جانوروں سے محبت
آبیناز جان علی
خدا کی صناعی بھی لاجواب ہے۔ اس نے نہ صرف انسانوں کو پیدا کر کے انہیں عزت بخشی بلکہ طرح طرح کے جانوروں کو دنیا میں بھیج کر اس کائنات کو اور بھی رنگین بنایا ہے۔ ہوا میں پرواز کرتی ہوئیں حیرت و استعجاب میں ڈالنے والی چڑیاں انسان میں حریت کی لذت سے سرشار ہونے کی تشنگی کو ابھارتا ہے۔ پانی میں قسم قسم کی مچھلیاں اور آبی مخلوقات کی خونصورتی اور عظمت کے سامنے انسان عاجز ہو جائے۔ زمین پر رینگنے والے انواع و اقسام کے جانور بھی اسی خدا کی قوتِ تخلیق کا ثبوت پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اعلیٰ الصباح کی خاموشی میں جب چڑیوں کی بے ہنگم چہچہاہٹ اور مرغوں کا شوراپنی زبان میں اپنے خداکے نام کی تسبیح پڑھتے ہیں تو انسان کو بھی ایک سکون سا ملتا ہے۔ قدرت کے قریب اور اس کا حصّہ ہونے کا گمان دل میں گھر کر لیتا ہے۔ جانور اپنی سادہ زندگی سے ہمیں کیا کچھ نہیں سکھاتے۔ صبح سویرے نہاں منہ جب چڑیا اپنے گھونسلے سے نکلتی ہے تو وہ بس خدا پر توکل رکھتی ہے کہ اس کا رازق اس کے پیٹ بھرنے کا انتظام کرے گا۔ چڑیا کس خود اعتمادی سے آسمانوں کی بلندیوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے اور ہر حال میں پرسکون نظر آتی ہے۔ اپنے گھونسلے کی تجدید کے لئے کتنی جفاکشی سے تنکے کو جمع کرتے کرتے آخرکار اپنا آشیانہ بناتی ہے۔ شاید وہ انسان کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ اسے زندگی کے سفر کو طے کرنے کے لئے مادہ پرست بننے کی ضرورت نہیں۔
بہت سے لوگ جانوروں کو اپنا بہترین دوست اور ساتھی مانتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ گاڑیوں میں، سمندر کے کنارے یا پھر گھروں میں کتے یا بلی یا کچھوا، خرگوش یا مچھلیاں انسان کے ہمراہ اس کی تنہائی کی خلا کو پر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی جانوروں کی دلآرام رفاقت ان کو انسانوں کی صحبت سے زیادہ عزیز معلوم ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ جانور وفادار ہوتے ہیں اور جس نے انہیں دو وقت کا کھانا دیا وہ انہیں کے ہوکے رہ گئے۔ گود میں جب ان کا مالک انہیں سہلاتا ہے اور انہیں محبت بھرے کلمات سے نوازتا ہے تو اس کے لئے اس سے بڑی دولت نہیں اور وہ خود کو خوش نصیب ماننے لگتے ہیں۔
انسانی رشتے اکثر مایوس کرجاتے ہیں۔ باہمی ربط کے سانچوں میں پیوستہ الجھنیں انسانیت کے لئے کبھی کبھی سیاہ ترین تاریخ لکھ جاتی ہیں۔ انسان انسان کو سمجھنے سے قاسر رہتا ہے۔ اس طرح وہ جانوروں میں احساسِ تحفظ اور اس کی نرم خال میں تسلی ڈھونڈھتا ہے۔ جو دل اپنوں سے زخم کھاتا ہے وہ باہر کی دنیا میں دوسروں میں سہارا تلاش کرنے سے گھبراتا ہے۔ اس اثنا میں صرف اپنے پالتو بے زبان جانور میں ہی خوشی تلاس کرنے کی ہمت جٹا پاتا ہے۔ جب وہ اداسی میں دنیا و مافیہا کی قید سے دور آنسو بہاتا ہے تو اس کے جانور ہی اپنی موجودگی سے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
کتے اور بلیوں میں تو جیسے ایک غیبی طاقت ہے جس کی مدد سے وہ انسان کے جسم میں پوشیدہ درد کو پہچان کر اپنے چھوٹی ٹانگوں سے مساج بھی کرتے ہیں۔ مالک کو اداس دیکھ کر وہ بھی گم سم رہتے ہیں۔ کئی ایسی خبریں بھی نظروں سے گزرتی ہیں جہاں جانوروں نے اپنے مالک کی جان بھی بچائی ہو۔ جانوروں کا خیال رکھنا بھی اہم ذمے داری ہے۔ ان کو صاف کھانا دینا، نہانا اور دوائی اور ٹیکا لگوانا، ان کے ناخن کانٹنا اور ڈاکٹرکے پاس معائنہ کے لئے لے جانا جانوروں کی دیکھ ریکھ میں شامل ہے۔
اسلام میں بھی جانوروں کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ حدیثِ پاک میں درج ہے کہ ایک طوائف ایک کنواں سے گذر ہی تھی۔ پاس میں اسے ایک کتا نظر آیا جو پیاس کی شدت سے تلملا رہا تھا۔ اس نے اپنے موزے کو اپنے دوپٹے سے باندھا اور اس کی مددسے کنواں سے پانی نکالااور کتیّ کو پانی دیا۔ اس فعلِ نیک کے لئے خدا نے اسے معاف کیا۔ اسی طرح ایک شرابی کو ایک کنواں نظر آیا اور اس نے اس میں نیچے اترکر اپنی تشنگی بجھائی۔ اوپر چڑھنے کے بعد اس کے دل میں قریب کے ایک تشنہ کتّے پر رحم پیدا ہوا جو پیاس کی شدت سے ندھال گیلی مٹی کھا رہا تھا۔ وہ کنواں میں دوبارہ نیچے گیا، اپنے جوتے میں پانی بھڑا اور اسے اپنے منہ میں جکڑے ہوئے اوپر چڑھا۔ پھر اس نے کتے کو پلایا۔ چونکہ دونوں نے خدا کی مخلوق پر رحم کا مظاہرہ کیا، خدا نے ان پر رحم کھا کر ان کے گناہِ کبیرہ کو معاف کیا۔ ایک دوسری حدیث میں درج ہے کہ ایک بڑھیا نے ایک بلی سے تنگ آکر اسے باندھ کر رکھا اور کھانے سے بھی محروم رکھا۔ اس طرح اس بلی کی موت ہوگئی۔ اس کے عوض اس نے جہنم کو پایا۔ جو دیگر مخلوقات پر رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا۔
جانوروں پر کئی حکایات لکھی گئیں ہیں۔ چیونٹی اتنی چھوٹی ہونے کے باوجود ہر وقت کام میں مصروف نظر آتی ہے۔ ہاتھی کی جسامت اتنی ہے کہ اپنے پیڑوں سے ہر کسی کو مسل سکتی ہے۔ ہاتھی پر کئی محاورات مشہور ہیں : کتا بھونکے ہزار ہاتھی چلے بازار اور ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ ہاتھی نے قرآن میں بھی جگہ پائی ہے۔ ابراہا کی فوج جب خانئہ کعبہ کو برباد کرنے کے لئے آئی تھی تو چڑیوں کے لشکر نے ان پر کنکریوں کی بارش کر کے انہیں نیست و نابود کردیا تھا۔ نیز خدا نے اس دنیاوی زندگی کو مکڑی کے گھر سے تشبیہ دی ہے جو کمزور ہے اور آنِ واحد میں خراب ہو جاتی ہے۔قرآن میں اس آدمی اور اس کے گدھے کی کہانی درج ہے جس کو خدا نے موت کے بعد دوبارہ زندگی عطا فرمائی کیونکہ خدا کا ہر چیز پر اختیار ہے۔
مچھلی کے شکم میں حضرت یونسؑ نے ایک اہم دعا مانگی جس سے آج تمام اہلِ دنیا مستفیض ہوتی ہے:
پروردگار! تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔
نوحؑ نے پنی کشتی میں کئی جانوروں کے جوڑے اپنے ہمراہ لئے۔ حضرت موسیؑ کی لاٹھی زمین پر پڑتے ہی سانپ میں تبدیل ہوگئی۔
غرض کہ خدا نے قرآن میں جانوروں کو شامل کر کے یاد دلایا کہ وہ بھی اس کی مخلوقات میں سے ہیں اور ان کا بھی ادب و احترام لازمی ہے کیونکہ ان میں بھی اسی خدا نے روح پھونکی ہے جس نے انسانوں کو زندگی کا تحفہ دیا۔ جانوروں سے قدرت کے نطام میں توازن آتا ہے۔ سائنس کے مطابق شہد کی مکھیاں اگر ختم ہوجائیں تو انسانیت کی بقا خطرے میں پڑجائے گی کیونکہ خوردنی فصلوں میں سب سے زیادہ زیرگی کا عمل ان سے ممکن ہوپاتا ہے۔ شہد کی مکھیاں عالمی غذائی زنجیرکی اہم کڑی ہیں۔ نیزان سے ملنے والے شہد کے کئی طبی فوائد ہیں جیسے گلے کی خراش، بدہضمی اور دیگر امراض سے نجات پانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
موریشس میں ڈوڈو پرندہ ایک بھاری بھرکم جسم کا مالک تھا۔ اس کے پر چھوٹے تھے جس کی وجہ سے وہ اڑ نہیں پاتا تھا اور جب ولندیزی موریشس میں ۱۶۳۸ء میں آباد ہوئے تب ڈوڈو کے لذیز گوشت کا ذائقہ لیتے لیتے وہ پرندہ معدوم ہوگیا۔ ان کے ساتھ جہاز پرآئے چوہے ان کے انڈوں کو بھی کھا گئے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ پرندہ صرف موریشس میں پایا جاتا تھا۔ آج صرف اس کا ڈھانچہ عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ موریشس میں ایسی بھی چڑیاں ہیں جو صرف یہاں موجود ہیں جیسے کیسٹریل، پائی آن کے اور گلابی کبوتر جن کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ اسٹریلیا کے کوالا اور کانگورو کی طرح یہ بھی اپنے ملک کے علمبردار اورسفیرہیں اور اس زمین کے وہ بھی حق دار ہیں۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔