادی کو دیا اور امام صاحب سے فرمایا کہ کوئی دوسرا خطبہ پڑھے تو نماز پر اثر نہیں پڑتا۔ اور اس طرح عید کی نماز عیدگاہ میں ہوئی۔ جو اس عیدگاہ کے امام کے مذہب میں سُنت مؤکدہ ہے۔ اسی دن عیدگاہ سے واپس آکر ڈاکٹر عبدالعلی ناظم ندوۃ العلماء نے فیصلہ فرمایا کہ مرکز میں تو نہیں، لیکن اب عید کی نماز ندوہ کی مسجد میں پڑھا کریں گے۔ اس کے بعد جب تک ممکن ہوا ہم بھی ندوہ کی مسجد میں نماز پڑھتے رہے اور رفتہ رفتہ ندوہ میں پڑھنے والوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ اس سال ہم نے وہاں جانے کی بھی ہمت نہیں کی اور گھر کے سامنے والی مسجد محمدی میں نماز پڑھ لی۔

ملنے کے لئے آنے والوں نے بتایا کہ صرف اخباروں میں ہی نہیں چھپا بلکہ پوسٹر اور مسلم محلوں میں بینر بھی لگے ہوئے ہیں کہ عیدگاہ میں عید کی نماز سُنت مؤکدہ ہے۔ اگر کوئی اپنے کو مولوی لکھے اور لوگ اسے مولانا کہیں تو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے پاس علم بھی ہے۔ اس طرح کے اعلان سے وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ پورے شہر کی جو دوسری عیدگاہیں بن گئی ہیں اور شہر کی تقریباً تمام مساجد جہاں مسلمان عید کی نماز پڑھتے ہیں وہ سُنت مؤکدہ ترک کردیتے ہیں اور گناہگار ہوتے ہیں۔ ہم مدینہ منورہ میں سات مہینے رہے فرصت میں چپہ چپہ دیکھا ہر وہ جگہ دیکھی جس کی تاریخی حیثیت ہے لیکن مدینہ میں کسی نے ہمیں عیدگاہ نہیں دکھائی۔ اور کوئی ایسا عرب بھی نہیں ملا جس نے عیدگاہ میں نماز پڑھی ہو؟
عید کی نماز مکہ معظمہ کے بیت اللہ میں پڑھنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی اور مسجد نبویؐ میں بھی عید کی نماز پڑھی فرنگی محلی کے امام عیدگاہ کے اعلانات کے بعد مکہ مدینہ کے مسلمان جن میں بڑی تعداد سادات، فاروقیوں، صدیقیوں اور عثمانیوں کی ہے سب سنت مؤکدہ ترک کررہے ہیں۔ اور سنت مؤکدہ صرف اس عیدگاہ میں نماز پڑھنا ہے جہاں وقت کا وزیر اعلیٰ آتا ہے، امام اور اس کے چمچے ان کے لئے عیدگاہ میں صوفے بچھاتے ہیں اور عید کے وہ خاص پکوان کھلاتے ہیں جن کے بعد حاکم وقت معلوم کرتا ہے کہ بتا جمہورے تجھے کیا چاہئے؟ اس لئے کہ وہ دیکھتا ہے کہ ہر طرف ٹوپی اوڑھے ووٹر ہی ووٹر ہے اور یہ سب ووٹر اس کے قبضہ میں ہیں۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کے اپنے ووٹ کے علاوہ اس کے پاس چند غنڈوں سے ووٹ اور ہیں اور وہ بھی ضروری نہیں۔ اب علماء کرام فیصلہ فرمائیں کہ سنت مؤکدہ عیدگاہ میں نماز ادا کرنا کس کتاب میں لکھا ہے؟ اور جو مدینہ کی عیدگاہ کے متولی ہیں وہ کیوں حکومت سعودیہ سے نہیں کہتے کہ سنت مؤکدہ ترک کرنے کے سب کے سب گناہگار ہورہے ہیں؟

جب سے مختلف مدارس کے وہ فتوے جن میں اس عیدگاہ کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا حرام بتایا گیا ہے جس عیدگاہ میں ہر دن خلاف سنت کام ہوں، ہر ان شرابی بارات بناکر آئیں، شہرت کی حد تک ہر صبح کو سڑک کی صفائی مزدور عیدگاہ میں آکر شراب کی خالی شیشیاں تلاش کریں جس عیدگاہ کی شہرت عید کی نماز سے زیادہ میریج لان کی ہوجائے جیسے موتی محل لان، بلرام پور لان یا ہوٹل تاج لان اور ایسے ہی عیدگاہ لان بن جائے اور جہاں یا تو گائوں سے آنے والے، یا میلہ دیکھنے والے یا صرف وہ مسلمان نماز پڑھنے آئیں جو سال میں صرف عیدین کی نماز پڑھتے ہیں اور دین دار مسلمان عیدگاہ کی شیطانی حرکتوں سے خدا کی پناہ مانگیں۔ اس عیدگاہ میں نماز ادا ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ ہر عالم دین کو کرنا چاہئے۔ میری مراد ان عالموں سے نہیں ہے جو اس کے قائل ہیں کہ جیسے ملے جہاں سے ملے، ہم بھی کھائیں اور تم بھی کھائو۔ تم ہمیں نہ کہو اور ہم تمہیں نہ کہیں۔ وہ زبان نہ کھولیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ لکھنؤ میں ابھی ایسے عالم ہیں جن کے دامن پر سجدہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ فیصلہ کریں کہ سنت مؤکدہ کیا ہے؟ اور ایک داغدار امام کو کیا حق ہے کہ وہ کروڑوں مسلمانوں کو جن میں نہ جانے کتنے خدا کے پیمانے پر پورے اترنے والے بندے ہیں ان کو سنت مؤکدہ کا ترک کرنے والا بتائے اور جو بتائے تو وہ خود کیا ہے؟

یہ بھی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ عیدگاہ میں نماز کے لئے بلایا جارہا ہے یا لان اور مال کھانا پکانے کی معقول جگہ اور سیکڑوں کاروں کی پارکنگ دکھاکر شادی کرنے والوں کو لان دکھایا جارہا ہے؟ یہ تو اللہ کو ہی معلوم ہوگا لیکن اگر اس نظر سے دیکھا جائے کہ صرف نماز کے آنے والوں سے کیا ملا؟ اور لان پسند کرنے والوں سے کیا ملے گا تو ایک کاروباری وہی فیصلہ کرے گا جو سامنے کی بات ہے۔ ہوسکتا ہے لکھنؤ میں مسلمانوں کی آبادی آٹھ لاکھ ہو۔ وہ عیدگاہ کون سی ہے جہاں تین لاکھ مسلمان عید کی نماز پڑھ لیں اور نہ پڑھ سکیںتو سب سنت مؤکدہ ترک کرنے کے گناہگار ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔