قدرت اللہ بلال مطیع الرحمن
(جامعہ اسلامیہ سنابل، نئی دہلی)
منطق، فلسفہ اور سائنٹفک سوچ وغیرہ نے قرآن کی اصل روح سے انسان کو دور کردیا۔ قرآن جو ایک سر چشمہِ ہدایت تھا مرور زبان کے ساتھ کچھ لوگوں نے ایک علمی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا محور بنا لیا، اس کے اندر اتنا افراط ہوا کہ قرآن کی معنوی حیثیت، کچھ سے کچھ ہونے لگى،جس کی وجہ سے قرآن جو ہر زمانہ کے لئے ہے اس کو کچھ زمانہ تک محدود کردیا۔
یہ درست بات ہے کہ قرآن ہر زمان و مکان کے لئے لیکن قرآن جن لوگوں کے سامنے نازل ہوا انہوں نے رسول کے سامنے کس طرح سمجھا اور اس کی کس طرح تفسیر کی اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے کہا ’’ جب کسی کتاب کی نسبت یہ سوال پیدا ہواس کا کیا مطلب ہے ؟ تو قدرتی طور پر ان لوگوں کے فہم کو ترجیح دی جائے گی جنہوں نے خود صاحب کتاب سے سمجھا ہو ‘‘ ( ماہنامہ التبیان : ستمبر ۲۰۱۸،جلد ۱۵، شمارہ ۵ )۔
قرآن کی تفسیر کو سمجھنے یا تفسیر کرنے سے پہلے یہ اصول بھی مد نظر ہونا چاہیے جس کو ابولکلام آزادؔ نے بیان کیا ہے ’’ ہر کتاب اور تعلیم کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور اس کی تمام تفصیلات انہیں کے گرد گردش کرتی ہیں، جب تک یہ مراکز سمجھ میں نہ آئیں، دائرے کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آسکتی، قرآن کا بھی یہی حال ہے ‘‘ ( ماہنامہ التبیان : ستمبر ۲۰۱۸،جلد ۱۵، شمارہ ۵ )۔
استاذ محترم مولانا عبد البر مدنیٓ کہا کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ” اسلام کو سمجھ نے کے لئے جاہلیت کو سمجھنا ضروری ہے ” جس جاہیلت کے خاتمہ کے لئے قران نازل ہو اتھا تو قرآن کو سمجھنے کے لئے صحابہ کے دور کا ادراک ہونا ضروری، قرآن کی تفسیر حدیث میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے بس اس کا ادراک اور رسائی ہونا چاہیے، قرآن کو سمجھنے کے لئے صرف نبی کے اقوال اور صحابہ کے اقوال پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ ان کے افعال بھی دیکھے جائیں کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا
’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ "( سورة النحل)
محمد صلی علیہ وسلم نے ساری چیزع پہنچادی، اور صحابہ کرام جب تک سمج نہیں لیتے عمل نہیں کرتے سمجھنے کے بعد عمل ضرور کرتے تھے، اسی طرح صحابہ کرام کے دور کو سمجھنے کے لئے تابعی و سلف کے اقوال کا سہارا لیا جائے گا تب جاکر کے تفسیر کرنے میں اعتدالی آئے گی اور فکر بھی منہجی ہوگی۔
منہجی ذہن بنانے کے لئے ان تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے جو تفسیر بالماثور ہو، ان لو گوں کی تفسیر پڑھی جائے جنہوں نے تفسیر بالقرآن کی ہو یا تفسیر بالسنۃ کی ہو اور دونوں کی رعایت کی ہو، اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔
جدید عربی کا مطالعہ کرنے والوں کو قرآن کی تفسیر کرتے سمے اورمعنی بتا تے ہوئے اس چیز کاکا محاسبہ کرلینا چاہیے کہ قدیم عربی سے واقفیت کس قدر ہے۔
کچھ لوگ قرآن کی تفسیر اپنی ذہانت کا ستعمال کرکے کرتے ہیں جو صرف روشن خیال سے میل کھاتی اور وہ لو گ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس تفسیر کی تعریف کرتے ہیں پھر ان لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے جو زمانے کےمقلد ہوتے ہیں یا ایسے دماغوں کے سامنے جو صر ف زمانے کے مطابق چلتے ہیں پھر وہ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اس کو عمدہ تصور کرتے ہوئے تعریف کرتے ہیں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ حدیث، تفسیر صحابہ، اور تابعین کے اقوال سے متصادم تو نہیں یا تاریخ کے مخالف تو نہیں ہے، تب وہ مفسر سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی تفسیر اصل اور سمندر سے سیپ نکالنے کے مانند ہے۔
ہاں ! قران میں غورو فکر کرکے نئی نئی چیز ڈھونڈنا چاہیے لیکن ایسے بھی نہیں جس سے پتا چلے کہ وہ صرف اس زمانہ تک محدود ہے اور پچھلی تاریخ غلط سمجھ میں آنے لگے۔
زمانہ حاضر میں تفسیر کرنے والون سے اگر اسبابِ نزول کے بارے میں پوچھا جائے تو نہیں بتا پائیں گے، کیونکہ وہ صرف عربی عبارت دیکھتے ہیں تو پھر کسی چیز کی وضاحت کیسے صحیح ہو سکتی جب اس کا بیک گراونڈ اور پش منظر معلوم نہ ہو۔
اس طرح سے قرآ ن کی اصل روح اور معنویت کا پتا نہیں چل پاتا، جدیت کے چکر میں کہیں ایسا نہ ہو کہ کہ مغربیت کے استعمار کے اثر کی وجہ سےغیر عربی کے نزدیک قرآن کی اصل معانی کی تحریف ہوجائے، اس سے متنبہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ نے کی توفیق دے آمین
ویسے ان علماء کرام سے بھی ایسی چیز واقع ہوئی ہے جو تفسیر کرنے میں بڑے محتاط رہیں، تفسیر کے اصولوں کے پابند اور منہجِ سلف کے پیروکار ہیں۔
لیکن اس کو اجتہاد پرمحمول کریں گے۔ اگر کوئی نئی چیز ڈھونڈنے میں اصولوں کو چھوڑ کر غیر منہج پر تفسیر کرتا ہے تو اسے سوچنا چاہیے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، اور اس کی تفسیر غیر معتبر مانی جاتی ہے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں۔